وزارت کھیل ، قلم قسم و قدم اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
کیا مدح سرائی کرنے والے صحافی جن میں بیشتر سرکاری ملازمین ہیں اس بات سے انکار کرینگے کہ کتنے ہی نیٹ کیفے کے مالکان ان کی مدد سے صحافی بن کر بیرون ملک غائب ہوگئے ، کتنے ان کے رشتہ دار اسی کھیلوں کی بنیاد پر جعلی ڈاکومنٹ پر بیرون ملک نکل گئے کوئی کوچ بن کر ڈالر کمانے کے چکر میں نکل گیا اور کوئی "خود کو زخمی کرکے نامعلوم حملہ آوروں پر الزام دھر کے بیرون ملک"جانے کے چکر میں ہیں کہ ڈالر وںکی کمائی بچوں سمیت کرینگے ... |
|
کہیں پر لکھا اور پڑھا ہے کہ روز جزا کے دن سب سے سخت حساب قلم ، قسم اور قدم کا ہوگا ، اللہ تعالی ہم سب کو اس دن کے سخت حساب سے بچائے اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے امت کیساتھ آسان حساب فرمائے.وہ قلم جس پر اللہ تعالی نے بھی قرآن پاک میں قسم کھائی ہے اور اس کے ذریعے علم پھیلائی . کیا قلم صرف حکمرانوں کی جی حضوری کیلئے اٹھے گا یا پھر اسے استعمال کرنے والے اس قلم کا زکواة بھی دینا جانتے ہیں یہ وہ بنیادی سوال ہے جو اس قلم کی پاسداری کرنے اور اس دعوے کرنے والے افراد کو خود سے کرنے کی ضرورت ہے. اس شعبے سے وابستہ تمام افرادکو جو صاحب قلم ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور اس قلم کی وجہ سے نہ صرف اچھے عہدوں پر فائز ہیں بلکہ اس کے ذریعے انہوں نے اپنے خاندان بیرون ملک منتقل کردئیے .اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے. سرکار کے نوالوں پر پلنے والے ان نام نہاد قلم کے لکھاریوں کیلئے ویسے بھی سوشل میڈیا پر ایک ٹرینڈ بھی چل رہا ہے تاہم سب سے خوبصورت جملہ جو جانبداری سے لکھنے والے لکھاریوں کیلئے سب سے زیادہ مقبول ہے اور وہ یہی لکھا جاتا ہے کہ قلم بیچنے والے طوائف سے بدتر ہیں اور یہ سب سے بڑی حقیقت بھی ہے کہ دوسروں کے پیسوں پرگنگھرو باندھ کر ناچنے والے کم از کم انا تو رکھتے ہیں مگر قلم کی سوداگری کرنے والے بیشتر سرکاری حرام خور ہیں جنہیں صرف اپنا مفاد عزیز ہے..کچھ باتیں سخت ہوتی ہیں جنہیں برداشت کرنا بھی مشکل ہوتا ہے تاہم شائد کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات...
اب آتے ہیں اپنے اصلی موضوع پر ، پشاور سے تعلق رکھنے والی تامین خان خیبر پختونخواہ کی واحد اتھلیٹ ہے جنہوں نے اکیس سال بعد انٹر یونیورسٹی گیمز میں اتھلیٹکس کا نیا ریکارڈ قائم کیا اور ان کی پریکٹس جاری ہے انہیں ایک ماہ قبل ہی ترکی کے شہر کونیا میں ہونیوالے اسلامک سالیڈیرٹی گیمز میں پاکستان کی جانب سے حصہ لینے والے اتھلیٹکس کی ٹیم میں شامل کرنے کیلئے ان کا نام بھیجا گیا جو باقاعدہ ریکارڈ پر موجود ہے مگر پھر نامعلوم وجوہات کی بناء پر ان کا نام ڈراپ کرکے کسی اور کھلاڑی کا نام شامل کرلیا گیا اور ا س عمل کو ایک ماہ سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے مگر مجال ہے کہ لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم کے کھلاڑیوں کے ویٹنگ روم پر قابض مافیا کو اس کا پتہ چلا ہو سوائے ایک صحافی کے جنہوں نے اس حوالے سے اپنی حد تک ڈیوٹی انجام دی لیکن مدح سرائی رنے والے پورے صحافیوں کو اس بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں..
یہی صورتحال پشاور سپورٹس کمپلیکس میں واقع لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم کے حوالے سے ہے سات ماہ قبل آسٹرو ٹرف ہٹایا گیا جبکہ نیا تین ماہ میں لگانے کا اعلان کرایا گیا لیکن سات ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اس بارے میں مدح سرائی کرنے والے صحافیوں نے کوئی ایک خبر ، ایک کالم ، کوئی ایک اطلاع کسی ڈیپارٹمنٹ کو کی ہو ، یا ان کے سرکاری ٹیچر ساتھیوں نے جو مختلف اخبارات میں ہیں .اس حوالے سے اپنے متعلقہ اخبار میں کوئی خبر شائع کی ہو تو بات بنتی ہے مگر مجال ہے کہ ہاکی کے آسٹرو ٹرف سے متاثر ہونیوالے کھلاڑیوں کے بارے میں کسی نے لکھا ہو کہ آسٹرو ٹرف صوبائی دارلحکومت میں نہ ہونے سے کتنی پریشانی سے دو چار ہیں. اور اس کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے کچھ لوگ چاہتے تھے کہ لالہ ایوب آسٹرو ٹرف ختم ہو اور ان کی بادشاہی ہو اسی وجہ سے مدح سرائی کرنے والے صحافی بھی خاموش ہیں..
آرچری کے کھیل پر پاکستان سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ سنٹر کی انتظامیہ نے پابندی لگا دی جس کا کیس ابھی عدالت میں چل رہا ہے کم و بیش چالیس سے زائد تیر انداز وں کا کیس متاثر ہوااور ایک سال سے زائد کا عرصہ ہوا ہے اس بارے میں مکمل طور پر خاموشی ہیں مگر مجال ہے کہ کسی نے اس بارے میں کوئی اطلاع دی ہو ، کسی ڈیپارٹمنٹ کو ، کسی وزیر کو ، کوئی خبر دی ہو ، کوئی کالم لکھا ہو کسی سطح پر کوئی بات کی ہو کیونکہ اس میں "میڈلز کے ٹھیکے"نہیں اس میں "شوز کے ٹھیکے "نہیں..
حکومت پرائیویٹ اداروں کے ملازمین کو تنخواہیں بروقت ادا کرنے اور ملازمین کو اپوائنٹ منٹ لیٹر دینے کے احکامات جاری کرتی ہیں ملازمین کی ریگولرائزیشن کے حوالے سے بات کرتی ہیں مگر مجال ہے کہ کسی نے حال ہی میں ڈیڑھ سو سے زائد ملازمین جنہیں یہ کہہ کر فارغ کردیا گیا کہ ابھی بجٹ نہیں ، جن میں بہت سارے نکل گئے اور ابھی کچھ باقی ہیں جن کی اپروچ سیاسی بنیادوں پر مختلف پارٹیوں کے لوگوں سے ہے یا پھر ان کے رشتہ دار اسی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ملازم ہیں.حالانکہ اسی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے بہت سارے ملازمین کے رشتہ دارسوئمنگ پول میں بھی کلاس فور ہیں انہیں کچھ نہیں کہا گیا ، حالانکہ ایسے لوگ بھی یہاں پر ہیں جنہیں تنخواہوں کے علاہ ہفتہ واری بھی ملتی رہی ہے اور مل رہی ہیں اس بارے میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے مدح سرائی کرنے والے صحافیوں کو کچھ معلوم ہی نہیں.. اور اگر معلوم بھی ہے تو پھر جان بوجھ کر خاموش ہیں کیوں...
اسی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں واقع ٹینس کورٹ پر سابق ڈی جی سپورٹس کے سامنے پاکستان کے نمبر ون ٹینس کے کھلاڑی نے ٹینس کورٹ کو فاسٹ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسے بہتر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے کھلاڑیوں کے گھٹنے اور جوڑ کے مسائل پیدا ہونگے اور ان کا کھیل جلد ختم ہوگا مگر مجال ہے کسی نے اس بارے میں کوئی خبر دی ہو کیونکہ .. صاحب لوگوں کو برا لگتا ہے اور صاحب لوگوں کے برا لگنے سے ڈر لگتا ہے کیونکہ مدح سرائی کرنے والے صحافیوں کا خیال ہے کہ صاحب لوگ خالق و مالک اور رازق ہیں.اسی وجہ سے وہ سپورٹس کے کھیلوں میں ہونیوالی انسانی سمگلنگ پر بھی خاموش ہیں اور وہ خو د بھی انسانی سمگلنگ میں ملوث ہیں.
اسی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں گیارہ اہم عہدے خالی ہیں حالانکہ اس وزارت کے انچارج گذشتہ آٹھ سالوں سے صوبائی وزیراعلی رہے ، اب اانہوں نے یہ وزارت مردان سے تعلق رکھنے والے عاطف خان کو دیدی ہے عہدوں کے خالی ہونے کی وجہ سے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے کمپیوٹر آپریٹر دیگر اضلاع میں جا کر اسسٹنٹ ڈائریکٹر بن کر ڈیوٹی انجام دیتے ہیں جس کی گواہی اخبارات میں چھپنے والے خبروں سے بھی کی جاسکتی ہیں حالانکہ ڈائریکٹریٹ میں کام پڑے ہونگے مگر چونکہ ٹی اے ڈی کا مسئلہ ہوتا ہے اس لئے ایک جگہ پر خاموشی اور دوسری جگہ پر کام ، جبکہ دوسری طرف کلاس فور سے مالی سے لیکر صفائی کرنے اور چوکیدار کی ڈیوٹی بھی لی جاتی ہیں ، اسی ڈائریکٹریٹ میں الیکٹریشن سے سٹور کیپر کی ڈبل ڈیوٹی بھی لی جاتی ہیں مگر انہیں ادائیگی نہیں ہوتی کیونکہ وہ غریب اور مجبور ہیں.اسی ڈائریکٹریٹ کے ملازمین کے بچے بھی مقابلوں میں حصہ لینے کیلئے جاتے ہیں .. وجہ کیا ہے اس بارے میں لکھنے کی ضرورت اس لئے نہیں کہ پھر صاحب لوگ اور ان کی بیگمات " یہی کہتی ہیں کہ ہمیں بلیک میل کیا جارہا ہے " . حالانکہ لوگوں کو بلیک میل کرنے کیلئے گھروں میں ڈنر کے پروگرام صاحب لوگوں کیلئے یہی لوگ کرتے ہیں..
کیا ارباب نیازک کرکٹ سٹیڈیم سمیت صوبے میں ہاکی کے کھیلوں کیلئے بچھائے گئے آسٹرو ٹرف سمیت کھیلوں کی ایک ہزار منصوبوں میں ہونے والی بہت سار ی چیزوں سمیت فیولنگ کی مد میں نکالے گئے کروڑوں روپوں کی نشاندہی مدح سرائے کرنے والوں کا حق نہیں . یہ اور ان جیسے کئی مسائل کا سامنا سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کو ہے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اعلی حکام اور پی ایم ایس اور پی اے ایس افسران اس لئے کچھ نہیں کہتے ، کہ مفادات کے کھیل میں کبھی کبھی آنکھیں بند کرنی پڑتی ہیں اور اس عمل میں نہ صرف خود آنکھیں بند کرتے ہیں بلکہ ان کی خواہش ہوتی ہیں کہ دیگر لوگ بھی خاموش ہو جائیں حالانکہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے افسران سے لیکر کلاس فور تک اور لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم میں کھلاڑیو ں کے ویٹنگ روم پر قابض مافیا کو اس حقیقت کو جاننے کی ضرورت ہے کہ کھلاڑی ہے تو ڈیپارٹمنٹ بھی ہے اور کھیلوں سے وابستہ صحافی بھی ہیں .خالی گرائونڈز اربوں روپے کے ہوں ، سینکڑوں صحافی ہوں ، ہزاروں ملازمین ہوں مگر کھلاڑی نہ ہوں تو پھر کچھ بھی نہیں..
کیا مدح سرائی کرنے والے صحافی جن میں بیشتر سرکاری ملازمین ہیں اس بات سے انکار کرینگے کہ کتنے ہی نیٹ کیفے کے مالکان ان کی مدد سے صحافی بن کر بیرون ملک غائب ہوگئے ، کتنے ان کے رشتہ دار اسی کھیلوں کی بنیاد پر جعلی ڈاکومنٹ پر بیرون ملک نکل گئے کوئی کوچ بن کر ڈالر کمانے کے چکر میں نکل گیا اور کوئی "خود کو زخمی کرکے نامعلوم حملہ آوروں پر الزام دھر کے بیرون ملک"جانے کے چکر میں ہیں کہ ڈالر وںکی کمائی بچوں سمیت کرینگے ...
کیا کھیلوں کی رپورٹنگ کرنے والے ایسوسی ایشن کسی سرکاری ادار ے کیساتھ رجسٹرڈ ہیں اور اگر ہیں تو کہاں پر ہے اور اس کے ممبران کی تعداد کتنی ہے ، کیا یہ نام نہاد تنظیم پشاور پریس کلب سے بڑھ کر ہیں جو باقاعدہ رجسٹرڈ بھی ہے اور ان کا آڈ ٹ بھی ہوتا ہے کیا چندسرکاری ملازمین پر مشتمل ٹولے اور مارکیٹنگ کرنے والوں کو ہی حق بھی حاصل ہے کہ وہ اپنے آپ کو صحافیوں کی نمائندہ تنظیم کہہ کر متعارف کروائے یہ وہ چیزیں ہیں جو اب اگر سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے افسران اپنے مفادات کی وجہ سے نہیں پوچھ سکتی تو پھر کھیلوں سے وابستہ کھلاڑیوں اور تمام افراد کو خود ان سے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے.
|