مہنگائی کے مارے

بہت سالوں بعد مجھے میرے دوست میاں جی کا فون آیا ہائی سکول میں میرا کلاس فیلو تھا میڑک میں فیل ہوا پڑھائی چھوڑ کر کسی الیکٹریشن کے ساتھ اُس کا چھوٹا بن کر الیکٹریشن کی ٹرینگ لینے لگا سفید پوش انسان تھا جب اِس مزدوری پر لگا تو شرمندگی کی دلدل میں دھنستا چلا گیا ہم دوستوں سے بھی دور ہو گیا میں کالج پھر یونیورسٹی اور بعد میں نوکری کے سلسلے میں کوہ مری چلا گیا تو سلسلہ ختم ہو کر رہ گیا چند سال پہلے اِس کے کسی عزیز نے میری روحانی باتوں اور سلسلے کا ذکر کیا ساتھ میں اِس خواہش کا اظہار بھی کہ ہم پروفیسر صاحب سے ملنا چاہتے ہیں اِس بیچارے نے بڑھک ماری کہ میں کلاس فیلو ہوں اب اس کا میرے سے رابطہ نہیں تھا اِس نے لوگوں سے میرا نمبر لیا اور کئی سالوں بعد مجھے فون کیا پہلے تو مجھے پہچاننے میں مشکل پیش آیا لیکن تھوڑی گفتگو کے بعد میں پہچان گیا تو بہت خوش ہوا اور بولا یار تم بہت بڑے آدمی بن گئے ہو میں مزدور کا مزدور لیکن اگر تم میری مدد کرو تو میں بہت احسان مند ہو نگا میں نے خوشدلی سے کہا میاں تم حکم کرو کیا کام ہے تو بولا یار میری بیٹی اور تمہاری بھتیجی کے سسرال والوں کے عزیز تم سے ملنا چاہتے ہیں میں نے اُن کے سامنے یہ بڑھک ماری ہے کہ تم میرے کلاس فیلو اور دوست ہو جبکہ حقیقت میں ہم کئی سالوں سے ملے ہی نہیں اب میں اُن کے ساتھ کسی دن تم سے ملنے آؤں گا یار تم اچھی طرح سے مل لینا بیٹی کا سسرال ہے میری عزت بن جائے گی ساری بات سننے کے بعد میں نے پر جوش انداز میں میاں سے کہا تم بے فکر ہو جاؤ جب تم لوگوں نے آنا ہو گا ایک دن پہلے بتا دینا میں پوری تسلی سے پورا پروٹوکول دے کر ملوں گا اور تمہاری بلے بلے بھی کرا دوں گا پھر مقررہ دن میاں اُس خاندان کو لے کر میرے گھر آیا میں نے خوب آؤ بھگت کی خدمت کی اچھی ملا جب بات چیت کی میاں جی کی بہت تعریفیں کیں جو اُن لوگوں کا مسئلہ تھا اُس کے لیے ذکر اذکار بتائے تو بہت خوش ہو کر واپس چلے گئے یہ میرا سالوں بعد میاں جی سے دوبارہ رابطہ تھا اب میاں جی مجھے کبھی کبھار فون کر دیتا میں پہچان گیا تھا کہ بیچارہ غربت کی چتا پر سلگ رہا ہے اِس لیے مختلف بہانوں سے اُس کی مدد اور تحفے تحائف دیتا رہتا میا ں میرا بہت احسان مند تھا مجھے بھی جوانی کے دوست کے ناطے اچھا لگتا تھا اب ہمارا رابطہ بحال ہو چکا تھا بقرہ عید کا چاند نظر آیا تو مجھے اِس کا فون آیا میرا حال چال پوچھنا شروع کیا اِدھر ادھر سکول کی باتیں کر نے لگا کافی دیر تک ہماری بات چیت جاری رہی اِس دوران میں نے نوٹ کیا میں جب بھی بات ختم کرنے کی کو شش یا الوداعی کلمات بو لتا تو میاں بات کو طول دے کر سلسلہ آگے بڑھا دیتا جب دوران گفتگو دو تین بار اِس نے بات کو طول دی تو مجھے سمجھ آگئی کہ میاں کے دل میں کوئی بات ہے وہ کرنا چاہتا ہے لیکن سفید پوشی کی وجہ سے کر نہیں پا رہا میاں مُجھ سے کوئی مدد چاہ رہا تھا لیکن اُس کی خود داری اُس کو روک رہی تھی لہذا اب میں نے پہل کی اور کہا میاں یار آجکل حالات کیسے ہیں مہنگائی بہت زیادہ ہے قربانی کے جانور بہت مہنگے ہیں تم نے قربانی کا جانور لے لیا یہ میاں کی دکھتی رگھ تھی پھٹ پڑا یا رمہنگائی نے تو جان ہی نکال دی ہے سارا سال بچوں سے وعدہ کر تا رہا کہ اِس بار ہم اپنی قربانی کریں گے بیٹی کے سسرال کے سامنے عزت کا بھی معاملہ ہے کہ ہم نے قربانی کی کہ نہیں لیکن جتنے پیسے میرے پاس ہیں اُن میں تو جانور نہیں آسکتا اِس پریشانی میں تم کو فون کیا ہے یار تمہارے تو بہت دوست مرید بھی ہیں کسی کے پاس سستے جانور ہیں تو مجھے کوئی قربانی کا جانور لے دو مجھے ساری صورتحال کی سمجھ آگئی کہ بیچارہ میاں اتنی دیر سے کیوں مُجھ سے بات کر رہا ہے میں نے میاں کو حوصلہ دیا یار تم پریشان نہ ہو میرے دوست کے پاس قربانی کے جانور ہیں وہ نیکی کے لیے ہر سال پال کر فروخت کر تا ہے میں اُس سے جانور منگوالوں گا تم آکر لے جانا میاں بہت خوش ہوا پھر میں نے میاں کو بلا کر جتنے پیسے اُس کے پاس تھے لے کر قربانی کا جانور اُس کے حوالے کیا بیچارہ بہت خوش ہوا اور اطمینان بھرا چہرہ لے کر شکر گزار نظروں سے دیکھتا ہوا واپس چلا گیا لیکن مجھے بہت پریشان کر گیا مہنگائی کے اِس ہو شربا طوفان میں غریب عوام کس طرح قربانی کے مہنگے جانوروں کو خریدنے کی ہمت کرتے ہو نگے سابقہ حکومتوں کی ناہل پا لیسیوں اور لوٹ مار کی وجہ سے وطن کا بچہ بچہ قرض میں جکڑا ہوا ہے روپے کی گر تی پو زیشن ڈالر کی اونچی اڑان مہنگائی کا اژدھا منہ کھولے غریبوں کو ڈستا جا رہا ہے بیچارے غریب عوام ظلم غربت کی چکی میں دن رات پستے جا رہے ہیں اس مہنگائی میں کس طرح دال روٹی پوری کرتے ہیں اوپر سے مہنگائی اور مہنگے جانور جن کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں سفید پوش طبقہ جس کو معاشرے میں عزت کے ساتھ زندہ رہنے کے لیے قربانی بھی کر نا ہے کس طرح اِس مہنگائی کے طوفان میں زندہ ہیں ہر گزرتا دن وطن عزیز میں مہنگائی کے گراف کو اونچا کرتا جا رہا ہے مہنگائی اِس قدر کہ لوگوں کی قوت خرید کے بس سے باہر بیچاری عوام بے یار و مدد گار جانوروں کے ریوڑ کی طرح کھلے آسمان کے نیچے ننگے پاؤں دوڑ رہی ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ہر سیاسی جماعت ہر لیڈر ان بیچاروں کو سہانے خواب دکھا کر اپنے پیچھے لگا تا ہے لیکن چند ماہ بعد ہی بیچاروں کو پتہ چلتا ہے کہ یہ جماعت اور لیڈر بھی پرانے جیسوں ہی ہے یہ بھی بھیس بد ل کر نئے طریقے سے بے وقوف بتا دیا کسی لیڈر سیاسی جماعت کو اِن مظلوم لوگوں پر ترس نہیں آتا آپ ان لیڈروں کے درباریوں مداریوں جگادریوں کی جگالی دیکھیں کس طرح دن رات مدح سرائی کے ریکارڈ توڑتے ہیں الفاظ کی جادوگری اور سہانے خوبوں کا سلسلہ چلاتے ہیں اپنے لیڈروں کو قائد اعظم کا جانشین اور مسیحا اعظم قرار دیتے ہیں سب مسائل غربت کا حل صرف اِن کے لیڈر کے پاس ہے جب کہ سچ تو یہ ہے کہ جو بھی اقتدار کے کوٹھے پر براجمان ہوا اُس نے اپنی مادی سلطنت کو استحکام بخشا اپنے دوستوں رشتہ داروں کو نوازا یہ سیاسی لیڈروں جونکیں ہیں جو کئی عشروں سے غریب عوام کا خون چوس رہی ہیں غربت کے مارے یہ غریب لوگ بیچارے اِن لفظوں کے جادوگروں کے بیانات تقریروں پر یقین کر کے پھر اِن کے پیچھے لگ جاتے ہیں کسی کو بھی اَن بے آسرا بے یارو مددگار انسانوں پر ترس نہیں آتا دو دن پہلے ایک بوڑھے غریب داڑھی والے شخص نے غربت سے تنگ آکر ریلوے لائن پر ریل گاڑی کے نیچے آکر خود کشی کر لی اُس بیچارے کا سفید داڑھی والا چہرہ تن سے جدا زمین پر ماتم کر رہا تھا باقی دھڑ ریلوے لائن پر پاکستان کے چپے چپے پر غریب عوام ہو شربا مہنگائی کے طوفان میں زندگی کی بازی ہار رہے ہیں پتہ نہیں خدا کو کب اِس مظلوم عوام پر ترس آئے گا کوئی نجات دہندہ اِن غربت کے ماروں کو غربت کی دلدل سے نکالے گا ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 736746 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.