چین میں سرمایہ لگائیں اور منافع کمائیں
(Shahid Afraz Khan, Beijing)
|
چین اس وقت دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے جو اپنی وسیع
منڈی ،معاشی لچک اور سازگار کاروباری ماحول کی وجہ سے دنیا بھر کی ٹاپ
کمپنیوں کے لیے سرمایہ کاری کی بہترین منزل بن چکا ہے۔یہ امر بھی قابل زکر
ہے کہ حالیہ عرصے میں مختلف عالمی چیلنجز کے باوجود چین میں بیرونی سرمایہ
کاری کی ترقی کا رجحان برقرار رہا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ عالمی کمپنیاں چین
میں اپنے منافع کے حوالے سے پر اعتماد ہیں اور چین کی کرشماتی ترقی سے پیدا
ہونے والے مواقع سے بھرپور استفادہ کرنا چاہتی ہیں۔
اس ضمن میں معاشی اشاریے عالمی کاروباری اداروں کی چین میں بڑھتی ہوئی
دلچسپی کو مزید اجاگر کرتے ہیں۔2021 کی ہی بات کی جائے تو عدم عالمگیریت کے
بڑھتے ہوئے رجحان اور تحفظ پسندی کے باوجود، چین میں براہ راست غیر ملکی
سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی)1.15 ٹریلین یوآن (تقریباً 170 بلین امریکی ڈالر)
تک پہنچ چکی ہے۔ یہ بات تعجب انگیز ہے کہ صرف دس سال قبل یعنیٰ 2012 کے
مقابلے میں ایف ڈی آئی میں شرح اضافہ 62.9 فیصد ہے۔ آج چین اس اعتبار سے
دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔دوسری جانب اقوام متحدہ کی تجارت اور ترقی کی
کانفرنس کے مطابق، اسی عرصے میں عالمی ایف ڈی آئی میں تقریباً 27 فیصد
اضافہ ہوا جو آج 1.65 ٹریلین امریکی ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔
چین میں بیرونی سرمایہ کاری میں مضبوط اضافے نے ایسے تمام خدشات کو بھی غلط
اور غیر ضروری ثابت کر دیا جن کے مطابق غیر ملکی سرمایہ کار شائد چینی
مارکیٹ میں زیادہ عرصہ نہیں رک سکیں گے۔ظاہر ہے چین میں ہنرمند افرادی قوت
اور کم لاگت کاروبار کے علاوہ، ملک کی مستحکم ترقی اور مارکیٹ کی بڑی
صلاحیت نے بیرونی سرمایہ کاری کو اپنی جانب مسلسل راغب کیے رکھا ہے۔دنیا کے
نزدیک یہ بات بھی حوصلہ افزاء ہے کہ 2012 سے 2021 تک چین کی جی ڈی پی 53.9
ٹریلین یوآن سے بڑھ کر 114.4 ٹریلین یوآن ہو گئی ہے۔ملک کی فی کس ڈسپوزایبل
آمدنی 2020 میں 32,189 یوآن تک پہنچ چکی ہے، جو 2010 کی سطح سے دوگنی سے
بھی زائد ہے۔ اسی طرح چین اس وقت دنیا کی دوسری سب سے بڑی صارف مارکیٹ ہے
جہاں 400 ملین سے زائد افراد کا تعلق متوسط آمدنی کے حامل طبقے سے ہے۔یہ
پیش رفت ظاہر کرتی ہے کہ چین کس تیز رفتاری سے اقتصادی ترقی کی منازل طے کر
رہا ہے۔
عالمی سرمایہ کاروں کے نزدیک چینی معیشت کا مسلسل کھلا پن ، تیز رفتار ترقی
اور چینی صارفین کی بڑھتی ہوئی قوت خرید اُن کے لیے منافع کا سامان ہے۔
وسیع پیمانے پر کھلے پن کے ساتھ ساتھ، حالیہ برسوں میں چین کی جانب سے ترقی
کے نئے نمونے کی جستجو کی گئی ہے۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ملک میں ترقی کے
معیار کو بہتر بنانے اور ترقی کے نئے محرکات پر توجہ مرکوز کی گئی،جس نے
غیر ملکی سرمایہ کاری کے منظر نامے کو بھی تبدیل کر دیا۔یہی وجہ ہے کہ غیر
ملکی سرمایہ کاری چینی معیشت میں نئے شعبوں میں داخل ہوئی ہے جس میں
اختراعی، مربوط، سبز، کھلی اور مشترکہ نمو جیسی خوبیاں شامل ہے۔مینوفیکچرنگ
شعبے کی ہی بات کی جائے جو ایک اہم اقتصادی ڈرائیور ہے، ملٹی نیشنل کمپنیوں
نے حالیہ برسوں کے دوران چین میں اپنی سرمایہ کاری میں "ویلیو چین" کو
مسلسل آگے بڑھایا ہے اور یہ رجحان بدستور جاری ہے۔
آج چین دنیا کا واحد ملک ہے جس کے تمام صنعتی زمرے اقوام متحدہ کی صنعتی
درجہ بندی میں درج ہیں۔ جدت کے محاذ پر، ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی
آرگنائزیشن کے مطابق عالمی انوویشن انڈیکس 2021 میں چین 12 ویں نمبر پر آ
چکا ہے، جو کہ 2012 میں 34 ویں نمبر پر تھا ۔ صرف شنگھائی شہر میں ہی،رواں
سال مئی کے آخر تک، ملٹی نیشنل کمپنیوں نے 848 علاقائی ہیڈ کوارٹرز اور 512
غیر ملکی سرمایہ کاری سے چلنے والے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ مراکز قائم کیے ہیں۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے چین کی جانب سے اعلیٰ
سطح کے کھلے پن کو فروغ دینے کی کوششوں سے نئے مواقع میسر آئے ہیں، جس نے
نہ صرف اشیاء کے بہاؤ اور پیداواری عوامل کی حوصلہ افزائی کی ہے بلکہ قواعد
و ضوابط، نظم و نسق اور معیارات کی بنیاد پر ادارہ جاتی کھلے پن کو مسلسل
فروغ دیا ہے۔ چین نے غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے منفی فہرست کو مختصر کیا
ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے غیر
ملکی سرمایہ کاری کے قانون سمیت دیگر قوانین اور ضوابط نافذ کیے ہیں۔عالمی
بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق، چین کا کاروباری ماحول بھی مسلسل بہتر ہو رہا
ہے اور آج چین کاروبار میں آسانی کی درجہ بندی میں 31 ویں نمبر پر موجود ہے
جبکہ 2012 میں یہی نمبر 91 تھا۔یوں چین نے اپنی ترقی سے دنیا بھر کے
کاروباری اداروں کو زبردست موقع فراہم کیا ہے کہ وہ یہاں بھرپور اعتماد کے
ساتھ سرمایہ کاری کریں ،کیونکہ چینی منڈی اُن کے لیے منافع کی زبردست ضمانت
ہے۔
|
|