کھیل ، کھلاڑیوں کی کردار سازی اور والدین و کوچز کی ذمہ داری

سرکار کے زیر انتظام مخصوص کھیل سے وابستہ دو تین لیجن اور ان کے چند ایک رشتہ داروں کو تنخواہ کے نام پر لاکھوں کی رقم دیتی ہیں جسے عرف عام میں بھتہ بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ جس کام کی تنخواہ یہ لوگ لیتے یں وہ کرتے ہی نہیں یہ نام کے لیجنڈ ہر ماہ ایک مرتبہ اپنی گاڑی میں آکر حاضری لگاتے ہیں اور پھرہر ماہ ایک مخصوص رقم ان کو تْنخواہ کے نام پر دی جاتی ہیں حالانکہ نام کے یہ چند لیجنڈ چل بھی نہیں سکتے وہ کھلاڑیوں کیا تربیت دینگے لیکن چونکہ تعلقات اور اپروچ اوپر تک ہیں اس لئے سب کی آنکھیں بند ہیں .جبکہ ان کے مقابلے میں ڈیلی ویجز کی صورت میں کام کرنے والے کوچز گدھوں کی طرح کھلاڑیوں کیساتھ خواری کرتے ہیں لیکن ان کی خواری کسی کو نظر نہیں آتی .
شکل و صورت بھی اس کی پیاری تھی اور وہ کپڑوں سے بہت اچھے خاندان سے لگ رہا تھا اس نے ٹی شرٹ اور نیکرز بھی قیمتی پہنے تھے جبکہ اس کے شوز بھی قیمتی ہی تھی جبکہ اس کے بیگ میں پڑے ریکٹ کی قیمت بھی کم و از کم پندرہ ہزار سے اوپر کی تھی اس بچے کی عمر کم و بیش بارہ سال ہی تھی اور وہ چار دوستوں کیساتھ کمرے میں بیٹھا تھا جو کہ چینجنگ روم کے طور پر استعمال ہوتا تھا اس بچے کیساتھ بیٹھے ایک لڑکے کی عمر کم و سترہ سال تھی جبکہ دوسرے اسی ترتیب سے پندرہ اور بارہ سال کے تھے ، ان کے مابین گپ شپ چل رہی تھی راقم نے کوئی دھیان نہیں دیا لیکن وضو کیلئے جانے باتھ رومز کی طرف مزا تو اس بچے نے ایک اور آنیوالے بچے کی طرف کمرے سے بھاگتے ہوئے چیخ ماری .... کونی دے ... اور راقم کے پائوں جیسے زمین میں دھنس گئے ، کہ اس عمر کے بچے کے منہ سے کس طرح کے الفاظ نکل رہے تھے . جو وہ آنیوالے لڑکے کیلئے خیر مقدمی کلمات کے طور پر مسلسل گردان کررہا تھا ساتھ میں جب اس کے دیگر ساتھیوں نے اسے دیکھا تو پھر اس نے اپنے دیگر ساتھیوں کو مخاطب ہو کر کہا کہ ابے اس ے لپ سٹک لگائی ہوئی ہے. اور بیگ میں قیمتی ریکٹ رکھے وہ لڑکا بھی اس کیساتھ باتیں کررہا تھا اور راقم ان دونوں کو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ بارہ سال کی عمر میں اگر اس بچے کو " کونی دے" کا مطلب سمجھ میں آرہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ خاندانی طور ر " بڑے ہی ہوشیار اور فاضل " افراد پر مشتمل لوگوں پر ہے.راقم ان لوگوں کو چھوڑ کر جمعہ کی نماز پڑھنے چلا گیا .نماز پڑھنے کے بعد آکر دیکھا تو پانچویں بچے چمن میں بیٹھ کر گپ شپ لگا رہے تھے جن میں کم از کم تین لڑکے ایسے تھے جن پر نماز فرض تھی یکن وہ ایسے گپ شپ لگا رہے تھے جیسے کوئی بات ہی نہیںہوئی .

لفظ "کونی دے "لکھنے کیلئے راقم کو کئی بار سوچنا پڑا کہ آیا یہ لفظ اس بلاگ میں لکھ لوں یا نہیں ،اورآخر کار دماغ کی مانتے ہوئے یہ الفظ اس بلاگ میں استعمال کیا لیکن پھر بھی استعمال کرتے ہوئے راقم کو شرم آرہی ہے کہ اخلاقیات کا دائرہ بھی ایک چیز ہوتی ہے لیکن بارہ سال کی عمر کے بچے سے یہ الفاظ سننا بڑا ہی تکلیف دہ امر ہے.. جب راقم نے موقع پر موجود چوکیدار سے اس حوالے سے بات کی کیونکہ وہ خود بھی یہ الفظ مسلسل سن چکا تھا رلیکن چوکیدار کا موقف تھا کہ اگر میں ابھی کچھ کہہ دوں تو پھر کہا جائیگا کہ اس نے بچوں کو مارا ہے لیکن اس نے بہت خوبصورت بات کردی کہ بھائی میرے اپنا دل مت جلائو اگر ان کے والدین کو پروا نہیں تو تمھیں کس چیز کا غم کھائے جارہا ہے.

یہ لڑکے جو ایک بڑے کھیل سے وابستہ کھلاڑی ہیں اور کسی عام جگہ کے نہیں بلکہ کھیلوں کے زیر انتظام ایک سرکاری ادارے کے کھلاڑی کے ہیں جو روزانہ آکر تربیت حاصل کرتے ہیں.سرکاری ادارے نے مخصوص کھیل کی بچوں کیلئے ایک الگ وقت متعین کیا ہے جو کہ صبح سات بجے سے گیارہ بجے تک ہیں اور اس کے بعد دو بجے سے شام چھ بجے تک ان کی تربیت ہوتی ہیں جنہیں ڈیلی ویجز ملازمین مخصوص کھیل کی تربیت دیتے ہیں یہ کھیل اتنا مقبول کھیل ہے کہ ایک دورمیں پاکستانی کھلاڑی ٹاپ ٹین میں تھے لیکن اب ماشاء اللہ بڑے دعووں کے باوجود مسلسل نیچے آرہے ہیں سوائے چند ایک کھلاڑیوں ، تربیت کیلئے آنیوالے اس کھیل کے ریکٹ جو کہ بنیادی طور پر ایک عام سا ریکٹ ہے کی قیمت پندرہ ہزار سے شروع ہوتی ہے اور پھر اس بال کی قیمت بھی سینکڑوں روپے کی ہوتی ہیں یعنی یہ کھیل کھیلنا بھی کسی عام بندے یا اس کے بچوں کی بس کی بات نہیں بلکہ یہ کھیل ایک مخصوص طبقے اور مخصوص علاقے کا کھیل ہے .جس کے بارے میں عام لوگوں کا یہ موقف ہے کہ اس علاقے میں پیدا ہونیوالے بچے کو ریکٹ دیکر کہا جاتا ہے کہ فلاں کھیل کھیلنا ہے ، شراط لگانی ہے اوربیرون ملک جانا ہے . اور بچے یہی چیزیں دماغ و دل پر سوار کرکے یہاں پر کھیلنے آتے ہیں اور بیشتر بیرون ملک نکل بھی جاتے ہیں..

سرکار کے زیر انتظام مخصوص کھیل سے وابستہ دو تین لیجن اور ان کے چند ایک رشتہ داروں کو تنخواہ کے نام پر لاکھوں کی رقم دیتی ہیں جسے عرف عام میں بھتہ بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ جس کام کی تنخواہ یہ لوگ لیتے یں وہ کرتے ہی نہیں یہ نام کے لیجنڈ ہر ماہ ایک مرتبہ اپنی گاڑی میں آکر حاضری لگاتے ہیں اور پھرہر ماہ ایک مخصوص رقم ان کو تْنخواہ کے نام پر دی جاتی ہیں حالانکہ نام کے یہ چند لیجنڈ چل بھی نہیں سکتے وہ کھلاڑیوں کیا تربیت دینگے لیکن چونکہ تعلقات اور اپروچ اوپر تک ہیں اس لئے سب کی آنکھیں بند ہیں .جبکہ ان کے مقابلے میں ڈیلی ویجز کی صورت میں کام کرنے والے کوچز گدھوں کی طرح کھلاڑیوں کیساتھ خواری کرتے ہیں لیکن ان کی خواری کسی کو نظر نہیں آتی .

پیسہ کمانے اور بیرون ملک نکلنے کے چکر میں مخصوص کھیل میں تربیت کیلئے روزانہ آنیوالے ان بچوں کی اخلاقی تربیت کون کرے گایہ وہ سوال ہیں جو مخصوص کھیل سے وابستہ بچوں کے والدین سمیت کوچز کو خود سے کرنے کی ضرورت ہے. بلاشبہ ہر کوئی اپنے محنت ، قسمت کی بنیاد پر کسی بھی فیلڈ میں ٹاپ پر جاسکتا ہے لیکن کیاوہ بطور انسان اور بطور مسلمان ان بنیادی اصولوں کی پاسداری کررہاہے جس کی بناء پر ہم اپنے آپ کو بڑے فخر سے مسلمان کہلواتے بھی ہیں.والدین اپنے بچوں کو ہزاروں روپے کا سامان ، شوز دیکر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بچے بولڈ ہو جائیں گے ، مخصوص کھیلوں میں نام پیدا کرینگے ، پیسہ کمائیں گے اور ہماری بھی بڑی واہ واہ ہوگی لیکن کیا ان کھیلوں سے وابستہ بچوں کی ضروریات پوری کرکے والدین بشمول کوچز اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ ہو گئے ہیں.

کم و بیش ایک ماہ قبل ایک بڑے تعلیمی ادارے کے سربراہ جو غیر ملکی شہریت کے حامل ہیں اور خیبر پختونخواہ کے ایک بڑے تعلیمی ادارے سے وابستہ رہے آج کل ان کا الگ ہی سیٹ اپ ہے پاکستانی شہریت کے حامل اس ادارے کے سربراہ سے گپ شپ ہوئی تو انہوں نے چند جملے ادا کئیے کہ سکولوں کے بچوں میں گالیاں دینے کا سلسلہ بڑھ گیا ہے جس کی بڑی وجہ ان بچوں کے گھروں میں والدین کی طرف سے گالیاں دینا ہے جس کو فالو کرتے ہوئے بچے بھی یہی کرتے ہیں ، ان کے مطابق والدین پیسہ تو بہت کماتے ہیں مگر اپنے بچوں کو وقت نہیں دے پا رہے یہی وجہ سے آج کل کے بچے تعلیمی میدان سمیت ہر شعبے میں آگے ہیں مگر اخلاقیات نام کی کوئی چیز ان میں نہیں ہے..

بھلے سے کوئی بھی اپنے کھیل یا کسی شعبے میں آسمان پر پہنچ جائے لیکن اگر اس میں اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہیں ہو انہیں مذہب کے بارے میں آگاہی نہ ہو تو ایسے ٹاپ کے لوگوں سے ہم لوگ کس چیز کی توقع رکھیں گے اگرایک بارہ سال بچہ بارہ سال کی عمر میں " کونی دے " کے الفاظ کسی دوسرے کھلاڑی کیلئے استعمال کرسکتا ہے تو بائیس یا بتیس سال کی عمر میں اس سے زیادہ سخت الفاظ اپنے والدین ، رشتہ داروں کیلئے بھی استعمال کرسکتا ہے. کیا یہ الفاظ سننے کی ہمت ان لوگوں میںہیں جو ظاہری طور پر اپنے بچوں کی ضروریات تو پوری کرتے ہیں مگر ان کی کردار سازی پر توجہ نہیں دیتے.مستقبل میں اس طرح کے والدین اپنے بچوں کے ناروا روئیوں کے باعث اولڈ ایج ہوم میں ہی پائیں گے .اور پھر یہی والدین بچوں کی ناروا روئیوں کی شکایت کرینگے کہ ان کے ساتھ ان کے بچوں کا رویہ کیا ہے لیکن اپنی اس غلطی کا اعتراف اس وقت بھی نہیں کرینگے کہ انہوں نے اپنے بچوں کو کتنا وقت دیا ، ان کی کردار سازی کیلئے کیا اقدامات اٹھائے ، انہیں مذہب ، اخلاقیات کے بارے میں کیا کچھ پڑھایا ، سکھایا ، ی و ہ چند چیزیں ہیں جس پر والدین ، تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور کھیلوں سے وابستہ افراد بشمول کوچز کو توجہ دینے کی ضرورت ہے .

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 497901 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More