|
|
موسم اچھا ہو تو تفریح کے لئے کراچی والوں کا سب سے پہلا
چناؤ ساحل ہوتا ہے بے شک کراچی کے پاس دنیا کے خوبصورت ترین ساحل موجود ہیں۔
کلفٹن۔ ہاکس بے۔ چرنا جزیرہ۔ کیپ ماؤنٹین۔ فرنچ بیچ۔ منوڑہ۔ گڈانی بیچ۔
بھیت خوری وغیرہ۔ سینڈز پٹ اور ہاکس بے کے جو گیارہ ساحل ہیں انھیں میں سے
ایک ساحل ٹرٹل بیچ ہے انتہائی خوبصورت اور صاف ستھرا ساحل کیونکہ اس ساحل
پر سیاحت کم دیکھنے میں آئی ہے اس کی ایک وجہ ہے۔ |
|
ٹرٹل بیچ کا نام ان ہرے سمندری کچھوؤں کی وجہ سے رکھا
گیا ہے جو ہر سال گھونسلہ بنانے کے لیے ساحل پر آتے ہیں۔ نر کچھوے سمندر ہی
میں رہتے ہیں جبکہ مادہ کچھوہ ساحلوں پر صرف انڈے دینے آتی ہے۔ بس یہ پیدا
ہونے کے وقت ساحل پر ہوتے ہیں پھر بریڈنگ کے ٹائم ساحل پر آتے ہیں۔ ان کا
بریڈنگ سیزن اگست سے نومبر تک ہوتا ہے۔ |
|
یہ ساحل بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہاں مادہ کچھوہ انڈے دیتی ہے انڈے سے
نکلنے والے بچے((hatchling سمندر میں چلے جاتے ہیں لیکن جب یہ بچے بڑے ہو
جاتے ہیں اور ان کے انڈے دینے کا وقت آتا ہے تو وہ اسی ساحل پر آکر انڈے
دیتے ہیں۔ ہزار کے قریب بچے انڈوں سے نکلتے ہیں جن میں صرف ایک زندہ رہ
پاتا ہے باقیوں کو سمندر میں مچھلیاں وغیرہ کھا لیتی ہیں، اس کے لئے WWF
ورلڈ وائلڈ فنڈ فور نیچر تنظیم ساحلوں پر ان انڈوں کی حفاظت اور Hatchling
کے سمندر تک پہنچانے کے انتظامات کرتی ہے۔ انڈے دینے کے لئے مادہ صاف ستھرا
ساحل چنتی ہے جہاں شیشہ پلاسٹک کی بوتلیں اور دوسرا کچرا نہ ہو وہ اس مقصد
کے لئے بڑا سا گڑھا کھودتی ہے جو تقریباً 3 فٹ گہرا ہوتا ہے جس میں وہ فٹ
ہو جائے۔ اس میں وہ ایک 45 سنٹی میٹر کا چیمبر بناتی ہے اور پھر اس میں
بیٹھ کر انڈے دے دیتی ہے- انڈے دینے کے بعد وہ ان انڈوں سے لاتعلق ہو جاتی
ہے اور انھیں قدرتی حالات پر چھوڑ کر سمندر چلی جاتی ہے- |
|
|
|
انڈوں کی حفاظت پر مامور پروفیشنلز اس مادہ کے جاتے ہی
ان انڈوں کو مزید بڑے گڑھوں میں منتقل کر دیتے ہیں۔ ان گڑھوں کو ریت سے بھر
کر اس پر ایک باسکٹ نما پنجرہ رکھ دیتے ہیں اور پنجرے کے کناروں کو بھی ریت
میں اچھی طرح دبا دیتے ہیں۔ بچے نکلتے ہیں تو وہ با حفاظت ان کو سمندر میں
چھوڑ دیتے ہیں ہے۔ سائز میں یہ مادہ کچھوہ اتنی بڑی ہوتی ہے کہ ایک نرسری
کلاس کا بچہ اس پر بیٹھ کر سیر کر سکتا ہے۔ |
|
اگست سے نومبر تک ان انڈوں کی حفاظت کی جاتی ہے۔ چالیس سے پینتالیس دنوں
میں انڈوں کی حیچنگ ہوتی ہے اس کے بعد ہیچ ہونے والے بچوں کو سمندر میں
چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ بچے قدرتی طور پر پیدا ہوتے ہی تیرنا اور رینگنا شروع
ہو جاتے ہیں۔ اسکی پروٹیکشن پر معمور ہاکس بے کے ساحل پر موجود عملے کے
مطابق ساحل سے انڈے چوری بھی ہو رہے ہیں- یہی وجہ ہے کہ اس ساحل کو عام
نہیں کیا گیا ہے۔ ان کچھوؤں کی آبادی بڑھ کر اب بلوچستان تک پہنچ گئی ہے۔
لیکن بلوچستان میں ان کی حفاظت کے لئے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا جا رہا۔
ساری دنیا میں جانوروں کی حفاظت کے لئے کام کیا جا رہا ہے ورنہ یہ ناپید ہو
جائیں گے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہاکس بے کے کچھوؤں پر نشان لگا کر ان کو
سمندر پر چھوڑ دیا گیا تو یہ نشان لگے کچھوے امریکہ کے میامی کے ساحلوں پر
بھی دیکھے گئے۔ بے شک یہ جانور سست سمجھا جاتا ہے لیکن اس سست روی میں بھی
اس کی مستقل مزاجی اس کو کامیاب کرتی ہے۔ اس سلسلے میں ہم کچھوا خرگوش کی
بہتیری کہانیاں پڑھ چکے ہیں۔ جن میں ہمیں کچھوے کی مستقل مزاج طبیعت کو
کامیابی کی وجہ بتایا جاتا ہے۔ |
|
تحقیق کے مطابق کچھوے کی عمر بہت لمبی ہوتی ہے یعنی یہ ہزاروں سال جیتا ہے۔
حال ہی میں ایک واقعہ سننے میں آیا کہ میامی کے ایک گھر کے اسٹور سے تیس
سال پرانا کھویا ہوا بچوں کے باپ کا پلا ہوا کچھوا ملا۔ گھر والے بہت حیران
ہوئے کیونکہ وہ اتنے سالوں ہائبرنیشن میں رہا۔ لیکن تیس سال کا کچھوا تو
ابھی اپنے لڑکپن ہی میں ہوتا ہے۔ |
|
|
|
آخر میں کچھوے کے بارے
میں کچھ تفریحی حقائق: |
کچھوے کا شمار دنیا کے قدیم ترین جانوروں میں ہوتا ہے۔
سب سے بڑے کچھوؤں کا وزن ایک ہزار پونڈ سے زیادہ ہوتا ہے۔ کچھوے کا خول ایک
exoskeleton نہیں ہے بلکہ کچھوں کے پاس دوسرا خول بھی ہوتا ہے۔ کچھوے سب
کچھ کھاتے ہیں جن میں پھل، پودے، کیڑے مکوڑے اور دیگر جانور ہیں۔ سمندری
کچھوے اپنے انڈے دینے کے لیے ہر دو یا تین سال بعد اسی جگہ واپس آتے ہیں۔
کچھوے اپنے نرم انڈے ریت، مٹی یا گھاس میں دیتے ہیں۔ کچھوے ایکٹوتھرمک یعنی
کولڈ بلڈڈ جانور ہوتے ہیں۔ |