میری موت کا ذمہ دار کون!! اقتدار کی جنگ میں مگن حکمرانوں سے پانی کے بیچوں بیچ چٹائی پر تیرتی دو سالہ بچی کی لاش کا سوال

image
 
پنجاب کا وزیر اعلیٰ کون ہوگا؟ اس کے بعد مرکز میں حکومت کو کیا خطرات لاحق ہوں گے؟ کیا سپریم کورٹ کے ججز کا فیصلہ ٹھیک تھا یا غلط؟ خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت، سندھ پیپلز پارٹی کا اور مرکز ملا مسلم لیگ ن کا یہ ساری وہ بحث ہے جو گزشتہ کئی مہینوں سے مین اسٹریم میڈیا کا سب سے پسندیدہ موضوع ہے-
 
مون سون کی بارشیں اور اس سے ہونے والی تباہی
سیاست کی ان شہ سرخیوں کے بعد اگر تھوڑا سا ٹائم سلوٹ بچ جاتا ہے تو منہ کا مزہ بدلنے کے لیے خبروں میں یہ بھی بتا دیا جاتا ہے کہ شدید ترین مون سون کی بارشوں نے گزشتہ چار دنوں سے بلوچستان کا زمینی رابطہ پورے ملک سے ختم کر دیا ہے۔ ندی نالوں میں شدید ترین طغیانی کے سبب سیکڑوں دیہات زير آب آگئے-
 
لیکن یہاں پر بارشیں اور اس سے ہونے والی تباہی بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کی جا رہی ہے سندھوالے کہتے ہیں کہ صرف کراچی نہیں بلکہ پنڈی بھی تو بارش سے ڈوبا صرف ہم پر الزام کیوں؟
 
image
 
سوشل میڈيا پر دو سالہ بچی کی وائرل تصویر
گزشتہ کچھ دن سے سوشل میڈيا پر ایک دو سالہ بچی کی ایک تصویر تیزی سے وائرل ہو رہی ہے چاروں طرف مٹیالا پانی اور اس میں تیرتی ایک چٹائی پر ایک دو سالہ بچی کی پانی میں آدھی ڈوبی لاش جو دریائے کابل کے کنارے سے ملی انسانی ضمیر کو جھنجھوڑںے کے لیے کافی ہے- مگر بد قسمتی سے اب تک اس پر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی-
 
ریسکیو 1122 کے ذرائع کے مطابق یہ لاش نوشہرہ میں سیلابی پانی کے بہاؤ سے ملی ہے چھوٹے جنازے زيادہ بھاری ہوتے ہیں مقامی لوگوں نے یہ لاش دریافت کر کے اس کو ریسکیو ذرائع کے حوالے کیا جہاں سے انہوں نے اس کے وارثین کی تلاش شروع کر دی-
 
ذرائع کے مطابق بچی کا تعلق پشاور کے علاقے حسن گڑھی سے ہے دو سالہ اس بچی کا نام سارہ ہے اور اس کے والد یا نام اختر شاہ ہے-
 
شام میں سمندر کنارے بچے کی لاش نے تو دنیا جگا دی تھی
معروف ٹی وی نیوز اینکر اور صحافی عامر متین نے اس بچی کی تصویر کا موازنہ شام کے سمندر کنارے ملنے والے اس بچے کی لاش کے ساتھ کیا- جس نے عالمی ضمیر جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اور دنیا بھر کے ممالک شامی پناہ گزينوں کے لیے اقدامات کرنے کے لیے تیار ہو گئے تھے-
 
image
 
مگر بدقسمتی سے معصوم سارہ کی اس لاش پر ہمدردی کے دو بول بولنے کا وقت بھی ہمارے حکمرانوں کو نہیں ہے ان کو تو یہ تک یاد نہیں ہے کہ جس وقت وہ اپنے جیتنے کا جشن منانے میں مصروف تھے اس وقت پانی کے بہاؤ میں تیرتی سارہ اپنی توتلی زبان میں مدد کی فریاد کر رہی تھی-
 
مگر اونچی آواز میں لگے پارٹی کے ترانوں کی گونج میں کسی کو اس بات کا خیال تک نہیں آیا کہ ان ہی کے ملک کے کسی کونے میں عوام کے گھر تیز لہروں میں بہہ رہے ہیں- اگر سیاست بے حسی کا نام ہے تو عوام کو اس سے معاف رکھیں-
 
سارہ کی لاش کسی ایک پارٹی سے نہیں بلکہ تمام مقتدر حلقوں سے اپنی بے زبانی سے یہ سوال کر رہی ہے کہ عوام کو اقتدار اور حکومت کے مسائل میں الجھانے کے بجاۓ کیا اس وقت حکمرانوں کی ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ سیلاب کے سبب ہونے والی تباہی پر عوام کی داد رسی کی جائے؟
YOU MAY ALSO LIKE: