ہوسکتا ہے لندن ، برمنگھم اور
مانچسٹر سمیت مختلف برطانوی شہروں میں لاقانونیت ، جلاؤ ، گھیراؤ ، پتھراؤ
، لوٹ مار ، قتل ، گرفتاریاں باقی دنیا کے لئے باعثِ حیرت و بے چینی ہوں
مگر اہلِ کراچی کے لئے بالکل نہیں۔گزشتہ پانچ چھ دن سے ہر کوئی اس بابت نہ
صرف بہت سے ایس ایم ایس وصول کررہا ہے بلکہ انہیں زیرِ لب مسکراتے ہوئے آگے
بھی بانٹ رہا ہے۔ مثلاً
برطانوی کابینہ کی سلامتی کے امور سے متعلق خصوصی کمیٹی کوبرا نے وزیرِ
اعظم ڈیوڈ کیمرون کو اختیار دیا ہے کہ وہ فسادات کی روک تھام کی موثر حکمتِ
عملی وضع کرنے کے لئے ڈاکٹر فاروق ستار ، شاہی سید اور ذوالفقار مرزا سے
تکنیکی مشاورت اور معاونت لے سکتے ہیں۔
الطاف بھائی نے ہفتہ بھر پہلے عوام سے ایک مہینے کا راشن ذخیرہ کرنے کی جو
اپیل کی تھی وہ دراصل لندن والوں کے لئے تھی کراچی والوں کے لئے نہیں۔
نائب وزیرِ اعطم نک کلگ نے لندن کے مئیر بورس جانسن کو ایم کیو ایم لندن
ہیڈ کوارٹرز سے رابطے کی ہدایت کی ہے تاکہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین
کو آمادہ کیا جاسکے کہ جس طرح ان کے معجزاتی خطاب سے کراچی میں اچانک امن و
امان کی بہار آجاتی ہے اسی طرح کیا وہ اہلِ لندن سے بھی پرتاثیر خطاب کر کے
ایک ذمہ دار برطانوی شہری کا فرض نبھا سکتے ہیں۔اگر یہ معجزہ ہوجائے تو
مصطفی کمال کو لندن کا اعزازی مئیر بنایا جاسکتا ہے۔
لندن میٹرو پولٹین پولیس چیف اختتامِ ہفتہ پاکستان میں گذاریں گے تاکہ
وفاقی وزیرِ داخلہ رحمان ملک ، سندھ کے وزیرِ اعلی قائم علی شاہ ، سندھ
پولیس و رینجرز کے سربراہان سے یہ نسخہ معلوم کرسکیں کہ ٹارگٹ کلرز پر ہاتھ
ڈالے بغیر، اسلحے کی آمد روکے بغیر، بنا گولی چلائے صرف موٹرسائیکل پر ڈبل
سواری پر پابندی اور پریس کانفرنسوں کے ذریعے پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں
امن کیسے قائم ہوجاتا ہے ۔میٹرو پولٹین پولیس چیف وفاقی اور صوبائی
اہلکاروں سے لندن پولیس کے ایک سو اہلکاروں پر مشتمل دستے کو ایک ماہ تک
کراچی میں ’ آن جاب‘ ریفریشر کورسز کروانے کے امکانات پر بھی تبادلہ خیالات
کریں گے تاکہ وہ برطانیہ واپسی پر ماسٹر ٹرینرز کا کام کرسکیں۔
اہلِ کراچی اس پر بھی حیران ہیں کہ لندن اور دیگر شہریوں میں ایسا کیا
ہوگیا کہ برطانوی پارلیمنٹ کے بچارے ارکان کو گرمیوں کی تعطیلات سے واپس
بلا لیا گیا ہے۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ محض چار افراد کی ہلاکت ،
کچھ آتشزنی اور لوٹ مار کے واقعات پر غور کرنے کے لئے پوری پارلیمنٹ بٹھا
دی گئی ، پولیس کی چھٹیاں منسوخ کردی گئیں اور یہ اسباب تلاش کرنے کی کوشش
ہو رہی ہے جنہوں نے بقول وزیرِ اعظم کیمرون برطانوی معاشرے کے ایک حصے کو
ذہنی بیمار بنا دیا ہے۔
برطانیہ ہنگاموں پر قابو پانے کے لیے اپنے شہریوں الطاف حسین اور رحمان ملک
کی خدمات کیوں حاصل نہیں کرتا؟
کچھ اہلیانِ کراچی کے بقول اہلِ برطانیہ مارکیٹ اکانومی کے بہت بڑے چیمپئین
بنتے ہیں لیکن ہمارے ہاں تو امن و امان تک مارکیٹ اکانومی کے اصول پر کام
کررہا ہے۔ پولیس اور رینجرز قاتلوں کے کام میں مداخلت نہیں کرتے اور قاتل
سیکورٹی دستوں کو تنگ نہیں کرتے۔ کون سا اسلحہ کون اور کس قیمت پر خرید رہا
ہے کسے بیچ رہا ہے ، کون مر رہا ہے کس کے ہاتھوں مر رہا ہے۔کس پے کونسا
مقدمہ کب بنایا گیا اور کب کس نے کیوں بری کردیا۔
ڈاکے کون ڈال رہا ہے انہیں کون پکڑ کے مار یا جلا رہا ہے۔کس نے کس کو اغوا
کرکے کتنا تاوان دیا یا لیا۔کون کس سے کیا بھتہ وصول کررہا ہے۔ سڑک کب بند
ہوئی ، کتنے ٹائر جلے ، کتنی گاڑیاں کس نے نذرِ آتش کیں ، انکی انشورنس کون
دے رہا ہے یا نہیں دے رہا۔ کس نے کب اور کیوں ہڑتال کی اپیل کردی اور کب
واپس لے لی۔ان ہڑتالوں سے کس کا کتنا معاشی نقصان ہوا اور کسے کتنا سیاسی
فائدہ ہوا۔سب کاروبار آزاد منڈی کے اصول پر رواں دواں ہے۔ چنانچہ حکومت کو
کیا ضرورت ہے کہ وہ پارلیمنٹ کا اجلاس بلائے اور کاروبار میں رخنہ اندازی
کرے۔ پہلے ہی معیشت کونسی اچھی ہے جو مزید پابندیاں و ضوابط نافذ کر دئیے
جائیں۔
(کرنے کے فوری اقدامات)
بہتر یہی ہوگا کہ حکومتِ برطانیہ بھی خود پر خوامخواہ کا بھروسہ کرنے کے
بجائے اپنے حالات خدا پر چھوڑ دے۔ اب تک ہونے والے واقعات کی متعلقہ حکام
سے فوری رپورٹ طلب کرلی جائے۔مندروں ، مساجد اور گرجا گھروں میں خصوصی
دعائیں مانگی جائیں ۔مرنے والوں کے لئے ساڑھے تین لاکھ پاؤنڈ فی کس معاوضے
کا اعلان کیا جائے۔
پکڑ دھکڑ اور سزائیں دینے کے بجائے بلوائیوں کے گینگ لیڈرز کو ٹین ڈاؤننگ
سٹریٹ میں ڈنر پر مدعو کرکے گلے ملوا دیا جائے اور انہیں امن کمیٹیوں میں
بھی شامل کیا جائے۔ لندن میٹرو پولٹین پولیس چیف کا تبادلہ گلاسگو کردیا
جائے اور ان کی جگہ سندھ کے چیف ہوم سکریٹری وسیم احمد یا آئی جی واجد
درانی کو ڈیپوٹیشن پر بلا لیا جائے۔ مڈ لینڈز پولیس چیف کو پہلے او ایس ڈی
بنایا جائے اور کچھ عرصے بعد فشریز ڈپارٹمنٹ کا سربراہ مقرر کردیا جائے۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حکومتِ برطانیہ رفتہ رفتہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کو
فروغ دے، پٹرول اور گیس کی قیمت کو دوگنا کر دے، چینی اور آٹے کے لئے
لائنیں لگوادے تاکہ عام آدمی اپنے ہی مسائل میں اتنا الجھ جائے کہ اس کا
کسی اور طرف دھیان ہی نہ جائے اور لگ پتا جائے کہ حکومتی رٹ چیلنج کرنے
والوں سے ریاست کیسے نمٹتی ہے۔ |