|
|
مسز زبیر رشتے کرواتی تھیں سب سے زیادہ مشکل انھیں اس
وقت پیش آتی تھی جب ان سے کہا جاتا کہ ہماری ہی ذات کا یا ہماری ہی برابری
کا کوئی رشتہ تلاش کر دیں۔ حال ہی میں ایک لڑکا لڑکی ان کے پاس آئے اور ان
سے درخواست کی کہ ان کے ماں باپ کو منائیں کیونکہ ان کے والدین اپنی ذات سے
باہر رشتہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔ دونوں میڈیکل کالج کے اسٹوڈنٹس تھے۔ وہ
اپنے کیرئیر کا آغاز ساتھ مل کر کرنا چاہتے تھے ظاہر ہے دونوں ایک دوسرے کو
سمجھتے بھی تھے پانچ سال ساتھ گزارے تھے بہت سے مشکل مرحلوں میں ایک دوسرے
کا بازو بنے تھے۔ مسز زبیر کی انتھک کوششوں کے باوجود بھی لڑکی کے والدین
نہ مانے بلکہ ان کے مطابق وہ خاندان میں اپنی بیٹی کا رشتہ طے کر چکے ہیں
اور لڑکا اچھا بزنس مین ہے ان کی بیٹی کو خوش رکھے گا۔ وہ سوچ میں پڑ گئیں
کہ بچے ماں باپ کی رضامندی کے ساتھ شادی کرنا چاہتے ہیں تو ان کو اس
فرمانبرداری کا یہ صلہ دیا جا رہا ہے۔ |
|
آخر کب تک یہ رسم و رواج شادیوں میں رکاوٹ کی وجہ بنیں
گی۔ ہمارا مذہب بھی اجازت دیتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ لیں سمجھ لیں۔
کتنی ہی لڑکیاں اس بنیاد پر بیٹھی رہ جاتی ہیں کیونکہ ان کے والدین اور
خاندان کے سربراہ اپنی ذات میں رشتہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اسی میں
وقت نکل جاتا ہے۔۔۔۔۔ |
|
آخر بچوں کی شادی کرنے کے لئے کن چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہے؟ |
ہر کسی کی اپنی ڈیمانڈ ہوتی ہے عموماً لوگ چاہتے ہیں کہ لڑکا بہت اچھا
کماتا ہو تاکہ ان کی بیٹی کو ہر طرح کی آسائشیں فراہم کر سکے۔ کیا اچھی
زندگی گزارنے کے لئے صرف پیسہ چاہئے ہوتا ہے چاہے اس انسان کے پاس آپ کی
بیٹی کے ساتھ گزارنے کے لئے دو گھڑیاں بھی نہ ہوں۔ وہ ساری زندگی اپنے شوہر
کی توجہ کو ترستی رہے۔ ایسی صورت میں وہ جذبات سے عاری سونے کے پنجرے میں
بند چڑیا کی مانند زندگی گزار رہی ہوتی ہے۔ |
|
|
|
بعض لوگوں کی ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ بہت چھوٹا خاندان ہو
تاکہ کم جھمیلے ہوں۔ لڑکی گھریلو سیاست سے بچی رہے۔ لیکن دیکھا یہ گیا ہے
کہ خاندان کے افراد ایک دوسرے کا سہارا ہوتے ہیں شوہر کسی وجہ سے مصروف ہے
تو بیوی اس کے گھر والوں کے ساتھ اچھا وقت گزار لیتی ہے- خاص طور پر
تہواروں اور تقریبات میں ایک بڑے خاندان کے لوگ ایک گروہ کی مانند ہوتے ہیں۔
مشکل وقت میں یہ ہی خاندان والے کام آتے ہیں۔ |
|
حقیقی طور پر تو یہ سب خصوصیات اندیشوں سے بھری ہوتی ہیں صحیح بھی ثابت ہو
سکتی ہیں غلط بھی۔۔۔ لیکن کیا ہم رشتہ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ جس سے رشتہ
جوڑا جا رہا ہے وہ کیسا انسان ہے، کیا وہ زندگی گزارنے کے آداب سے واقف ہے
اور انصاف پسند ہے کہ نہیں؟ ہم اس کی نوکری اور کمائی کا تو پتا کروا لیتے
ہیں لیکن خود یہ کوشش نہیں کرتے کہ کچھ ملاقاتوں کے زریعے اس کی شخصیت کی
جانچ پڑتال کی جائے۔ کوئی بھی انسان ہو وہ چند ملاقاتوں ہی میں اپنی تربیت
کے رنگ کسی نہ کسی صورت میں ظاہر کر دیتا ہے۔ اس لئے شادی کرنے کے لئے سب
سے بنیادی چیز تربیت دیکھنی چاہیے۔ یہ ہی خاندانی پن ہے۔ روپیہ قسمت اور
محنت سے آتا ہے۔ |
|
|
|
جس کی تربیت اچھی ہوگی وہ کسی طور پر کم از کم ناانصافی
نہیں کرے گا- اسے خوف ہو گا کہ وہ اپنے معاملات میں خدا کے سامنے جوابدہ ہے
، اچھا انسان ہونے کے ناتے وہ اپنے جیون ساتھی کا ہر حال میں ساتھ نبھانے
کی کوشش کرے گا۔۔۔۔ لہٰذا بہتر ہے کہ ہم ان دیر پا خصوصیات پر توجہ دیں اور
اپنی سوچ کو بدل لیں اپنے اندر بوئے ہوئے تکبر کے بیج کو نکال پھینکیں اور
اپنے اور اپنے بچوں کے لئے آسانیاں پیدا کریں۔ مختلف لوگوں کے امتزاج سے
خاندان میں نئے رنگ بھرتے ہیں کچھ ہماری اچھی چیزیں دوسرے اپناتے ہیں کچھ
دوسروں کی اچھی روایات کو ہم اپنا لیتے ہیں خاندان میں تنوع(diversity)
پیدا ہوتی ہے۔ آخرسب لوگ ایک آدم اور حوا کی اولادیں ہی تو ہیں! |