چودہ اگست 1947 قافلہ
جانثار اں کو جب اپنی منزل ملی بر صغیر کے مسلمان سرخرو ہوئے کیونکہ وہ
باوجود کم ما ئیگی کے کم حوصلہ نہ تھے، باوجود قلت تعداد کے کثرت تعداد کے
آگے جھکے نہیں بلکہ انہیں اپنے سامنے جھکادیا۔ تاریخ کے تابع نہ ہوئے بلکہ
اسکا دھارا موڑ دیا۔ عزم و ہمت کی یہ کہانی تاریخ عالم کا ایک ایسا روشن
باب ہے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی جب دنیا کا نقشہ حقیقی معنوں میں بدلا گیا
اور ایک نظریے کے تعلق نے بر عظیم کے کونے کونے کے مسلمانوں کو یک جان کر
دیا صرف ایک کلمے نے انہیں و ہ طاقت دی کہ جس نے خود کو دنیا کے سامنے ایک
نئی قوم کے طور پر متعارف کروایا لیکن کیا ایک قابل لیڈر شپ اور ایک باہمت
رہنما کے بغیر ایسا ممکن تھا کہ ہندوستان کے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب
کے مسلمان اس طرح ایک جھنڈے تلے جمع ہو جاتے اور بغیر یہ سوچے سمجھے کہ ان
کا علاقہ ان کا گھر پاکستان کا حصہ بنے گا یا نہیں وہ ایک آواز ہوکر ایک
نعرہ لگاتے ۔لے کے رہیں گے پاکستان ،بن کے رہے گا پاکستان ۔اور پھر انہوں
نے کر دکھا یا اور ایک نہیں دو طاقتوں کو اپنے سامنے جھکا دیا۔ پاکستان بن
گیا اور منزل مل گئی اگر چہ ہزاروں دکھ بھری داستانوں نے جنم لیا خاک میں
لتھڑی ہوئی خون میں نہلائی ہوئی ، لیکن وہ دکھ سہہ لئے گئے اس نوزائیدہ
مملکت کے ہر فرد نے آنے والے مہاجرین کی آباد کاری کو اپنی ذمہ داری سمجھ
لیا اوردیگر چیلنجز کا بھی مردانہ وار مقابلہ کیا اور ہندو کا یہ خیال غلط
ثابت کر دیا کہ یہ ملک پنپ نہ سکے گا لیکن جب وہ کمزور ناتواں شخص اپنی
توانا آواز میں ایک بار پکارتا تھا تو پوری قوم اپنے قائداعظم کی آواز پر
جان سے گزر جانے کو تیا ر ہو جاتی تھی کیونکہ اس پکار میں خلوص اور نیک
نیتی تھی پھر رفتہ رفتہ ہم نے حکمرانی اور رہنمائی کا یہ خلوص کھودیا۔
بجائے اس کے کہ قوم کی تربیت کی جاتی خود رہنما خلوص سے عاری ہوتے گئے۔ میں
گئے زمانوں کا تجزیہ نہیں کروں گی کہ اُس سے ہم سب واقف ہیں اور ہر کوئی
چاہے خود شامل گناہ ہے بظاہر بڑی درد مندی سے حالات کا تجزیہ کر رہا ہے۔
حکمرانوں کے پول کھول رہا ہے ان کی رشوت ستانیوں کا دکھڑا رو رہا ہے۔ میں
اُن سے سو فیصد اتفاق کرتی ہوں اور مجھے بھی خوف ہے کہ اگر نا اہل رہبری کے
سبب رواں دواں نہ رہا کا رواں تو کیا ہوگا۔ لیکن ایک ہی طبقے کو تمام
خرابیوں کا ذمہ دار ٹھہرانا بھی کیا قرین انصاف ہے؟چودہ اگست کو یوم آزادی
منانا ہمارا حق ہے لیکن زندہ قومیں خالی خولی تقریبات پر اکتفا نہیں کرتیں
۔ عمل ان پہلا اصول ہوتا ہے ۔ رہنما کے بغیریقینا کوئی بھی قوم قوم نہیں
رہتی صرف ایک بھیڑ بن جاتی ہے ایک دوسرے کو دھکیلتا ، مارتا دھاڑتا آگے
بڑھنے کی کوشش میں مصروف ایک ہجوم۔ جہاں ہر ایک کو اپنی ذات کا غم ہوتا ہے
چاہے دوسرا جان سے جائے اور یہ عمل زیادہ تکلیف د ہ تب ہوتا ہے جب ہر ایک
ان حالات کو بُرا بھلا کہہ رہا ہوتا ہے اور نظم و ضبط کی تلقین کر رہا ہوتا
ہے لیکن خود اس پر آمادہ نہیں ہوتا ۔ اس وقت پاکستان انہی حالات کا شکار ہے۔
کیا ہی اچھا ہو اگر ہم اس یوم آزادی پر یہی طے کر لیں کہ ہم نے خود سے
ابتدا کرنی ہے اور جب ہر ’’خود‘‘ یہ کام کرلے گا تو مسائل خود بخود حل ہونا
شروع ہو جائیں گے۔ حکومتی کرپشن تو بہت بڑی ہے اس لیے سب کی نظروں میں
آجاتی ہے لیکن پٹواری، کلرک، کانسٹیبل کی کرپشن پر کون تنقید کرے گا یہ تو
مالی کرپشن ہے ہم تو فعلی کرپشنز کو بے ایمانی کے زمرے میں ہی نہیں لاتے
لیکن ہمیں اب بطور قوم اپنا احتساب کرنا ہوگا۔ ہم نے استاد سے پوچھنا ہوگا
کہ وہ سکول میں اُس طرح کیوں نہیں پڑھادیتا جیسا کہ ٹیوشن اکیڈمی میں ،
ڈاکٹر ہسپتال میں مریض کووہ توجہ کیوں نہیں دیتا جو کلینک میں ۔ جج ایک
مقدمے کو طول پر طول دے کر اور دوسرے کا فیصلہ ایک پیشی میں کرکے کیوں
فیصلے کو مشکوک بنا دیتا ہے ۔ ایک انجنئیر کا بنایا ہوا پل کراچی جیسے پر
ہجوم شہر میں کیوں ایک سال میں گِر جاتا ہے ۔ایک صحافی اپنے کام سے غرض
رکھنے کی بجائے دوسرے کو گھیرنے میں کیوں مصروف ہو جاتا ہے اور تو اور وہ
دہاڑی دار مزدور جسکی مظلومیت کی کہانی سنا کر ہر ایک خود کو انسان دوست
ظاہر کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے وہ کام کرنے کی بجائے وقت گزاری کیوں
کرتاہے۔ ایک دن مزدوری کرکے دو دن کی گزر اوقات کے پیسے کماکر اگلے دودن
مزدوری سے چھٹی کیوں کرتا ہے بہتر زندگی کے لیے کیا مسلسل محنت اسکا فرض
نہیں ۔ بندہ مزدور کے تلخ اوقات کا دکھ اپنی جگہ لیکن اصلاح کی کوشش اس سے
زیادہ ضروری ہے ۔ اب ذرا کاروبار کی دنیا میں آئیے جہاں اصول تجارت صرف اور
صرف منافع ہے چاہے یہ منافع جائز ہے یا نا جائز اس سے کسی کو سروکار نہیں ۔
یہاں بھی چھوٹے یا بڑے تاجر کی تخصیص نہیں ۔ چاہے صنعت کار ٹیکس یا بجلی
چوری کرے یا ریڑھی بان دگنی قیمت پر اشیا فروخت کرے اور گلے سڑے پھل کو
دھوکے سے آپ کے سودے میں ڈال دے۔ غرض ہر سطح پر ہر شخص ہر قسم کی کرپشن میں
ملوث ہے اور موردِالزام دوسرے کو ٹھہرارہاہے ۔مجھے کسی کی حب الوطنی پر شک
نہیں لیکن ہم خود غرض ضرور ہیں اور ہم میں درد دل نہیں ۔ اگر یہ دو خصوصیات
اس قوم میں پیدا ہو جائیں تو پھر اس کی بقا اور ترقی یقینی ہے اگر ہم میں
ہر ایک اپنے دائرہ کار کو ہی اپنا پاکستان سمجھنے لگ جائے اور اس کی اصلاح
کی کوشش شروع کردے تو معاملات خود بخود بہتری کی طرف چل پڑیں گے۔ اہل سیاست
و حکومت سے لیکر اہل ہنرومحنت تک بس اپنا اپنا محاذ اپنا اپنا پاکستان سمجھ
کر سنبھال لیں تو اس قوم کی عظمت میں کسی شک کی گنجائش ہی نہیں اور اگر
حکمران اپنا فرض پہچان لیں اور حکومت صرف برائے حکمرانی نہیں بلکہ برائے
خدمت کریں جوان کا اصل مقام ہے تو ہمارے مسائل خود بخود حل ہونا شروع ہو
جائیں گے لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ یہاں الزامات کی بو چھاڑ ہے جو ایک
دوسرے پر کی جارہی ہے ۔ آج بھی اگر یہ وطیرہ بدل دیا جائے تو کراچی میں خون
خرابہ رک جائے گا ،بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کا کچھ مداوا ہو سکے گااور سرحد
اور پنجاب خود کش دھماکوں سے نہیں لرزیں گے۔ قوم اس مسیحا کے انتظار میں ہے
جو اس بے اتفاقی کو اتفاق میں بدل دے جو خود اتنا با کردار ہو کہ جب وہ
دوسروں کی غلطیوں کی نشاندہی کرے تو کوئی اُس کے کردار پر انگلی نہ اٹھا
سکے۔ ایسا نا ممکن بھی نہیں۔ دراصل اس وقت ضرورت خلوص کی ہے عوامی سطح پر
بھی اور حکومتی سطح پر بھی اُسی خلوص اور عمل کی جو یہ قوم سیلاب ، زلزلوں
، طوفان اور جنگوں کے وقت دکھاتی ہے اور ان آفات سے ایسے نمٹ لیتی ہے کہ
دنیا حیران رہ جاتی ہے یہی قوم ہے جس نے پوری دنیا کی مخالفت اور پابندیوں
کے باوجود ایٹم بم بنایا اور اب پوری دنیا کے سامنے تن کر کھڑی ہے اور اس
کی حفاظت کر رہی ہے بس اس کی انہیں خوبیوں کو آزمانے کے لیے ایسے رہنما کی
ضرورت ہے جو اپنے ہم عصروں کی پگڑی اچھالنے کی بجائے ہر پاکستانی کا شملہ
اونچا اور اس ملک کا پرچم سربلند کرے۔ |