|
|
اور جب تمھارے ماں باپ میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے
ہو جائيں تو ان کو اف تک نہ کرو یہ قرآن میں انسان کو مخاطب کرتے ہوئے
فرمایا گیا ہے ۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ قرآن ایک مکمل ضابطہ حیات ہے
اور اس میں لکھا ایک ایک لفظ نوع انسانی کی ہدایت کے لیے ہے جس میں والدین
کے احترام پر خصوصی زور دیا گیا ہے- |
|
ہم بڑے تو ہو گئے مگر
والدین سے بڑے نہیں ہوئے |
اکثر بچوں کا قد اور پیر جب ماں باپ کے برابر ہونے لگتے ہیں اور ان کے
پیروں میں والدین کے جوتے پورے آنے لگتے ہیں تو وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ
وہ عقل میں بھی اپنے والدین کے برابر ہو گئے ہیں یا ان سے زيادہ ہو گئے ہیں-
ایسے وقت میں ان کے کہے ہوئے کچھ جملے والدین کے دل کو کیسے چھلنی کر ڈالتے
ہیں ان کے بارے میں ہم آپ کو آج بتائيں گے تاکہ نئی نسل اس معاملے میں
احتیاط کر کے اپنی دین اور دنیا سنوار سکیں- |
|
1: آپ کو نہیں پتہ ہے |
نئی نسل کا یہ ماننا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے اس دورمیں بہت سارے معاملات
میں پچھلی نسل پیچھے رہ گئی ہے اور جو کچھ بچے آج جانتے ہیں اس کے بارے میں
ان کے والدین نہیں جانتے- لیکن اس کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ وہ جان بھی
نہیں سکتے ہیں کیوں کہ یہ وہی والدین ہیں جنہوں نے بچوں کو پہلے قدم چلنا
سکھایا تھا تو بچے بھی والدین کو نہ جاننے کا طعنہ دینے کے بجائے ان کو
سکھانے کی کوشش کر سکتے ہیں یا پھر عزت و احترام سے ان سے بات کر سکتے ہیں- |
|
2: ایک ہی بات کے پیچھے مت لگا کریں |
آج کل کے اس تیز رفتار دور میں بچوں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کے والدین
ان کی رفتار کا ساتھ نہیں دے سکتے ہیں اور پیچھے رہ گئے ہیں- یہی وجہ ہے کہ
اگر بچوں کو والدین کچھ کرنے کو کہہ بھی دیں تو بچے والدین کے حکم کی تعمیل
کرنے کے بجاۓ ان کو ٹالنا شروع کر دیتے ہیں- جب کہ بعض بچے تو والدین کو
جھڑکنے سے بھی نہیں رکتے ہیں اور ان کو ٹوکتے ہوئے وہ وقت بھول جاتے ہیں جب
کہ کسی خواہش کو پورا کرنے کے لیے بچپن میں وہ اس وقت تک روتے رہتے تھے جب
تک ان کی خواہش پوری نہ ہو جاتی تھی- |
|
|
|
3: میں آپ سے زيادہ
جانتا ہوں |
زندگی میں ایک وقت ایسا بھی تھا جب ہمارے والدین ہم سے زيادہ جانتے تھے مگر
اس وقت میں انہوں نے کبھی یہ نہ کہا کہ وہ ہم سے زيادہ جانتے ہیں بلکہ ہمیں
بہترین سے بہترین اسکول میں داخل کروا کر انہوں نے یہی کوشش کی کہ ہم زيادہ
سے زیادہ علم حاصل کر سکیں- لیکن اب جب کہ ٹیکنالوجی کے نام پر کچھ جاننے
کے بعد سب سے پہلے ہماری علمیت کی کتاب ہمارے والدین کے سامنے کھلتی ہے جن
کے سامنے ہم یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ ہم ان سے زیادہ جانتے ہیں اور یہ
کہتے ہوئے ہم یہ بھی نہیں سوچتے ہیں کہ ہماری اس بات کا اثر ان والدین کے
دلوں پر کیا ہو سکتا ہے- |
|
4: کبھی تو میری جان چھوڑ دیا کریں |
ایک عورت جو نو مہینے بچے کو اپنی کوکھ میں رکھتی ہے اس دوران تمام تکالیف
برداشت کرتی ہے اپنی ساری روٹین کو اس ایک بچے کی خاطر چھوڑ دیتی ہے اس
عورت کی زندگی کا محور یہی بچے ہوتے ہیں اسی طرح ایک باپ بھی اپنے دوست
اپنے مشاغل سب چھوڑ کر ان بچوں کی پرورش میں جت جاتا ہے-
اور یہی بچے جب بڑے ہو جاتے ہیں تو ان کو اپنے والدین ہی عذاب لگنے لگتے
ہیں اور وہ یہی کہتے ہیں کہ کبھی تو جان چھوڑ دیا کریں ہر وقت میرے یہ سر
پر کیوں سوار رہتے ہیں یہ کہتے ہوئے وہ اپنا وہ وقت بھول جاتا ہے جب کہ دن
رات اس کو ماں چاہیۓ ہوتی تھی اور وہ اس کا پلو تھامے رہتا تھا- |
|
5: کیا آپ کو کوئی اور کام نہیں ہے |
والدین کی زندگی بچوں کی پیدائش اور ان کی پرورش کی ذمہ داریوں کے سبب صرف
ان تک محدود رہ جاتی ہے لیکن یہی بچے جب بڑے ہو جاتے ہیں تو ان کو یہ محسوس
ہونے لگتا ہے کہ والدین کو ہر وقت ان بچوں کے علاوہ کوئي کام نظر نہیں آتا
ہے- اور ان کو ان بچوں کے علاوہ بھی کوئی کام کرنے چاہیے ہیں لیکن کوئی ان
بچوں سے پوچھے کہ اگر یہ والدین اس وقت میں جب کہ یہ بچے بہت چھوٹے تھے
اپنے سارے کام چھوڑ کر ان کو نہ سنبھالتے تو کیا یہ آج اتنے بڑے ہو سکتے
تھے؟ |
|
|
|
اگر آپ بھی اپنے والدین کے ساتھ ایسا کرتے ہیں تو سوچیۓ
گا ضرور کہ کیا آپ اپنی اس زندگی کے ساتھ ساتھ آخری زندگی کو بھی تو خراب
نہیں کر رہے؟ |