ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں
جہاں مذہبی حلقے، شدت پسند سمجھے جانے لگے ہیں وہیں خود کو روشن خیال، لبرل
اور سیکولر کہنے والے بھی ان سے پیچھے نہیں رہے۔
سوال یہ تھا کہ پاکستان کا پہلا قومی ترانے کس نے لکھا؟ اور کچھ آخر الذکر
دوستوں کا اصرار ہے کہ پاکستان کا پہلا قومی ترانہ جگن ناتھ آزاد نے لکھا۔
جگن ناتھ آزاد اردو کے نامور دانشور تلوک چند محروم کے فرزند اور خود بھی
اہم شاعر اور ناقد تھے۔ اُسی عیسٰی خیل میں پیدا ہوئے تھے جہاں کے ہمارے
مقبول گلو کار عطا اللہ ہیں کئی نسلوں سے وہیں رہتے تھے لیکن تقسیم نے
انہیں ہندوستان دھکیل دیا اور اب انہیں ہندوستان کے معروف شاعر کہا جاتا ہے۔
یہ سارا معاملہ ہندوستان کے ایک صحافی لو پوری Luv Puri کی ایک رپورٹ سے
شروع ہوتا ہے جو انہوں نے 24 جولائی 2004 میں جگن ناتھ آزاد کے انتقال کے
ایک ماہ بعد پہلے دہلی سے شایع ہونے والے پندرہ روزہ ’دی ملی گزٹ‘ اور پھر
چند ماہ بعد 19جون 2005 کو ہندوستان کے تیسرے بڑے انگریزی اخبار ’دی ہندو‘
میں چھپوائی۔
جگن ناتھ آزاد سے انٹرویو پر مشتمل اس رپورٹ سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ
پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے تو پاکستان کا قومی ترانہ ایک ہندو شاعر
سے لکھوایا تھا لیکن ان کے بعد آنے والوں نے یہ اعزاز کسی مسلمان کو دینے
کے لیے اس سارے کام کو ملیا میٹ کر دیا اور اس ترانے کی جگہ حفیظ جالندھری
سے ایک نیا ترانہ لکھوا لیا۔
اِس سے یہ معنی بھی اخذ کیے گئے کہ جناح تو لبرل، روشن خیال اور سیکولر تھے
لیکن حفیظ جالندھری سے ترانہ لکھوانے والے اُن کے اِن تصورات کو دوسرا رنگ
دینا چاہتے تھے۔ اس خدشے کا اظہار کئی بلاگز اور مضامین سے کیا گیا جو لو
پوری کی انٹرویو رپورٹ پر انحصار کر کے لکھے گئے۔ لو پوری کی رپورٹ اگرچہ
جگن ناتھ آزاد کے انتقال کے بعد شائع ہوئی لیکن اس لیے مستند ہے کہ جگن
ناتھ آزاد نے اور کئی جگہ ایسے باتیں کیں جن سے انٹرویو کے مندرجات کی
تصدیق ہوتی ہے۔
بلاگز کو تو ابھی وہ استناد حاصل نہیں ہوا کہ انہیں تحقیق کا حوالہ بنایا
جا سکے کیونہ اب تک بلاگز ایک نوع کی تاثراتی تحریروں کی حیثیت رکھتے ہیں
لیکن جب یہی بات پرنٹ میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں اور تحریروں میں بھی
آ جائے تو اس کی حیثیت تبدیل ہو جاتی ہے۔
پاکستان کے روشن خیال، لبرل اور سیکولر لوگوں کو جنرل ضیا الحق کے دور سے
جن حالات اور واقعات سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے انہوں نے شاید انہیں ضرورت سے
زیادہ جلدباز اور حساس بنا دیا ہے اور ان میں سے کچھ کا حال رسّی سے بھی
ڈرنے والوں کا سا ہو گیا ہے ۔ ان کی اسی جلد بازی نے یہ خدشہ پیدا کیا ہے
کہ مستقبل میں ان کی وجہ سے غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے اور یہی وہ تشویش ہے
جس نے عقیل عباس جعفری کو قومی ترانے کے بارے تحقیق کرنے پر آمادہ کیا۔ اس
بارے میں ان کی کتاب ’پاکستان کا قومی ترانہ: کیا ہے حقیقت؟ کیا ہے فسانہ؟‘
گزشتہ سال اکتوبر میں شائع ہوئی۔
عقیل عباس جعفری اگرچہ باقاعدہ محقق نہیں ہیں لیکن انہوں تحقیق پر مبنی
ایسا اور اتنا کام کیا ہے کہ ان کی تحقیق کو ایک ایسا مقام حاصل ہو گیا ہے
جو کسی بھی باقاعدہ محقق کے کام کو حاصل ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کتاب میں جو تفصیلات فراہم کی ہیں ان کے مطابق اس دوسرے احساس کی
ابتدا مہرین ایف علی کے ایک مضمون سے ہوتی ہے جو پاکستان کے انگریزی
روزنامہ ڈان میں 13 اگست 2006 کو A Tune to Die For کے عنوان سے شایع ہوا۔
اس میں انہوں نے جگن ناتھ کے اس بیان کو من و عن قبول کر لیا کہ انہوں نے
بانیِ پاکستان کے کہنے پر پاکستان کا پہلا قومی ترانہ 14 اگست 1947 تک
تحریر کر لیا، جسے انہوں نے ’چند گھنٹے میں منظور کر لیا۔ اسے پہلی مرتبہ
ریڈیو پاکستان کراچی سے گایا گیا‘ اس بات کو ظہیر قدوائی نے اپنی ویب سائٹ
windmills پر اس دعوے کے ساتھ آگے بڑھایا کہ انہیں ریڈیو پاکستان سے یہ
ترانہ سنا جانا یاد ہے۔
ان کے بعد عادل انجم نے 5 جون 2009 کو اپنی ویب سائٹ پاکستانیات ڈاٹ کام پر
ایک مفصل بلاگ تحریر کیا جس میں تمام باتوں کو تفصیلاً دہراتے ہوئے جگن
ناتھ آزاد کی ایک ریکارڈنگ بھی شامل کر دی۔ جس سے لو پوری کے انٹرویو کی
توثیق ہوتی ہے۔
جولائی اگست 2009 میں پاکستانی ائر لائن پی آئی اے کے جریدے پرواز میں
خوشبو عزیز کے نام اور Pride of Pakistan کے عنوان سے ایک مضمون شایع کیا
گیا جس میں لو پوری سے عادل انجم تک کی تمام باتوں کو دہرا دیا گیا۔
جعفری کے مطابق ’ممتاز صحافی بینا سرور نے اسی مضمون کو بنیاد بناتے ہوئے
19 اور 22 ستمبر 2009 کو روزنامہ ڈان اور دی ہندو میں نہ صرف مضمون لکھے
بلکہ تفصیلی بلاگ بھی لکھے جن میں جگن ناتھ آزاد کے ترانے کو پاکستان کا
پہلا قومی ترانہ قرار دینے پر زور قلم صرف کر دیا‘۔
عقیل عباس جعفری کے مطابق 1993 میں خلیق انجم نے جگن ناتھ آزاد کی حیات اور
ادبی خدمات کے بارے میں ایک کتاب لکھی جس میں انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ
پاکستان کے ذمہ داروں نے جگن ناتھ آزاد سے ترانۂ پاکستان لکھوایا جو اگست
کی رات کو پاکستان کے قیام کے اعلان کے فوراً بعد ریڈیو پاکستان لاہور سے
نشر ہوا۔
اس میں جو اضافہ جیو ٹیلی ویژن نے کیا اس کی تفصیل بھی کتاب میں موجود ہے۔
لیکن عقیل عباس جعفری نے جو دستاویزی ثبوت اور حقائق جمع کیے ہیں ان کے
مطابق ریڈیو پاکستان لاہور اور پشاور کی لاگ بُکس کے محفوظ ریکارڈ سے جگن
ناتھ آزاد کے اس دعوے کی تصدیق نہیں ہوتی کہ ان کا ترانہ نشر ہوا تھا۔
اب ریڈیو پاکستان کراچی رہ جاتا ہے۔ کراچی کو نئے ملک کا دارالحکومت قرار
دیا گیا تھا لیکن عقیل عباس جعفری کا کہنا ہے کہ ریڈیو پاکستان کراچی
پاکستان بننے کے ایک سال بعد یعنی 14 اگست 1948 کو وجود میں آیا۔ لہٰذا
کراچی سے قیام پاکستان کی نشریات اور ترانہ نشر ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں
ہوتا۔
جگن ناتھ آزاد اور قومی ترانے کے حوالے سے یہ وہ پہلو ہیں جنہیں ملحوظ نہیں
رکھا گیا۔ لیکن عقیل عباس جعفری کی کتاب کے اور بھی پہلو ہیں اس سے وہ تمام
ریکارڈ سامنے آ گیا ہے جو پہلے قومی ترانے کے لکھے جانے اور اس کی موسیقی
ترتیب دیے جانے سے تعلق رکھتا ہے۔
جگن ناتھ آزاد نے لو پوری کو دیے جانے والے انٹرویو میں اور کہیں بھی اور
ریڈیو پاکستان لاہور کے اس اہلکار کا نام نہیں بتایا جس نے انہیں یہ کہا
پاکستان کی اہم ترین شخصیت ان سے پاکستان کا پہلا قومی ترانہ لکھوانا چاہتی
ہے اور قائد اعظم کے پیپرز میں بھی کہیں یہ بات اب تک سامنے نہیں آئی کہ
انہوں نے کوئی قومی ترانہ لکھوایا تھا۔
پاکستان کا قومی ترانہ کیسے لکھا گیا، اس بارے میں کیا کیا تجاویز آئیں اور
کس کس نے دیں، یہ ساری روداد نہ صرف انتہائی دلچسپ ہے بلکہ ایسے پہلوؤں کو
بھی اجاگر کرتی ہے جو پاکستان کے ابتدائی دنوں میں قیادت اور بیوروکریسی کے
کام کرنے کے انداز کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہے اس لیے اس عہد سے دلچسپی
رکھنے والوں کو تو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔
انور سِن رائے |