آج بچوں کو سونے کے لیے نیند کی گولی کی ضرورت ہے... والدین جاگ جائیں ورنہ انٹرنیٹ بچوں کی زندگیاں تباہ کردے گا

image
 
صبا کے لئے اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ کسی نعمت سے کم نہیں تھا، جب اس کا بیٹا ہیشم تنگ کرتا وہ نیٹ پر اسکی پسندیدہ نظم یا کارٹون لگا دیتی اور اس کا بیٹا گھنٹوں موبائل میں مصروف رہتا۔ صبا سوچتی تھی کہ پتا نہیں پچھلے زمانے کی مائیں اپنے بچوں کو کس طرح بہلاتی تھیں وہ کتنا تھک جاتی ہوں گی۔ ہیشم اب 4 سال کا ہو چکا تھا لیکن وہ کچھ بول نہیں سکتا تھا جو آوازیں وہ نکالتا وہ مختلف زبانوں کا مرکب ہوتیں اور نہ ہی بچہ موبائل کے علاوہ کسی چیز پر توجہ مرکوز کر پاتا اور موبائل نہ دینے کی صورت میں شدید غصے کا اظہار کرتا، بلکہ وہ تو کسی سے آنکھیں بھی نہیں ملانا چاہتا تھا۔ ڈاکٹرز کو دکھایا گیا تو آٹزم کا شک بتایا گیا لیکن بچے کو جب مشاہدے کے زریعے جانچا گیا تو پتا چلا کہ بچے کی دماغی کیفیت کی وجہ بے جا موبائل فون کا استعمال ہے بچے نے اسی میں اپنی دنیا آباد کر لی ہے۔
 
آجکل کم وبیش ہر بچہ ان حالات کا شکار ہے۔ بچے گھر میں رہنا پسند کرتے ہیں لوگوں میں گھلنا ملنا پسند نہیں کرتے، دوست بنانا نہیں چاہتے، ماں باپ کہیں آؤٹنگ پر لے جائیں تو شدید بوریت کا اظہار کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ رات گئے تک انٹرنیٹ پر وقت گزارنا ان کا معمول ہو گیا ہے جس کی وجہ سے وہ اسکول میں پڑھائی کے دوران انتہائی بد دلی کے ساتھ وقت گزارتے ہیں کیونکہ وہ اسکول اور پڑھائی میں کوئی دلچسپی محسوس نہیں کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسا عموماً خاموش مزاج بچوں کے ساتھ ہوتا ہے جو دوست بنانے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔ اور انٹرنیٹ پر ایسے ہی بچوں کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے اور بہلا پھسلا کر ان کو غلط کاموں کی طرف لایا جاتا ہے۔ یہ وہ مشاہدات ہیں جو آجکل کے اساتذہ اپنے طالبعلموں میں محسوس کر رہے ہیں۔ یہ مسئلہ ان دنوں ساری دنیا میں زیر بحث ہے اور اساتذہ اور والدین دونوں ہی فکرمند ہیں کہ آیا ان کے بچوں کو انٹرنیٹ کے نقصانات سے کیسے بچایا جائے آخر ایسا کوئی قانون کیوں نہیں بنایا جا رہا جو ان بچوں کی حفاظت کو مدنظر رکھ کر بنایا جائے کیونکہ اس پر کنٹرول تقریباً ناممکن ہی ہوتا جا رہا ہے۔ بچے کی حفاظت کی سب سے پہلی ذمہ داری تو والدین پر عائد ہوتی ہے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ پہلے بچہ گھر سے باہر جاتا تھا تو اس کو حفاظت کی ضرورت ہوتی تھی لیکن اب تو مختلف ویب سائٹس کے ذریعے بچوں کو ٹارگٹ کرنے والے کریمینلز گھروں کے اندر تک پہنچ چکے ہیں۔
 
اپنے بچوں کو آن لائن محفوظ رکھنے کے لیے والدین کو کیا جاننے کی ضرورت ہے:
والدین سمجھتے ہیں کہ بچہ گھر میں محفوظ ہے جبکہ وہ آن لائن ہوتے ہوئے کیا دیکھ رہے ہیں، کن لوگوں سے باتیں کر رہے ہیں، کس قسم کے گیمز کھیل رہے ہیں۔ اپنے بارے میں دوسروں کو کیا معلومات فراہم کر رہے ہیں یا وہ کوئی ایسی ویڈیوز دیکھ سکتے ہیں جو ان کے دماغ کو شدید متاثر کرسکتی ہے۔ یہ سب جاننا بہت ضروری ہے اور ایک طرح سے یہ ٖفل ٹائم جاب ہے۔ بچے کا معصوم دماغ تفریح کے ساتھ ساتھ ایک انتشار بھی محسوس کرتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ والدین اپنے سامنے بچوں کو بیٹھا کر انٹرنیٹ کے استعمال کی اجازت دیں اور موبائل اور ٹیب جیسے آلات کا پاس ورڈ اور کنٹرول والدین کے ہاتھ میں ہو۔ بچے سے دوستی رکھیں اور گاہے بگاہے اس کو واقعات کے زریعے انٹرنیٹ کے زریعے ہونے والے کرائمز سے آگاہ کریں ان کی ٹریننگ کریں کہ کسی صورت وہ اپنی پرسنل معلومات کسی کو فراہم نہیں کریں۔
 
image
 
آن لائن گیمز ایک نشہ ہے بڑوں کو اس پر کنٹرول نہیں تو بچے کیسے اپنے آپ کو کنٹرول کریں گے۔ بچوں میں آن لائن گیمز کھیلنے کی اتنی لت پڑ جاتی ہے کہ ڈاکٹرز کے مطابق ایسے کیسز سامنے آئے ہیں کہ بچوں کو سونے کے لیے نیند کی دوائیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک حالیہ جنون یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ واٹس ایپ گروپ میں کون سب سے زیادہ دیر تک آن لائن رہ سکتا ہے – جس نے 04:00 بجے صبح آخری پیغام بھیجا فاتح قرار پایا ۔اسی طرح ایک گیم انٹرنیٹ پر تیزی سے مشہور ہوا تھا جس میں بچوں نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے لائیو خودکشی کے مظاہرے کرنے ہوتے تھے۔ والدین یقیناً اپنے بچوں کی اس حرکت سے ناواقف تھے۔ ان کیسز کے بعد ردعمل کے طور پر اس گیم کی شدید مخالفت کی گئی۔ بہتر نہیں ہے کہ ہم بغیر کسی نقصان کے اپنے بچوں کے لئے ایک باحفاظت ماحول کا انتخاب کریں۔
 
برطانیہ میں اسکولوں کی جانب سے والدین کے لئے مختلف ورکشاپس کی جا رہی ہیں تاکہ والدین کو ان ویب سائٹس کو کنٹرول کرنے کے طریقے بتائے جائیں۔ ویب سائٹس پر بچے کی عمر کی حد کی پابندی لگانے کی اشد ضرورت پر سخت حکومتی اقدامات کی طرف برطانوی پارلیمنٹ کی توجہ دلائی جا رہی ہے تاکہ ان اقدامات کی پیروی نہ کرنے کی صورت میں جرمانے مختص کیئے جائیں۔ ہم فلموں کے لئے تو پیرنٹل گائیڈنس کی اصطلاح سے واقف ہیں لیکن انٹرنیٹ کے استعمال پر اس طرح کی حدود کیوں نہیں ہیں؟
 
اب یہ ٹک ٹاک ٹرینڈ نے نوجوان نسل کے لئے نئی راہیں کھول دی ہیں جس میں کوئی عمر کی قید نہیں بچے بڑے سب اس ٹرینڈ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ ہر چیز کے اچھے برے پہلو ہوتے ہیں۔ برے پہلو سے حفاظت کے لئے یقیناً کوئی کاروائی ضروری ہوتی ہے۔ اس کے لئے بھی والدین بہت زیادہ ذمہ دار ہیں۔
 
image
 
اپنے بچے کی حفاظت ہمارا اولین فرض ہے۔ اپنی تمام مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کر بچے پر توجہ دینا ان کا بنیادی حق ہے۔ ہم بچے کو ہر طرح کی سہولیات تو فراہم کر رہے ہیں لیکن ان کو ان سہولیات کے صحیح استعمال کے لئے تیار نہیں کر رہے۔ ہمیں دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے ہی ایسے اقدامات کرنے چاہیئں جو ہمیں اور ہمارے بچوں کو مستقبل کے کسی نا خوشگوار واقعات سے محفوظ رکھ سکیں۔
YOU MAY ALSO LIKE: