برطانیہ کے ایک اعلیٰ سائنسدان نے بڑھتی ہوئی انسانی
آبادی کو ایک خطرناک طوفان قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا میں دو ہزار تیس
تک خوراک ، توانائی اور پانی کا بحران شدت اختیار کر سکتا ہے۔لندن میں ’دیر
پا ترقی‘ کے عنوان سے ہونے والی ایک کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر جوْن
بیڈنگٹن نے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دو ہزار تیس تک دنیا کی آبادی
آٹھ ارب تیس کروڑ تک پہنچ جائے گی جس کی وجہ سے خوراک اور توانائی کی مانگ
میں پچاس فیصد اور صاف پانی کی مانگ میں تیس فیصد اضافہ ہو گا۔انھوں نے کہا
کہ وسائل کی طلب میں اضافے کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران کے نتائج خطرناک
ثابت ہونگے جبکہ غیر متوقع طور پر ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیاں مسائل کو
شدید تر کر سکتی ہیں۔انہوں نے خطاب میں مزیدکہا کہ جس طرح ان دنوں دنیا ایک
مالیاتی بحران کی زد میں ہے با لکل اسی طرح مستقبل میں خوراک ، پانی اور
توانائی کا بحران آسکتا ہے۔جبکہ اقوام متحدہ کی پیشن گوئی کے مطابق کہ
2025ء تک پانی کی کمی کا بحران افریقہ، یورپ اور ایشیا کو اپنی لپیٹ میں لے
سکتا ہے۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق ہر سال 11 ملین افراد غیر صحت بخش غذا کی
وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ بلا شبہ یوکرین جنگ کی وجہ سے خوراک،
ایندھن اور کھاد کے بحران میں اضافہ، قحط کا باعث بن سکتا ہے، اور اس کے
نتیجے میں "عالمی سطح پر عدم استحکام، فاقہ کشی، اور بڑے پیمانے پر نقل
مکانی بے مثال پیمانے پر ہو سکتی ہے۔ اس وقت بنی نوع انسان کو "دوسری جنگ
عظیم کے بعد خوراک کے سب سے بڑے بحران" کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جبکہ
خوراک کے بحران کے تناظر میں، امریکہ ہمیشہ کی طرح دوسروں کو مورد الزام
ٹھہرا رہا ہے۔ بائیڈن نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ روس کا یوکرین پر
حملہ خوراک کی کمی کا باعث ہے۔ اس کے ساتھ ہی امریکی میڈیا نے بھی بڑے
پیمانے پر یہ دلیل دینا شروع کر دی کہ "پوٹن کی شروع کردہ جنگ عالمی خوراک
کے بحران کا باعث بنی ہے "۔ دنیا میں سپرپاور کہلانے والے ملک امریکہ کی
جانب سے ایسے بیانات سامنے آنے سے "خوراک کا بحران" فوری طور پر لوگوں کی
توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔روس اور یوکرین دنیا کے سب سے بڑے اناج برآمد کرنے
والے ممالک میں شامل ہیں، دونوں کے مابین تنازعہ نے خوراک کی عالمی فراہمی
کو غیر یقینی صورتحال اور عدم استحکام سے دوچار کر دیا ہے۔جبکہ دوسری طرف
یوکرین کی صورتحال نے دنیا کی زندگی اور بھی مشکل میں ڈال دی ، اس وقت ایک
ہنگامی صورت حال کا سامنا ہے اور وہ صورتحال غذائی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا
ہے کہ یوکرین جنگ کی وجہ سر اٹھانے والا غذائی بحران لاکھوں جانیں نگل سکتا
ہے۔گلوبل فنڈز ٹو فائٹ ایڈز، ٹی بی اینڈ ملیریا کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پیٹر
سینڈز کا جی 20 وزرائے صحت کے اجلاس کے موقع پر ایک انٹرویو میں کہنا تھا
کہ صحت کے بحران کا آغاز ہو چکا ہے مگر یہ کسی نئے جرثومے کی وجہ سے نہیں
بلکہ اس لیے ہے کہ لوگ خوراک کی کمی کے باعث بیماریوں کا زیادہ شکار ہوں
گے۔ متعدی امراض، خوراک کی کمی اور توانائی کے بحران کے مجموعی اثرات کے
باعث لاکھوں اموات معمول کی اموات کے علاوہ ہیں۔پانچ برس تک کی عمر کے قریب
80 لاکھ بچے غذا کی قلت کے سبب موت کے خطرے سے دو چار ہیں۔ سب سے زیادہ
خطرے کا شکار ان 15 ممالک کے بچے ہیں جہاں اس وقت خوراک کی قلت ہے۔ ان میں
افغانستان، یمن، ایتھوپیا اور ہیٹی بھی شامل ہیں۔ یونیسف کے مطابق موت کے
خطرے سے دوچار ایسے بچوں کی تعداد ہر منٹ بڑھ رہی ہے۔ اس بگڑتی صورتحال کی
ایک وجہ روس کے یوکرین پر حملے کے سبب عالمی سطح پر اشیائے خوراک کی بڑھتی
ہوئی قیمتیں بھی ہیں۔لیکن کیا خوراک کی موجودہ بلند قیمتوں اور بحران میں
سب سے اہم عنصر یہی ہے؟ ۔دنیا کی سب سے بڑی ویٹ فیوچر مارکیٹ، امریکہ کی
شکاگو اسٹاک ایکسچینج میں گندم کی فیوچر پرائس سات تا آٹھ مارچ کو بہت تیزی
سے بڑھی، یاد رہے کہ 8 مارچ کو ہی بائیڈن نے روسی تیل اور گیس پر پابندی کا
اعلان کیا، اْس دن یورپ میں گیس کی قیمت 20 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ
گئی۔ قدرتی گیس اور گندم کی قیمتیں بیک وقت بڑھنے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ
زرعی پیداوار کے لیے نائٹروجن کھاد کا بنیادی خام مال قدرتی گیس سے آتا ہے۔
لہٰذا، روس کے خلاف امریکی پابندیوں نے بلاشبہ خوراک کی قیمتوں میں اضافے
میں اہم کردار ادا کیا ہے ، لہذا یہاں امریکی کردار پر سوالات تو لازمی
اٹھتے ہیں۔خوراک کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ 2020 ء میں شروع ہوا تھا ، اس
کا مطلب یہ ہوا کہ کورونا وائرس کی وبا نے خوراک کی پیداوار اور فراہمی پر
اثر ڈالا ، تاہم ایک اور پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ توانائی کی
طرح، اناج کا بھی فیوچر مارکیٹ میں لین دین جاری ہے، اور تمام اشیاء کی
قیمتیں امریکی ڈالر میں طے ہوتی ہیں، اس لیے اناج بھی براہ راست امریکی
ڈالر سے متاثر ہوتا ہے۔ " اناج کے چار بڑے تاجر" دنیا کی متعلقہ فوڈ ٹریڈنگ
مارکیٹ کے تقریباً 80فیصد تا 90فیصد کی تجارت کرتے ہیں، اور ان میں سے تین
امریکی کمپنیاں ہیں اور ان کے امریکی حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ ظاہر
ہے کہ بین الاقوامی اناج کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ امریکہ نے
انتہائی فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت زیادہ پیسہ کمایا ہے۔ خوراک کی عالمی قیمتیں
ایک نئی بلند ترین سطح پر پہنچے کی ایک اور اہم وجہ امریکہ نے تیل سے بنے
پٹرول اور ڈیزل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو روکنے کے لیے بائیو فیول آئل بشمول
بائیو ایتھانول اور بائیو ڈیزل کا استعمال ہے۔امریکہ دنیا کا سب سے بڑا
ایتھانول پیدا کرنے والا ملک ہے۔ 2021 ء میں، امریکہ نے بائیو ایتھانول کی
پیداوار کے لیے تقریباً 135 ملین ٹن اناج استعمال کیا جو آسٹریلیا کی اْسی
سال اناج کی کل پیداوار کا تقریباً 2.5 گنا ہے۔بائیو ڈیزل کی تیاری کے لیے
بھی بہت زیادہ خوراک کی ضرورت ہے ۔ بین الاقوامی اناج کونسل کے اعداد و
شمار کے مطابق 2021 ء تا 2202 ء کے مالی سال میں، امریکہ میں بائیو ایندھن
کی تیاری کے لیے تقریباً 170 ملین ٹن اناج استعمال کیا گیا ، جو کہ امریکہ
میں اناج کی کل کھپت کے 47.4 فیصد کے برابر تھا۔ خوراک کی اتنی بڑی مقدار
کو ایندھن میں تبدیل کر دیا گیا ہے، اس سے اناج کی قیمتوں میں بالواسطہ
اضافہ سے خوراک کے بحران میں مزید اضافہ ہوا ۔ در حقیقت امریکہ نے ہمیشہ
عالمی مارکیٹ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی بھر پور کوشش کی اورڈھٹائی
سے خوراک کے بحران کا ملبہ روس پر ڈال دیا۔
|