یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ قربانی سنتِ
ابراہیمی ہے اس کا کوئی متبال نہیں ، جو لوگ یہ باور کروانے کی ناکام کوشش
کر رہے ہیں کہ قربانی کے جانوروں کی خریداری پر خرچ ہونے والی رقم سے غریب
بیماروں کا علاج ، غریب بچیوں کے جہز وغیرہ پر خرچ کیا جائے۔ یاد رکھیں ۔
انبیاء کرام علیہ اسلام کی کسی بھی سنت کا کوئی متبال نہیں اور پھر اس عظیم
الشان قربانی ۔۔۔ قربانی کا مقصد جاننے کیلئے ۔۔۔ عرض ہے
تیرہ سال کی عمر کے ۔حضرت اسماعیل علیہ السّلام مکّے کی مقدّس فضاؤں میں
آبِ زَم زَم پی کر اور صبر و شُکر کی پیکر، عظیم ماں کی آغوشِ تربیت میں
پروان چڑھتے ہوئے بہترین صلاحیتوں کے مالک، خُوب صورت نوجوان کا رُوپ دھار
چُکے تھے کہ ایک دن حضرت ابراہیم علیہ السّلام تشریف لائے اور فرمایا’’اے
بیٹا!مَیں خواب میں دیکھتا ہوں کہ (گویا) تمھیں ذبح کر رہا ہوں، تو تم سوچو
کہ تمہارا کیا خیال ہے؟(فرماں بردار بیٹے نے سرِ تسلیمِ خم کرتے ہوئے
فرمایا)،ابّا جان! آپؑ کو جو حکم ہوا ہے، وہی کیجیے۔اﷲ نے چاہا، تو آپؑ
مجھے صابرین میں پائیں گے۔‘‘(سورۃ الصٰفٰت102:37) حضرت اسماعیل علیہ
السّلام کا یہ سعادت مندانہ جواب دنیا بھر کے بیٹوں کے لیے آدابِ فرزندی کی
ایک شان دار مثال ہے۔ اطاعت و فرماں برداری اور تسلیم و رضا کی اس کیفیت کو
علّامہ اقبالؒ نے یوں بیان کیا یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت
تھی…سِکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی۔
حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے بیٹے کا جواب سُنا، تو اُنہیں سینے سے لگایا
اور حضرت ہاجرہؑ کے پاس لے آئے۔ فرمایا’’اے ہاجرہؑ!آج ہمارے نورِ نظر کو آپ
اپنے ہاتھوں سے تیار کر دیجیے۔‘‘ممتا کے مقدّس، شیریں اور اَن مول جذبوں
میں ڈوبی ماں نے اپنے اکلوتے بیٹے کو نئی پوشاک پہنائی۔ آنکھوں میں سُرمہ،
سَر میں تیل لگایا اور خُوش بُو میں رچا بسا کر باپ کے ساتھ باہر جانے کے
لیے تیار کر دیا۔اسی اثنا میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام بھی ایک تیز دھار
چُھری کا بندوبست کر چُکے تھے۔ پھر بیٹے کو ساتھ لے کر مکّے سے باہر مِنیٰ
کی جانب چل دیئے۔شیطان نے باپ، بیٹے کے درمیان ہونے والی گفتگو سُن لی تھی۔
جب اُس نے صبر و استقامت اور اطاعتِ خداوندی کا یہ رُوح پرور منظر دیکھا،
تو مضطرب ہو گیا اور اُس نے باپ، بیٹے کو اس قربانی سے باز رکھنے کا فیصلہ
کر لیا۔ چناں چہ’’جمرہ عقبیٰ‘‘ کے مقام پر راستہ روک کر کھڑا ہو گیا۔حضرت
ابراہیم علیہ السّلام کے ساتھ موجود فرشتے نے کہا’’یہ شیطان ہے، اسے
کنکریاں ماریں۔‘‘حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے’’اﷲ اکبر‘‘کہہ کر اُسے سات
کنکریاں ماریں، جس سے وہ زمین میں دھنس گیا۔ ابھی آپؑ کچھ ہی آگے بڑھے تھے
کہ زمین نے اُسے چھوڑ دیا اور وہ’’جمرہ وسطیٰ‘‘ کے مقام پر پھر وَرغلانے کے
لیے آ موجود ہوا۔حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے دوبارہ کنکریاں ماریں، وہ
پھر زمین میں دھنسا، لیکن آپؑ کچھ ہی آگے بڑھے تھے کہ وہ’’جمرہ اولیٰ‘‘ کے
مقام پر پھر موجود تھا۔حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے تیسری بار’’اﷲ
اکبر‘‘کہہ کر کنکریاں ماریں، تو وہ زمین میں دھنس گیا۔اﷲ تبارک وتعالیٰ کو
ابراہیم خلیل اﷲؑ کا شیطان کو کنکریاں مارنے کا عمل اس قدر پسند آیا کہ اسے
رہتی دنیا تک کے لیے حج کے واجبات میں شامل فرما دیا۔
شیطان حضرت ہاجرہؑ کی خدمت میں
شیطان اپنی ناکامی پر بڑا پریشان تھا۔ تینوں مرتبہ کی کنکریوں نے اس کے جسم
کو زخموں سے چُور کر دیا تھا، اچانک اسے ایک نئی چال سوجھی اور وہ عورت کا
بھیس بدل کر بھاگم بھاگ حضرت ہاجرہؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بولا’’اے
اسماعیلؑ کی ماں! تمہیں علم ہے کہ ابراہیمؑ تمہارے لختِ جگر کو کہاں لے گئے
ہیں؟‘‘ حضرت ہاجرہؑ نے فرمایا’’ہاں،وہ باہر گئے ہیں، شاید کسی دوست سے ملنے
گئے ہوں۔‘‘ شیطان نے اپنے سَر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا ’’وہ تیرے بیٹے کو
ذبح کرنے وادی? منیٰ میں لے گئے ہیں۔‘‘حضرت ہاجرہؑ نے حیرت اور تعجّب کا
اظہار کرتے ہوئے فرمایا’’یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شفیق اور مہربان باپ اپنے
چہیتے اور اکلوتے بیٹے کو ذبح کردے؟‘‘اس موقعے پر بے ساختہ شیطان کے منہ سے
نکلا’’وہ یہ سب اﷲ تعالیٰ کے حکم پر کر رہے ہیں۔‘‘یہ سُن کر صبر و شُکر اور
اطاعت و فرماں برداری کی پیکر، اﷲ کی برگزیدہ بندی نے فرمایا’’اگر یہ اﷲ
تعالیٰ کا حکم ہے، تو ایک اسماعیلؑ کیا، اس کے حکم پر 100اسماعیلؑ قربان
ہیں۔‘‘آخر میں بس یہی گزارش ہے کہ یاااﷲ مسلمانوں کی ماؤں کو حضرت ہاجرہؑ
جیسی صابرہ شاکرہ نیک سیرت مائیں نصیب فرما آمین
|