میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں۔۔۔ کچھ ایسے خاندان جو دیکھتے ہی دیکھتے اجڑ گئے ذمہ دار کون؟

image
 
کراچی میں گزشتہ دنوں بارشوں سے متعدد ناخوشگوار د واقعات رونما ہوئے جو انتہائی توجہ طلب ہیں لیکن شہریوں کا کوئی پرسان حال نہیں!!
 
ریسکیو حکام کا کہنا ہے کہ شادمان ٹاؤن میں ایک ہی خاندان کے چار افراد جن میں شوہر، بیوی اور دو بچے شامل تھے موٹر سائیکل پر جا رہے تھے کہ تیز بارش کے دوران سڑک سے موٹر سائیکل پھسل کر نالے میں جا گری۔ ایک گھنٹے کی ریسکیو کوششوں کے بعد خاتون کی لاش نکال لی گئی جب کہ بروقت کوششوں سے مرد اور ایک بچی کو بچا لیا گیا- پولیس کا کہنا ہے کہ ابھی تک ایک بچے کی لاش برآمد نہیں ہوئی۔
 
جائے وقوعہ پر پہنچنے والے جماعت اسلامی (جے آئی) کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے افسوسناک واقعے کا ذمہ دار مقامی حکام کو ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ان کی غفلت نے کئی قیمتی جانیں لے لی ہیں، انتظامیہ کو شہریوں کی تکالیف سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ریسکیو کیا گیا شوہر مستقل ایک ہی بات کہتا رہا کہ میرے بیوی بچہ تو چلے گئے اب کسی اور کے ساتھ اس طرح کا حادثہ نہیں ہونا چاہئے۔
 
image
 
 کراچی میں مون سون کی بارشوں کے دوران تین روز میں ہلاکتوں کی تعداد 14 ہوگئی۔ شاہ لطیف پولیس نے بتایا کہ 38 سالہ رقیہ مبین شاہ بھینس کالونی میں گھر میں کام کر رہی تھی کہ اسے بجلی کا جھٹکا لگا اور اس کی موت ہو گئی، اس کی لاش کو جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر لے جایا گیا۔
 
اسی طرح سویرا غلام مصطفیٰ بلدیہ ٹاؤن کے مواچھ گوٹھ میں گھر پر تھیں جب انہیں کرنٹ لگ گیا اور وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئیں۔ منگھوپیر میں 23 سالہ رقیب اللہ سردار خان کو گھر میں تار سے بجلی کا جھٹکا لگا اور وہ جان کی بازی ہار گئے۔
 
 امدادی کارکنوں نے دریائے گڈاپ میں ڈوبنے والے 19 سالہ لیاقت حسین کی لاش برآمد کر لی ہے لیکن اس کے والد غلام حسین تاحال لاپتہ ہیں۔ ۔ پولیس نے بتایا کہ دریا میں طغیانی کی وجہ سے دو موٹر سائیکلوں پر سوار تین افراد اپنی بائیک کا کنٹرول کھو بیٹھے تاہم ایک موٹر سائیکل سوار رحیم الدین کو بچا لیا گیا ۔ڈوبنے والےمتوفی گڈاپ سٹی کے رہائشی تھے۔
 
پاکستان کے محکمہ موسمیات کے مطابق 97.4 ملی میٹر (تقریباً چار انچ) تک بارش ریکارڈ کی گئی جس نے شہریوں کی زندگی درہم برہم کر دی۔ شہر میں مسلسل پانچ دن بارش کے بعد شہر کا خستہ حال انفراسٹرکچر ہر طرف شہریوں کو منہ چڑا رہا تھا، کئی علاقوں میں طغیانی آگئی جس سے تقریباً ہر ضلع بارش کے پانی میں ڈوب گیا۔ بجلی کا بحران، ناقص سیوریج سسٹم اور تمام بڑی سڑکوں پر گھنٹوں ٹریفک جام شہریوں کے صبر کا پیمانہ لبریز کرنے کے لئے کافی تھا۔
 
image
 
بجلی کا بحران تو اس شہر کا ایک معمول ہے اور بارش کی پہلی بوند پڑ جائے تو گھنٹوں بجلی بند کر دینا کے الیکٹرک کے فرائض میں شامل ہے۔
 
آخر ان حالات کی ذمہ داری کس کے سر ڈالی جائے؟
بارشیں تو ہونی ضروری ہیں اگر برساتی نالے صاف رکھے جائیں اور صحیح سیورج کا نظام ہو ساتھ ہی بجلی بھی بحال رہے تو حالات بہت بہتر ہوں لوگ ان بارشوں کو انجوائے کریں جس طرح ملک کے دوسرے علاقوں میں ہوتا ہے لیکن کراچی تو جیسے ایک لاوارث شہر ہے۔ ووٹ مانگنے کے وقت لیڈران بڑے بڑے دعوے اپنی تقریروں میں کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اقتدار میں آتے ہی جیسے ان کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو کراچی جیسا میٹرو پولیٹن سٹی بہت ہی منتظم ہونا چاہئے تھا کیونکہ یہ ایک بزنس حب ہے۔ پاکستان کی معیشت اس پر انحصار کرتی ہےاور یہاں تو حکومت کے لئےبھی ایک ہی جماعت کی اجارہ داری رہی ہے لہٰذا سیاسی استحکام بھی رہا۔ لیکن اس شہر کو یتیم شہر بنا دیا گیا کیونکہ یہاں کوئی ایک نسل نہیں بستی بلکہ یہاں کے رہائشی پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اس خاصیت کو مثبت ہونے کے بجائے منفی بنا دیا گیا ۔یہ ہی خاصیت اسے لے ڈوبی کیونکہ اس صورت میں کوئی ایک نسل بھی اس کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں کیونکہ وہ اپنا ناتہ کراچی سے جوڑنے کے بجائے اپنے آبائی علاقوں سے جوڑتے ہیں حالانکہ ان کی نسلیں کراچی ہی میں پروان چڑھ رہی ہیں۔ اب الیکشن ہو رہے بہتر ہے کہ ہم اپنا ووٹ سوچ سمجھ کر دیں اپنی پسند کے مطابق نہیں بلکہ اپنے شہر کی بھلائی کا سوچ کر ووٹ کاسٹ کریں اسی میں بھلائی ہے۔
YOU MAY ALSO LIKE: