میں سرکاری ملازم ہوں کوئی ماڈل نہیں ہوں، دنیا کے امیر ترین ملکوں کے حکمرانوں کی قربانیاں جو ترقی کا سبب بنیں

image
 
سڑک کے کنارے کھڑے پروٹوکول کی ان گنت گاڑیوں کو دیکھتے ہوئے اور ایک عام انسان کی طرح ٹریفک جام میں پھنسے ایک خیال بار بار ذہن میں آرہا ہے کہ ان پروٹوکول کی گاڑیوں کی قیمت ادا کرنے والے، ان گاڑیوں میں بھرے جانے والے فیول کا خرچہ دینے والے ان گاڑيوں کو چلانے والوں کی تنخواہ دینے والے کوئی اور نہیں آپ اور میں ہیں جن کے ٹیکس کے دیے گئے پیسوں سے ہی یہ عیاشی ممکن ہے مگر کیا یہ خرچہ بچایا جا سکتا ہے؟؟
 
عوام کے حکمران نہیں عوام کے خادم لوگ
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کسی سرکاری عہدے کے حصول کا مطلب یہی لیا جاتا ہے کہ عوام کے پیسوں سے حاصل ہونے والی تنخواہ کے حصول کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ عوام کی بقا اور بہتری کے لیے ایمانداری سے کام کرنا ہے اور اس پیسے کو آسائشوں کے لیے اللے تللے خرچ نہیں کرنا ہے ایسی ہی کچھ مثالیں آج ہم آپ کو بتائیں گے-
 
آسٹریا کے صدر تھامس کیلیسٹل
آسٹریا جس کا شمار اس وقت دنیا کے بارہ امیر ترین ممالک میں ہوتا ہے اس کو یہ ترقی دلوانے والی شخصیت کوئی اور نہیں بلکہ ان کے صدر تھامس کیلیسٹیل تھے جو کہ 1992 سے 2004 تک صدارت کے عہدے پر فائز رہے-
 
image
 
اس دوران وہ ایک تین کمروں کے فلیٹ میں اپنی بیوی اور تین بچوں کے ساتھ رہتے تھے ۔ صدارت کے عہدے کے بعد انہوں نے ایک دن اپنی بیوی سے صدارت سے قبل اور صدارت کے بعد کی زندگی میں فرق کے حوالے سے دریافت کیا- تو ان کی بیوی نے جواب دیا کہ اب اہل محلہ اور علاقے کے لوگ ان سے کھنچے کھنچے رہتے ہیں اور ان سے زيادہ بات چیت پسند نہیں کرتے- جب اس حوالے سے انہوں نے اہل محلہ سے دریافت کیا تو ان کے محلے والوں نے بتایا کہ ان کو صبح شام محلے میں پروٹوکول کی گاڑیوں کے آنے سے تکلیف ہے جو صدر صاحب کو ان کے گھر سے لینے آتی ہیں-
 
اس بات کو سننے کے بعد تھامس کیلیسٹیل نے اپنی پروٹوکول کی گاڑيوں کو ان کو لینے آنے اور چھوڑنے آنے سے منع کر دیا- انہوں نے اس بات کو اپنی روٹین میں شامل کر دیا کہ وہ ہر صبح پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے اپنے دفتر جاتے اور اسی طرح سے واپس آتے تاکہ اہل محلہ کو پریشانی نہ ہو-
 
ان کی شخصیت کا ایک اور پہلو یہ بھی تھا کہ ان کی موت ان کی حکومت کے دور ہی میں ہوئی اور مرنے کے وقت تک وہ اسی تین کمروں کے فلیٹ میں رہائش پزیر رہے اور ان کی موت بھی ایک جرنل ہسپتال میں دل کے دورے سے ہوئی-
 
2: جرمن چانسلر اینجیلا مارکل
 
image
 
جرمن چانسلر اینجیلا مارکل کا دور حکومت 2005 سے لے کر 2021 تک کے طویل سولہ سالوں پر محیط تھا جس کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ اس دور میں انہوں نے اپنی قوم کو ترقی کے عروج پر پہنچا دیا لیکن اپنی زندگی کی سادگی میں فرق نہ آنے دیا-
 
ان کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ایک بار ان سے ایک صحافی نے دریافت کیا کہ یہ لباس تو آپ نے پہلے بھی پہن رکھا تھا تو ان کا جواب تھا میں سرکاری ملازم ہوں کوئی ماڈل نہیں جو ہر بار ایک نئے لباس میں سب کے سامنے آؤں-
 
اسی طرح جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے گھر میں کوئی ملازم ہے یا نہیں اور ان کے گھر میں کپڑے کون دھوتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ان کو کسی ملازم کی ضرورت نہیں ہے گھر کے کام وہ اور ان کے شوہر مل کر کرتے ہیں- یہاں تک کہ کپڑے بھی وہ نکال کر صحیح کر کے رکھتی ہیں جب کہ ان کے شوہر ان کپڑوں کو واشنگ مشین میں ڈالتے ہیں-
 
سیکھنے کے سبق
اوپر دی گئی دو مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ قومیں اسی وقت ترقی کرتی ہیں جب کہ اس کے حکمران خود کو عوام کے لیے مثال بناتے ہیں محنت اور کام کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں تو ان کو دیکھ کر عوام بھی وہی خصوصیات اپناتی ہے-
 
ہمارے حکمران خود کو حکمران سمجھنے کے بجائے اگر خود کو عوام کا ملازم سمجھیں تو شائد عوام کی بہتری کے لیے بھی کوئی کام کر سکیں آپ کا کیا خیال ہے-
YOU MAY ALSO LIKE: