صدقے کا پتھر ہو یا عدل کی زنجیر، مسلمان حکمرانوں کے کچھ ایسے کام جو حالیہ حکمرانوں کے لیے مثال بن سکتے ہیں

image
 
تاریخ کے اول روز سے غریب اور امیر کا چکر معاشرت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ کچھ افراد جن کے پاس دنیاوی مال و دولت زيادہ ہو امیر قرار پاتے ہیں جب کہ کچھ افراد جو ان نعمتوں سے محروم ہوں ان کو غریب کہا جاتا ہے-
 
معاشرے میں توازن کے لیے امیر کا کردار
معاشرے کو قائم رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کے اندر محبت رواداری اور احساس کی دولت موجود ہو۔ ان تمام احساسات کے بغیر معاشرہ قائم تو ہو جاتا ہے مگر وہ انسانوں کا معاشرہ کہلائے جانے کے بجائے حیوانوں کا معاشرہ کہلائے جانے کے قابل ہو جاتا ہے جس میں ہر فرد صرف اور صرف اپنے مفادات کے لیے دوسرے کو قربان کر دینے کو تیار ہو جاتا ہے-
 
اسلامی معاشرہ اور غریب کے حقوق
اسلامی معاشرہ جس کی بنیاد ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں رکھی اس کا سب سے اہم ستون ہی غریبوں کی دیکھ بھال تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن زکوۃ بھی ہے جس کا بنیادی مقصد امیر سے پیسہ لے کر غریبوں کے حوالے کرنا ہوتا ہے تاکہ ان کی غربت کو کم کیا جا سکے-
 
image
 
خلفائے راشدین کے غربت کم کرنے کے لیے اقدامات
ہمارے پیارے نبی کے وصال کے بعد خلافت قائم کی گئی جس کی بنیاد انہی اصولوں پر استوار کی گئی جو کہ ہمارے پیارے نبی کے دور میں تھیں اس دور میں حکومت تمام مسلمانوں سے زکوۃ خود وصول کرتی تھی اور انتہائی ایمانداری سے یہ زکوۃ مستحق افراد تک اس طریقے سے منتقل کی جاتی تھی کہ ان کی عزت نفس بھی مجروع نہ ہو اور ان کی ضروریات کی بھی تکمیل ہو جائے-
 
خلیفہ عمر بن عبدالعزیزؒ کا دور حکومت
خلیفہ عمر بن عبدالعزیزؒ علیہ کا دور حکومت مسلمانوں کے لیے اس حوالے سے مثالی قرار دیا جاتا ہے کہ یہ مسلمانوں کے دور حکومت کا وہ سنہرا دور ہے جس میں حقیقی معنوں میں غربت کا خاتمہ ہو گیا تھا- سرکاری ہرکارے ہاتھوں میں زکوۃ لے کر گلیوں میں گھومتے تھے مگر ان کو کوئی غریب نہیں ملتا تھا جو کہ اس زکوٰۃ کو وصول کر سکے۔ اس دور کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ خلیفہ عمر بن عبدالعزیزؒ نے غربت کو ختم کرنے کے لیے اہم اقدامات کیے- انہوں نے زکوٰۃ کی رقم سے زراعت کے شعبے کو ترقی دی جس سے غریبوں کے لیے آمدنی کے مواقع بڑھے جس سے غربت کا خاتمہ ہوا-
 
خلافت عثمانیہ کے دور میں صدقے کے پتھر
خلافت عثمانیہ کے دور میں ہر گلی محلے میں صدقے کے پتھر نصب کر دیے جاتے تھے جس میں مخیر افراد رقم ڈال دیتے تھے اور جس غریب کو ضرورت ہوتی تھی وہ اس پتھر میں ہاتھ ڈال کر حسب ضرورت رقم لے لیتا تھا-
 
اس پتھر کی سب سے خاص بات یہ ہوتی تھی کہ اس میں ہاتھ ڈالنے والے کو دیکھ کر یہ محسوس نہ ہوتا تھا کہ وہ صدقہ دینے والا ہے یا لینے والا- اس طرح سے غریب کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہوتی تھی-
 
image
 
عدل جہانگیری کے لیے زنجیر
مغل رہنماؤں میں جہانگیر کا نام اس حوالے سے بہت منفرد تھا کہ انہوں نے اس بات کا اہتمام کیا تھا کہ ان کے رعایا میں موجود غریب کی آواز بھی ان تک پہنچ سکے جس کے لیے انہوں نے اپنے محل کے باہر ایک زنجیر لٹکا رکھی تھی جو کہ محل میں موجود ایک گھنٹی سے منسلک تھی- جب بھی کوئی ضرورت مند اس زنجیر کو ہلاتا اس کی آواز جہانگیر تک پہنچ جاتی تھی اور وہ اس غریب کی فریاد کو سن پر فوری اقدامات کرتا تھا -
 
موجودہ حکمرانوں کے لیے ان مثالوں سے سبق
اسلامی فلاحی ریاست عوام کے لیے ایک ماں کے جیسی ہوتی ہے جو کہ اپنی رعایا کو اس کی کسی بھی مشکل میں اس کا ساتھ دیتی ہے اور اس کی مدد کرتی ہے۔ ماضی میں زکوٰۃ کی وصولی کا شفاف نظام قائم تھا جس کی بنیاد پر غریبوں کی مدد کی جاتی تھی- حالیہ دور میں زکوٰۃ اور عشر کی وزارت تو قائم ہے مگر اس کی شفافیت کہیں گم ہو گئی ہے یا غریبوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب اس وزارت کی جانب سے دی جانے والی زکوٰۃ اونٹ کے منہ میں زيرے کے مترادف ہوگئی ہے-
 
دوسری جانب حکومت کو ایسے اقدامات بھی کرنے چاہیے ہیں جو غربت کو کم کرے جیسے کہ روزگار کے ذرائع پیدا کرنا کیوں کہ اس طرح سے جب سب کے پاس اپنا روزگار ہو گا تو اس کو کسی سے مدد مانگنے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی لیکن اس کے لیۓ مکمل منصوبہ بندی ضروری ہے-
 
آج کل کے حکمرانوں کو تو انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے اس میں انہیں کسی گھنٹی کے لگانے کی ضرورت نہیں ہے صرف ایسے طریقہ کار وضع کیے جائيں جس سے وہ غریب کی حالت کے بارے میں فوری جان سکیں اور اس کے بعد اس پر فوری اقدامات کریں-
YOU MAY ALSO LIKE: