جو یقیں کی راہ پہ چل پڑھے انھیں منزلوں نے پناہ دی
جنھیں وسوسوں نے ڈرا دیا ، وہ قدم قدم پہ بہک گئے۔
محترم قارئین ، میرا آج کا موضوع ہے " یقین کی راہ " ۔ اس کائنات ارض و
سماء میں ان گنت انسان آئے ۔ لیکن ہر ایک مقصود زندگی کو سمجھ نہیں سکا۔
کسی کی نظر میں یہ فقط یہ اک کھیل ہے اور کسی کی نظر میں ایک امتحان۔روز
اول سےشیطان لعین ، مومن کا دشمن رہا ہے اس کا اولین مقصد مومن کو راہ
مستقیم سے ہٹانا ہے ایک حد تک وہ اس میں کامیاب بھی دکھائی دیتا ہے ۔ دنیا
کی طاغوتی طاقتوں نے ہم پہ پے در پے وار کیئے ۔ ہماری اپنے اسلاف سے نظر
چوک گئی قرآن و سنه کو چھوڑ دیا ۔ آئین شریعت اور حکم خدا مہجور ہو گئے۔
اخوت و بھائی چارے کا درس بھول گئے ۔ توحید اب صف امت میں نہیں رہی۔
مسلمانوں کا شیرازہ تنکا تنکا بکھر گیا ۔
میں پوچھتی ہوں! اس کے پیچھے کیا سبب کار فرما رہے ؟ تو اس کا جواب یہ ملتا
ہے کہ ہم یقیں کی راہ سے ہٹ گئےاور منزلیں ہماری نظروں سے اوجھل ہوگئیں ۔
ہم دشمن کے ہاتھوں کھلونا بن گئے۔ ہم نے پیغام محمدی کو بھلا دیا ۔ بنت حوا
کی بے باکی و بے حجابی نے آنے والی نسلوں کا تشخص بکھیر دیا ۔ ماڈرن ازم کی
اندھی دوڑ نے فاطمی پیرہن و پیغام ہم سے چھین لیا ۔ اپنے آپ کو برہنہ کرکے
آج کی ماڈرن ازم مخلوق یہ سمجھتی ہے کہ آزادی ان کا بنیادی حق ہے۔قرآن کو
اگر اپنی زندگی میں داخل کیا ہوتا تو سمجھ آ جاتی کہ عورت کو سب سے پہلے
مقام دیا ہی اسلام اور قرآن نے ہے ۔ ورنہ دور جاہلیت میں عورت کو جس طرح
عکاظ کی منڈیوں میں بیچا جاتا تھا ۔ تاریخ کے اوراق ان داستانوں سے بھرے
پڑے ہیں ۔ آج کی عورت نے اپنا مقام خود کھویا ہے ۔آج ہم کہاں سے مانگے صلاح
الدین ایوبی کو ، کہاں سے آئیں گے وہ حیا دار وہ عصمت شعار اور غیرت مند
بیٹے ، جو قوم کا بکھرتا شیرازہ تھامیں گے۔ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے
آشیانے کو آگ لگائی ہے ۔ اسی لئے آنیوالی نسل میں وہ شعور ہی بیدار نہیں
ہورہا جو کہ حسینی کردار میں تھا ۔ آج ہم کیسے حسینی بیٹے کا تصور کر سکتے
ہیں کہ ان بیٹوں کے لئے فاطمی کوکھ ضروری ہے ۔ملک پاکستان کی باگ ڈور آج ان
ہاتھوں میں ہے
جنہیں یہ گمان ہے کہ اگر ہم نے ان طاقتوں کے سامنے سر اٹھایا تو ہم بے
سروساماں ہو جائیں گے ۔ ہمیں امداد ملنا بند ہو جائے گی ہم ملک کی عسکری
قیادت نہ سنبھال پائیں گے ۔ہم اپنا ملکی و قومی تشخص بچا نہیں پائیں گے
۔میں آج بڑے افسوس سے یہ کہنا چاہوں گی کہ ان کو تجدید ایمان کی ضروت ہے ۔
اسلام اور پاکستان کی بقا فقط یقین پہ محکم ہے ۔ اسلام کے سب سے پہلے سپہ
سالار جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یقین محکم کی ایک بے مثال
تاریخ رقم کی۔ پوری دنیا گواہ ہے اس سپہ سالار نے یہ جنگ جیت لی ۔ یہی یقین
جب مسلمانوں کے خون میں دوڑا تو 313 کا جتھہ ، ہزاروں کی تعداد میں کفار کے
آگے ڈٹ گیا اور اللہ نے انھیں فتح و نصرت سے سرفراز کیا۔ وہ اہل خبر ،
جانباز نڈر تھے ،انکے قلب و نظر دین پہ قربان تھے، انکی شام و سحر حق پہ
بسر تھی، وہ باطل کے مقابل سینہ سپر تھے ،اس وقت کی ریاست کے حکمران (ابو
بکر صدیق ) اس طریق پہ چلتے دکھائی دئیے کہ میری اجرت ایک مزدور کے برابر
مقرر کرو ، اگر میرا گزارا نہ ہوا تو مزدور کی اجرت بڑھا دونگا ۔یہ وہی رجل
عظیم تھے یقین محکم اور عمل پہیم جنکا پیرہن تھا ۔تم عمر فاروق کی حیات کے
وہ اوراق کھولو جب وہ حکومتی اداروں کو چلاتے دکھائی دئیے ۔ آپکے یہ الفاظ
آج بھی مرد مومن کے دلوں کو دبوچ لیتے ہیں کہ
"" 1400 مربع میل کی حکومت میں دریا کے کنارے اگر بکری کا بچہ بھی مر گیا
تو کل قیامت کر دن اللہ اس کا حساب بھی عمر سے لے گا" ۔
14 اگست 1947ء اسی یقین کی لازوال داستاں ہے ، جس نےبریسٹر محمد علی جناح
کو سونے نہیں دیا ۔ طارق بن زیاد نے کشتیاں اسی یقین کے ہاتھوں جلائیں، اور
اقبال کے خواب کو سچ کر دکھایا ۔
"جو یقیں کی راہ پہ چل پڑھے انھیں منزلوں نے پناہ دی ،
" جو ان راہوں کے مسافر ہوں تو وہ تاریخ میں عمر فاروق ، حسین ابن علی۔
حکیم الامت ڈاکٹر علامہ اقبال، قائد اعظم محمد علی جناح ،فاطمہ جناح ،
ڈاکٹر عبدالقدیر خان، جیسے نام پیدا کر کے جاتے ہیں اور بتا کے جاتے ہیں کہ
مسلمانوں نے ابھی پیغام الفت کو سینے میں جگہ دی ہے
ملک پاکستان عطائے خداوندی ہے یہ حضور نبی اکرم ﷺ کی بشارت ہے اقبال کا
خواب اور قائد کی امنگ ہے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں رجل کی لازوال
قربانیوں کا ثمر ہے ۔جب یہ ریاست وجود میں آگئی تو اسی ملک پاکستان کے طرز
حکومت کے متعلق قائد سے پوچھا گیا تو اس عظیم لیڈر کے الفاظ تاریخ میں
سنہری حروف سے لکھے گئے ۔ قائد نے فرمایا کہ میں کون ہوتا ہوں پاکستان کے
طرز حکومت کا تعین کرنے والا ۔ پاکستان کا طرز حکومت آج سے 1300 سال قبل
قرآن کریم میں وضاحت سے بیان کر دئیے گئے ہیں ۔ الحمداللہ قرآن ہماری
راہنمائی کےلئے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا ۔
اس قائد کا جب وقت آخر آیا تو اس نے برطانیہ یا کسی اور ملک میں اپنا علاج
کروانے کی بجائے اپنے ملک کو اور اسکی بقا کو ترجیح دی ۔ وہ جانتے تھے کہ
وقت بہت کم ہے اور کام زیادہ ہے ۔ وہ عوام کا سچا اور پکا لیڈر محمد علی
جناح ہم آج بھی اپنی صفوں میں تلاشتے ہیں ۔
کل جن عوانوں میں انصاف کے ترازو تولے جاتے تھے آج وہاں ظلم کی چکی پستی ہے
۔ ماؤں بہنوں کے متعلق دشنام درازی کرنا اپنا حق اولین سمجھا جاتا ہے ۔ ہر
فرد دوسرے فریق سے گھتم گھتا ہے ، اقتدار کی حوس نے اخلاقیات کا جنازہ نکال
دیا ہے ۔ اسلامی تعلیمات سے نابلد یہ نفوس کیا کسی کی چارہ گری کریں گے
جنکے اپنے حوصلے اتنے پست ہیں۔ جنھیں وسوسوں نے ستایا ہوا ہے ، جو موت کے
خوف سے سو نہیں پاتے ۔اک بار تم تاریخ کے وہ اوراق بھی پلٹ کے دیکھو جب
خواتین 1965 کی جنگ عظیم میں سرگودھا کے محاذ پہ آگ برساتے دشمن طیاروں کے
سامنے ڈنڈے لے کر کھڑی ہوگئی اور آنیوالی نسلوں کو یہ پیغام دے دیا کہ یقین
اور جرات مندی کے ساتھ میدان عمل میں اترو ۔اپنے کم سن بچوں کو بزدلی کی
بجائے حوصلے اور استقامت کا درس دیا ۔ التماس ہے کہ آنیوالی نسل کی بقا کے
لئے امت اپنے اصل کی طرف رجوع کر لے۔ قرآن اور سنت سے اپنا رشتہ استوار کر
لے ۔
|