علماء، پیرو مشائخ کی خدمت میں دست بدستہ عرض
(Allah Bakhash Fareedi, Faisalabad)
|
تحریر: اللہ بخش فریدی فیصل آباد |
|
آج جب ملت اسلامیہ طرح طرح کی فتنوں میں گھری ہے، اس کا
وجود کئی انواع و اقسام کے جان لیوا امراض میں مبتلا ہے، آئے روز اسے کئی
طرح کی مشکلوں ، دکھوں ، تکلیفوں اور آزمائشوں کا سامنا ہے ۔ اس کی کشتی
ڈوبنے کے قریب ہے ۔ اس کے وجود کو کئی بدنما خوفناک چڑیلیں چمٹی ہوئی ہیں
جو اسے دن بدن پستیوں کی طرف لے جا رہی ہیں ، گمراہی و ضلالت ، فسق و فجور
کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں جھونک رہی ہیں ۔ اطراف عالم میں نفسا نفسی کا
عالم ہے ۔ سب کو اپنی اپنی فکر ہے کسی کو امت کا حال دیکھ کر رونا نہیں آ
رہا ۔ ان حالات میں امت کا دکھڑا، امت کا درد لے کر جائیں تو کہاں ؟ کس کے
پاس؟کس کو آواز دیں کہ خدارا بچا لو امت کو؟ کس کی منت سماجت کریں ؟
حکمران اور سیاست دانوں کی؟ نہیں نہیں ! یہ جمہوری مداری،یہ مغرب زدہ، یہ
خائن، یہ بے ضمیر و بے حس،یہ ہوسِ اقتدار و زر کے نشہ میں لت پت، یہ دین کے
باغی، یہ لادین جمہوریت کے فدائی، یہ خدا کے دین کے ساتھ کھلی بغاوت اور
انحراف پر مبنی نظام کفرِ جمہوریت پر قربان ہونے والے کیا خدا کے دین پر
قربان ہوں گے؟ نہیں نہیں ! دل نہیں جمتا، فہم نہیں مانتی، عقل تسلیم نہیں
کرتی ۔ یہ دین کے باغی، جمہوری فدائی تو آج اسمبلیوں سے تبدیلی دین کا بل
پاس کروانے کی تگ و دو میں ہیں کہ نہ کوئی دین کی تبلیغ کرے نہ کوئی غیر
مسلم مسلمان ہو ۔ ہندؤ ہندؤ رہیں ، سکھ سکھ اور عیسائی عیسائی ۔ یہ اسے
اقلیتوں کا حق سمجھ کر بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں اور ہم ان سے دین کےلئے
لڑنے اور مرنے کی توقع کریں ۔
متاع معنی بیگانہ از دون فطرتان جوئی
ز موران شوخی طبع سلیمانی نمی آید
گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کاری شو
کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آید
ہم ایک اچھوتے اور حکیمانہ خیال کی توقع ایسے لوگوں سے کریں جو جاہل اور
پست فطرت ہیں ، کہاں چیونٹی اور کہاں حضرت سلیمان علیہ السلام ۔ ہم ایک
چیونٹی سے سیدناسلیمان علیہ السلام کی سی ذہانت و ذی طباحت کی توقع نہیں
کرسکتے ۔ ان (لا دین جمہوری مداریوں )سے توقع کرنا گدھوں پر کتابیں لادنے
کے مترادف ہے اگردوسوگدھے بھی جمع ہوجائیں تو ان سے ایک انسان کے فکر کی
توقع نہیں کی جاسکتی ۔
کیا امراء کے محلوں اور بنگلوں پر دستک دیں وہاں بھی دل نہیں جمتا، وہ
ہمارے آنسوؤں کا مداوا نہیں کر سکتے ۔ جی چاہتا ہے یہ درد لے کر علماء و
پیر و مشائخ کے درِ دولت پر حاضر ہوں ، ان کے دروازوں کو کھٹ کھٹائیں ، ان
کی چوکھٹ پر دستک دیں ، ان کے ضمیروں کو جھنجھوڑیں ، ان کے جوش و خون کو
گرمائیں ، دل مانتا ہے کہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی، یہ بجھی شمعیں
روشن ہوں گی توپھر سے اجالے ہوں گے، یہ پھول کھلیں گے تو امت کا گلشن خوشبو
و زینت سے مہکے گا ۔ یہ دین کے حقیقی سپاہی و مجاہد بن کر اپنی ذمہ داری کا
احساس کریں گے تو امت کی تقدیر بدلنا شروع ہو گی ۔
علماء پیرو مشائخ خدا کےلئے اٹھو، پیارے مصطفی کریم ﷺ اور آپ ﷺ کی امت
کےلئے اٹھو ۔ بچا لو ہ میں ، بچا لو اس ملت کو، بچا لو اس امت کی غرق ہوتی
نیہا کو، سہارا دو امت کی ڈوبتی کشتی کو اور کسی کنارے لگا دو ۔ سنا تمہیں
دم بہت آتے ہیں کوئی اچھا سا دم ہی کر دو ملت پر ۔ سنا تمہاری دعائیں بہت
قبولیت پاتی ہیں مریدین کےلئے ، امت کےلئے تمہاری دعاؤں میں مقبولیت کیوں
نہیں ؟ سنتے ہیں تمہارے پاس دین ہے ، کہاں ہے تمہارا دین؟ وہ معاشرہ میں
عملی صورت میں نظر کیوں نہیں آتا؟ اس کا اصلی چہرہ کیوں مسخ ہو چکا ہے؟
سنتے ہیں تمہارے پاس قرآن کے اجالے ہیں کہاں ہے اس کی روشنی؟ سنتے ہیں
تمہارے پاس نور ہدایت کی کبھی نہ بجھنے والی قندیلیں ہیں کہاں ہے ان کا
نور؟ کیوں مانند پڑ گئی ان کی روشنی؟ سنتے ہیں تمہارے پاس رسول اللہ ﷺ کی
احادیث اور سیرت و کردار کی سورج سے زیادہ روشنی بکھیرتی اور جگمگاتی کرنیں
ہیں کہاں ہے ان کی روشنی؟ کہاں ہے ان کی چمک دمک؟ کہاں ہیں اس کے نور
اجالے؟ سنتے ہیں تمہارے پاس رشد و ہدایت کے دو جہاں منور کر دینے والے چراغ
ہیں کہاں ہیں اس کی شمعیں ؟ سنتے ہیں تمہارے پاس اصحاب و اسلاف کے روشن
کردار اور ستاروں سے زیادہ جگمگاتی ان کی سیرت کی داستانیں ہیں تم میں کہاں
ہے ان کی جھلک ، ان کے سیرت و کردار کی مہک اور ان کی رنگ و بو؟ تم ان سے
تمام جہاں روشن و منور کرنے کی بات کرتے ہو ، تم سے تو ایک یہ جہاں روشن
نہیں ہو پا رہا تم باقی جہانوں میں روشنی کہاں سے لا کر مہیاکرو گے؟ تم کب
تک حسیں بعثوں ، دلکش مناظروں کے سوداگر بنے رہو گے؟ تم کب تک افراد ملت
میں بغض، کینہ، نفرت و عدوات کا بیج بوتے رہو گے؟ تم کب تک ایک دوسرے کے
خلاف گونج دار تقریریں کرتے رہو گے؟ تم کب تک تعصب و عصبیت کو ہوا دیتے رہو
گے؟تم ملت کو اتحاد و اتفاق کا درس کیوں نہیں دیتے؟ تم افرادِ ملت میں ایک
دوسرے کی الفت ، محبت، ہمدردی، مساوات، رواداری اور برداشت کے جذبات کیوں
نہیں اجاگر کرتے؟ اپنے علم کو زحمت آفرین مت بناءو، رحمت پرور بناؤ ۔ لفظ
بازی کے میدان سے نکل کر قوموں کی امامت کرو، دیکھو ساری ملت تمہاری دہلیز
پہ کھڑی ہے اگر تم نے سہارا نہ دیا تو کون بنے گا سہارا امت کا؟؟؟۔۔۔۔
کبھی جگنو کو دیکھا ہے کتنی سی اس کی جسامت ہے اور اس کے پاس کتنی سی روشنی
ہوتی ہے مگر رات کی تاریکی میں گلشن میں بھاگتا پھرتا ہے اور اس کا کونہ
کونہ منور کرنے کی اپنے تیں پوری سعی کرتا ہے کہ اس کے دم سے گلشن سے رات
کی تاریکی چھٹ جائے، مگر تمہارے پاس تو دین کا نور، قرآن کے اجالے ہیں
،مصطفی کریم ﷺ اور اصحاب و اسلاف کی سیرت و کردار کے روشن آفتاب ہیں ۔ تم
یہ اتنے نور اجالے اپنے من میں سمےٹ کر کس غفلت کی بھٹی میں منہ پچھائے
ہوئے سرد ہو کے بےٹھے ہو؟ دنیا تمہارے دم سے منور کیوں نہیں ہو رہی؟
خلو ت و گوشہ نشینی، جنگلوں اور غاروں میں چھپ کر ، ہجروں اور خانقاہوں میں
مقید ہو کر ورد و ظاءف، اذکار و ریاضیت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے اور اسے کسی
وقت ترک بھی کرنا پڑتا ہے ۔ جب ذمہ داریاں سر پر منڈلا رہی ہوں ، امت زبوں
حالی کا شکار ہو اور تباہی و زوال کے دہانے پہنچ چکی ہو اور تم ذمہ دار لوگ
خلوت و گوشہ نشینی میں غرق ہو تو امت کے حالات کیسے سنواریں گے؟ امت کی
تقدیر کیسے بدلے گی؟ امت کیسے بہتری و فلاح کی راہ پر گامزن ہو گی؟کاش تم
نے رسول اللہ ﷺ کی عملی زندگی سے بھی کچھ سبق سیکھا ہوتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ
کا غاروں میں چھپ کرخلوت میں عبادت وریاضت کرنے کا ذکر آپ ﷺ کے اعلان نبوت
سے پہلے ملتا ہے ۔ اعلان نبوت کے بعد جب آپ ﷺ کی حیات طیبہ میں وہ وقت
آیا کہ ذمہ داریاں آپ ﷺ کے سر پر آئیں تو آپ ﷺ نے خلوت و گوشہ نشینی
ترک کر کے عمل کی دنیا میں قدم رکھا اور ہمہ وقت میدان عمل میں رہے اور
حالاتِ امت سے ایک لمحہ بھی غفلت نہیں برتی ۔ امت کی ذمہ داریاں سر پر آنے
کے بعد کی کوئی ایک روایت ہو تو سامنے لائیں کہ آپ ﷺ نے خلوت و گوشہ نشینی
اختیار کی ہو اور امت کی فکر سے بے نیاز ہو کر ذکر و اذکار میں ہی مشغول
رہے ہوں ؟
یَاَیُّھَا الْمُدَّثِّرُo قُمْ فَاَنْذِرْo وَرَبَّکَ فَکَبِّرْo
’’ اے ( محمد ﷺ) جو کمبل اوڑھے سو رہے ہو، اٹھ جائیے اور خبر دار کیجیے،
لوگوں کو اپنے رب کا ڈر سنائیے اور اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے ۔ ‘‘ (
سورۃ المدثر : 1 ط 3 )
یہ آیت مبارکہ بھی خلوت و گوشہ نشینوں کے لئے ہزاروں نصیحتیں سمیٹے ہے کہ
ذمہ داریاں سر پر ہونے کے بعد سونے کا وقت بھی نہیں دیکھنا چاہیے ۔ اسلام
فضول وقت کے ضائع اور غیر ضروری عوامل جس سے مجموعی طور پر امت کو کوئی نفع
نہ ملتا ہو ، میں فضول وقت صرف کرنے کے لئے نہیں آیا، یہ میدان میں آکر
اپنی حقانیت کا اعلان کرنے اور اس کو تمام ادیان پر عملی طور پر غالب و
نافذ کر نے کا لاءحہ عمل لے کر آیا ہے ۔ یہ ہجروں ، خانقاہوں ، درگاہوں ،
گوشوں اور کونوں کھدروں میں بیٹھ کر ، دنیا و ما فیہا سے کنارا کشی اختیار
کر کے اپنی ہی ذات کا طواف کرتے اور کرواتے رہنے کے لیے نہیں آیا اور نہ
اسلام نے صرف ثواب اور برکات سمیٹنے کی عرض سے عبادات کا درس دیا ہے ۔
حضرت سیدنا داتا علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ نے کشف المحجوب میں لکھا کہ
حضرت ابو اسحاق اصفرائنی رحمتہ اللہ علیہ ایک جنگل میں گئے اور کچھ صوفیوں
کو دیکھا کہ وہ جنگل میں رہتے ہیں ،گھاس کھا کر گذر بسر کرتے ہیں اور صرف
اللہ اللہ کرتے ہیں اور کوئی کام نہیں دنیا کا ۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ ان کو
دیکھ کر آگ بگولہ ہو گئے اور سخت ڈانٹ پلاتے ہوئے فرمایا
اَکِلَاۃُ الْحَشِیْشِ ہٰؤُنَا اَنْتُمْ وَ اُمْتَ مُحْمَّدٌ فِیْ
اْلفِتْنِ
’’ تم یہاں گھاس کھاتے پھرتے ہواور محمد ﷺ کی امت فتنہ میں ہے ۔ اٹھو ،
نکلو یہاں سے تمہاری ضرورت ہے زمانے کو آؤ اور ان کی راہنمائی کرو ، دین
کو تمہاری کاوش و جہد کی ضرورت ہے اور تم یہاں منہ چھپائے بیٹھے ہو ۔
آج بالکل یہی حال ہمارے علماء پیر و مشائخ کا ہے کہ اپنے اپنے ٹھکانوں میں
سرد ہو کر بےٹھے صرف اللہ اللہ کر رہے، نذرانے مل رہے، نیازمندیاں اکٹھی کر
رہے،خانقاہوں کے چڑھاوئے سمیٹ رہے ۔ بس ان کا گذر بسراچھا ہو رہا انہیں اور
کوئی غرض نہیں رہی ملت سے کہ وہ ڈوبے یا مرے ۔ علماء ہیں تو ان پر صرف
مدرسے بنانے کا بھوت سوار ہے ۔ اور یہ مدرسے پروڈکشن کیا کر رہے ملت
کےلئے،قوت کیا دے رہے ملت کو؟ قرآن کے کھوکھلے حافظ؟جنہیں نہ معانی کا
پتہ، نہ اس کے پیغام کا ادارک، نہ اس کے مفہوم کی سمجھ، نہ اس کے خلق کی
فہم،نہ اس کی منشوعات و مقاصد کا شعور ۔ بس خالی حفظ اور وہ بھی اس نیت سے
کہ کوئی مسجد مل جائے گی، دم درود اور فاتحے آئیں گے، مسجد بیٹھے اللہ
اللہ کرتے گذر ہو گا، کوئی مشکل کام نہیں کرنا پڑے گا، ٹوکری نہیں اٹھانی
پڑے گی ، دھوپ میں نہیں جلنا پڑے گا ۔ یہ سکول ، یہ مدرسے ، یہ درس گاہیں
شاہین بچوں کوخاکبازی کا سبق دے رہی ہیں ۔ اےسے حافظوں سے کچھ نہیں بنے گا
امت کا، اےسے بے حس، بے ضمیر اور جھگڑالو علماء سے امت کا بیڑا کنارے نہیں
لگے گا ۔ قرآن کے عمل پیرا پیدا کرو، قرآن کو عملی زندگی میں اپنانے والے
مہیا کرو ملت کو، امت کوتمہارے ان حافظوں اور عالموں کی اتنی ضرورت نہیں
جتنی عمل پیرا ہونے والوں کی ہے ۔ قرآن کے پیغام کو سمجھنے اوراپنے اوپر
نافذ کرنے اور کروانے والے بازو دو امت کو ۔ قرآن کے احکامات کو سمجھ اور
پرکھ کر عام کرنے والے مجاہد کو امت کو ۔ حق وباطل میں تفریق کرنے والے
ضمیر دو ملت کو، معاشرہ میں کوئی شر ، فسق اور برائی دیکھ کر اسے اپنے زور
بازو سے بدل دینے والے ہاتھ دو امت کو ۔ مظلوموں کی پکار سن کر لبیک کہنے
والے جنون، جذبے اور ولولے دو امت کو، امت کو وقت کی ضرورت کے مطابق کردار،
جوش، جذبہ اور ولولہ دو ۔ اگر تم یہ نہیں دے سکتے ، اگر تم یہ سب پیدا اور
مہیا نہیں کر سکتے تو امت کو کوئی فائدہ نہیں تمہارے ان مدرسوں کا، امت کو
کوئی ضرورت نہیں تمہاری ان خانقاہوں کی، امت کو ضرورت نہیں تمہاری ان مکتب
گاہوں کی ۔ گرا دو یہ اپنے سرد خانے، مٹا دو یہ اپنے بت کدے، آگ لگا دو
اپنی ان مکتب گاہوں کوجنہیں وقت کی شدت کا احساس اور ملت کی ضرورت کے مطابق
کردار اور رخ کے تعین کا پتہ ہی نہیں ۔
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
علماء پیر و مشائخ! خدا کےلئے اٹھو! خدا کےلئے ہوش کے ناخن لو ۔ یہ جو
حالات بنے ہیں یہ اہل حق کی ذمہ داری ہے کہ وہ پوری قوت کے ساتھ میدان عمل
میں نکلیں ۔ تنگ نظری، تعصب، کینہ ترک کر دو،ایک دوسرے کا بغض، عداوت اور
نفرتیں خاک میں دفن کر دو ۔ امت کو اتحاد و اتفاق کا درس دو اور ایک مرکز
پر یکجا کرو، امت میں یگانگت و ہم آہنگی پیدا کرو ۔ امت کو اس کی ضرورت کے
مطابق کردار فلسفے اور جنون دو،سوئی اور خوابیدہ امت کو بیدار کرو، امت کو
شعور اور احساس دلاؤ ۔ امت کو سربلندی اور وقار دو،امت کو عزت، عافیت اور
راحت دو، امت کو امن، سکون اور چین دو ۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تارےخ
تمہیں کبھی معاف نہیں کرے گی ۔
اٹھو کہ پھر حشر نہیں ہو گا دوبارہ
دوڑو کہ زمانہ چال قیامت کی چل گیا
اٹھو ! مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امراء کے در و دیوار ہلا دو
گرماوَ غلاموں کا لہو سوز یقیں سے
سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
جو نقش کہن تم کو نظر آئے ، مٹا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
حق را بسجودے ، صنماں را بطوافے
پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو
بہتر ہے چراغ حرم و دیر بجھا دو
اٹھو ! مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امراء کے در و دیوار ہلا دو
امت محمدیہ ﷺ فتنہ اور جہالت و گمراہی کی تارکیوں میں ہے اور تم عشق و مستی
کے دعوےلیے اپنے اپنے ٹھیوں اور ہجروں میں مقید ہو، تمہیں ملت اسلامیہ پر
چھائی تاریکی اور خوفناک کالی گھٹا دیکھائی نہیں دیتی کیا؟ آنکھیں اندھی
ہوں دیکھائی نہ دیتا ہو تو اور بات ہے، کان بہرے ہوں سنائی نہ دیتا ہو تو
معاملہ الگ ہے ۔ مگر تم تو صحیح و سالم، سنتے ، دیکھتے بھاتے ہو ۔ ملت پر
جو بیت رہی اس سے مکمل علم و آگاہی اور شعورو ادارک رکھنے کے باوجود
تمہارے خون کیوں نہیں کھول رہے؟ تمہارے سرد خانے گرم کیوں نہیں ہو رہے؟
تمہارے جذبوں کی آگ کیوں نہیں بھڑک رہی؟ تمہارے ولولوں میں جوش، تمہارے
جذبوں میں تڑپ کیوں نہیں پیدا ہو رہی؟ رسول اللہ ﷺ کی نظریں تم پر ہیں ۔ تم
نبی کریم ﷺ کے دین کے وارث ہو، تم خلفائے راشدہ کی خلافت کے امین ہو، تم
فریضہ نبوت وخلافت کی ادائیگی کے ذمہ دارہو ۔ تمہیں اپنی ذمہ داری کا احساس
کیوں نہیں ہو رہا؟ یہ جو حالات بنے ہیں ، ملت پر جو قیامت ٹوٹی ہے ، ملت
روز بروز جو ناکامی و نامرادی، ذلت و رسوائی کی پستیوں میں گر رہی ہے تم اس
کے ذمہ دار ہو،صرف تم، تم علماء اور پیرو مشائخ ۔
تمہارے ٹھنڈے اور سرد وجود نے کچھ نہیں دیا ملت کو ۔ تمہارے سست اور کاہل
مجسموں نے کوئی کردار ادا نہیں کیا ملت کےلئے ۔ تمہارے پاس دین کی آبیاری
کےلئے وقت نہیں ، تمہارے پاس ملت کی بیداری و اصلاح کےلئے کردار، فلسفے
اورکوئی جامع حکمت عملی نہیں ۔ تم امت کی بیداری ، امت میں شعور، جذبے اور
ولولے پیدا کرنے ان کے پاس جانے کو تیار نہیں بن بلائے، کرایہ ، خرچ،
نذرانہ اور گاڑی مہیا کیے بغیر، شاندار استقبال، اشتہار ، فلیکس اور بینرز
چھپوائے بغیر ۔ ملت کے پیشوا، ملت کے رہبر، ملت کے پےام بر، ملت کے نبی و
مرسل لا اسئلکم اجری کہتے کہتے اور تبلیغ کرتے نہیں تھکے مگر ان کی زبانیں
کرایے ، نذرانے اور ہدیے لے کر بھی ایک گھنٹہ سے پہلے تھک جاتی ہیں ، اور
باتیں بھی ایسی بے اثر، قلب و روح میں نہ اترنے والی، جس سے نہ ملت کی
اصلاح ہو، نہ اخلاقیات کا درس، نہ خرافات سے بچنے کی ہدایت، نہ ان کے جذبے
بیدار ہوں ، نہ ان میں شعور، جوش و ولولہ آئے، نہ ان کے روح کو تازگی اور
تڑپ ملے اور نہ ان کے ضمیر جاگیں ۔ بس سٹیج پہ آئے، مائیک پکڑا، کسی کی
شان بڑھائی، مقام و مرتبت سنایا اور چلے گئے ۔ یہ امت کی شان کیوں نہیں
بڑھاتے حضور ﷺ کے نقشے قدم پہ ڈال کے؟ ملت سے حضور ﷺ کی سیرت و کردار کے
طواف کروا کے؟
میلاد النبی ﷺ کی محافل میں صرف شانیں ہی بلند کی جاتی ہیں ، صرف معجزے،
کرامتیں ، قصے اور حکایات ہی بیان کی جاتی ہیں ، صرف میلاد ہی سنایا جاتاہے
آپ ﷺ کا کردار اور میدان عمل نہیں بتلایا جاتاہے ۔ پھر یہ تاثر دیا جاتا
ہے قوم کو کہ میلاد النبی ﷺ کروانے والو تم بخشی ہوئی روحیں ہو، چپہ چپہ
قریہ قریہ میلاد النبی ﷺ کی محفلیں منعقد کرو تمہیں جنت کا ٹکٹ مل جائے گا
اور جو میلاد النبی ﷺ کی محفل میں آ جائے وہ بھی بخشا جائے گا ۔ صرف اس
پرہی زور کیوں دیا جاتا ہے کیونکہ اس سے ان کا روزگار جو وابستہ ہے اور درس
دے رہے بد عملی کا، اعمال کی طرف بلانے سے انہیں کچھ ہاتھ نہیں آئے ۔
میں نے میلاد النبی ﷺ سٹیج پر ایک معروف عالم کومیلاد کے لنگر کی فضیلت میں
یہ کہتے سنا کہ جس کے پیٹ میں میلاد کے لنگر کا ایک لقمہ بھی گیا اسے کبھی
دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی ۔ جنت اتنی آسان ہو گئی ہے کہ ایک لقمہ لنگر
کھانے سے مل جائے؟ کیا ایسی باتیں سن کے تمہاری قوم عمل پہ زور دے گی؟ کیا
وہ بد عملی میں نہیں پڑے گی؟ ہمارے بزرگوں نے رب کی رضا و خوشنودی کےلئے
کیا کیا جتھن کیے اور یہ ایک لنگر دے کر جنتیں بانٹ رہے ہیں ، یہ ایک محفل
اور لنگر سے راضی کر رہے رب کو ۔ اب لوگوں کے یہ ذہن بن چکے ہیں کہ کیا
ضرورت عمل کی، نمازیں اور روزے رکھنے کی بس سال بعد میلاد کی محفل میں جاؤ
، میلاد سن لو، لنگر کھا لو تمہاری شفاعت اور جنت پکی اور محفل کروانے والے
بھی اس فخراور غرور میں مبتلا ہوتے ہیں جےسے ہم تو ٹکٹیں بانٹتے ہیں جنت کی
اب کوئی بدنصیب ہی نہیں آئے گا لینے ۔ آج کل لوگوں نے میلاد کو ہی دین
سمجھ لیا ہے نہ نماز کی فکر، نہ روزہ کی پرواہ، نہ حقوق العباد کا لحاظ، نہ
حسن خلق، نہ معاملات کی درستگی ۔ بس سال بعد محفل کروا لو ، تمہاری اللہ و
رسول ﷺ سے محبت و وابستگی کا حق ادا ہو گیا اور تمہاری جنت بھی پکی ۔
|
|