روشنی کے سفر میں اندھیروں کے مُسافر !!

#العلمAlilmعلمُ الکتاب سُورٙةُالحدید ، اٰیت 12 تا 16 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اِفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یوم تری
الموؑمنین والموؑمنٰت
یسعٰی نورھم بین ایدیھم و
بایمانہم بشرٰی لکم الیوم جنٰت تجری
من تحتہا الانھٰر خٰلدین فیھا ذٰلک ھو الفوز
العظیم 12 یوم یقول المنٰفقون والمنٰفقٰت للذین
اٰمنواانظرونا نقتبس من نورکم قیل ارجعوا وراءکم فا
لتمسوا نورا فضرب بینھم بسورلہ باب باطنہ فیہ الرحمة و
ظاھرہ من قبلہ العذاب 13 ینادونھم الم نکن معکم قالوا بلٰی و
لٰکنکم فتنتم انفسکم وتربصتم وارتبتم وغرتکم الامانی حتٰی جاء
امراللہ وغرکم باللہ الغرور 14 فالیوم لایوؑخذ منکم فدیة ولامن الذین
کفروا ماوٰکم النار ھی مولٰکم و بئس المصیر 15
اے ہمارے رسول ! آنے والے دنوں میں ایک دن آپ دیکھیں گے کہ جن ایمان دار مردوں اور عورتوں کے ایمان کا نُور اُن کی حیثیت و اہمیت اور شخصیت کو منافقین سے مُمتاز کر دے گا تو اُن کو آب و انہار والی اُس دائمی جنت کی بشارت مل جائے گی اور اُس وقت اُن اہلِ ایمان کو اُن کے منافق اہلِ معاشرہ کہیں گے کہ تُم جانتے ہو کہ ہم ایک ساتھ مل کر رہنے سہنے اور ایک ساتھ مل کر کھانے پینے والے ایک ہی معاشرے کے لوگ ہیں اِس لئے رنگ و نُور کے جس آراستہ راستے پر تُم رواں دواں ہو اُس آراستہ راستے کی کُچھ روشنی ہم پر بھی ڈال دو تاکہ ہم بھی اُس روشنی میں تُمہارے ساتھ چلتے ہوئے اُسی منزل پر پُہنچ جائیں جس منزل پر تُم پُہنچنا چاہتے ہو لیکن اُس وقت وہ اہلِ ایمان اُن منافقین سے کہیں گے کہ قُرآن کی جو روشنی ہماری رہنمائی کے لئے ہمارے ساتھ ہے وہ روشنی قُرآن کی صورت میں تُمہارے سامنے بھی موجُود ہے لہٰذا تُم بھی قُرآن کے اُسی مرکزِ ہدایت کی طرف جاوؑ اور وہیں سے ہدایت کی یہ روشنی لے کر آوؑ مگر اُس وقت اللہ اہلِ ایمان کو اپنے اُس قلعے میں داخل کر دے گا جس قلعے کے اندر جانے والوں کے سامنے اُن کے ایمان کا راحت بھرا جہان ہوگا اور باہر رہ جانے والوں کے سامنے اُن کے کفر کا وہ رٙنج بھرا جہان ہوگا جس کو دیکھ کر وہ اہلِ نفاق اُن اہل ایمان سے شکوہ کریں گے کہ آخر تُم اِس بات سے کس طرح انکار کرسکتے ہو کہ ہم ایک ہی معاشرے کے ایک ساتھ رہنے والے لوگ ہیں اور تُم ہمیں تنہائی کے اِس عذاب میں کس طرح تنہا چھوڑ کر جاسکتے ہو جس کا اہلِ ایمان یہ جواب دیں گے کہ اِس اٙمر میں کوئی کلام نہیں ہے کہ ہم ایک ہی معاشرے کے اٙفراد ہیں لیکن ہم میں اور تُم میں یہ فرق قائم ہو چکا ہے کہ ہم نے قُرآنی اٰیات کا روشن راستہ اختیار کیا ہے جو جنت کا راستہ ہے اور تُم نے انسانی روایات کا وہ راستہ اختیار کر لیا ہے جو اُس جہنم کا راستہ ہے جس پر چل کر جہنم میں پُہنچنے والوں سے اُن کے اِس کفر کے بدلے میں کوئی فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ اِس کفر کے باعث سیدھا جہنم رسید کر دیا جائے گا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا میں سے پہلی اٰیت کا پہلا لفظ { یوم } اسمِ نکرہ ہے اور دُوسری اٰیت کا پہلا لفظ { یوم } بھی اسمِ نکرہ ہے جو کہ ایک عام وقت کے عام ماہ و سال کے دو عام دنوں کا قرینہ ہے لیکن پہلی اٰیت میں آنے والا تیرھواں لفظ { الیوم } اسمِ معرفہ ہے اور آخری اٰیت میں آنے والا پہلا لفظ { الیوم } بھی اسمِ معرفہ ہے جو ایک خاص وقت کے خاص ماہ و سال کے دو خاص دنوں کا ایک قرینہ ہے اور اِن اٰیات کے یہ دونوں اندرونی قرینے دو الگ الگ زمان و مکان کے نمائندگی کرنے والے دو قُرآنی قرینے ہیں جو اِس بات کی دلیل ہیں کہ اِن اٰیات میں جہاں پر لفظِ { یوم } کے قرینے کے ساتھ زمانے کے جن عام دنوں کا ذکر کیا گیا ہے اُن عام دنوں سے مُراد زمانے کے وہ عام دن ہیں جن عام دنوں کو ہر انسان اپنے تجربے اور مُشاہدے سے جانتا ہے اور جہاں پر لفظِ { الیوم } کے ساتھ جس خاص زمانے کے جن خاص دنوں کا ذکر کیا گیا ہے اُن خاص دنوں سے مُراد اُس خاص زمانے کے وہ خاص دن ہیں جس خاص زمانے کے خاص دنوں کو انسان اپنے کسی تجربے اور مُشاہدے کی بنا پر ہر گز نہیں جانتا اور یہ بات تو ظاہر ہی ہے کہ جس خاص زمانے کے جن خاص دنوں کو انسان نہیں جانتا ہے وہ قیامت کے خاص زمانے کے وہ خاص دن ہیں جن میں انسان نے داخل ہوکر اپنے اعمالِ رٙفتہ کا حساب دینا ہے لیکن اہلِ روایت نے اِن دونوں عام و خاص زمانوں کو پہلے تو اِن اٰیات میں موجُود کسی قرینے کے بغیر قیامت کے ساتھ جوڑنے کی جسارت کی ہے اور بعد ازاں فارسی کے ایک لفظِ { پُل } اور عربی کے ایک لفظِ { صراط } کو باہم جوڑ کر وہ { پُل صراط } بھی قائم کر لی ہے جو پُل صراط تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہے اور اُس پُل کے نیچے دہکتی ہوئی وہ آتشِ جہنم ہے جس کے اوپر سے گزر کر اہلِ ایمان نے جنت میں جانا ہے اور اہلِ کفر نے اُس جہنم میں گرکر غرقِ جہنم ہو جانا ہے لیکن اہلِ روایت کی یہ وہ پُلصراط ہے جس کا قُرآن کی اِن اٰیات سے دُور پار کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے اور اہلِ روایت نے مزید ستم یہ کیا ہے کہ اِن اٰیات کی تفسیر کرتے ہوئے اُس پُل صراط پر وہ تاریکی بھی ڈال دی ہے جس تاریکی کے موجُود ہونے کی صورت میں کسی کا اُس جنت میں جانا مُمکن ہی نہیں ہے ، اہلِ روایت نے اُس پُل سے گزرنے والے اہلِ ایمان کے لئے اُس روشنی کا ذکر تو کیا ہے جو اہلِ ایمان کے لئے اُس تلوار سے زیادہ تیز دھار پُل اور اُس بال سے زیادہ باریک پُل سے گزرنے کا ذریعہ بنے گی لیکن اہلِ روایت نے یہ نہیں بتایا ہے کہ اُن اہلِ ایمان کے پیروں پر اُس وقت وہ کون سی دھات چڑھائی جائے گی جو دھات اُن اہلِ جنت کے پیروں کو اُس تلوار سے زیادہ تیز دھار والے پُل کی کاٹ سے کٹنے بھی نہیں دے گی اور اُس بال سے زیادہ باریک پُل سے پھسلنے بھی نہیں دے گی ، اِس سوال کا عام طور پر اہلِ روایت کی طرف سے یہ جواب دیا جاتا ہے کہ ایسا ہونا اللہ تعالٰی کی قُدرت سے کُچھ بھی بعید اٙمر نہیں ہے مگر سوال یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کو اِس تکلف و تردد کی ضرورت ہی کیا ہے جس تکلف و تردد کا اہلِ روایت نے اپنی روایات میں ذکر کیا ہے سوائے اِس کے کہ اہلِ ایمان کے لئے اُس جنت و جہنم کو ایک افسانہ بنادیا جائے جس کے یقینی ہونے کا کبھی بھی کسی کو یقین نہ آئے اور اِس معاملے کا دل چسپ پہلو یہ ہے کہ اہلِ روایت نے جب اِن اٰیات کے ساتھ جوڑ دیا تو سلسلہِ کلام کی دُوسری اٰیت میں آنے والے تیرھویں لفظ { وراء کم } کا معنٰی بھی بلا تکلف پیچھے جاوؑ کر دیا حالانکہ { وراء } نظر کے سامنے کی اور { ماوراء } نظر سے اوجھل چیز کو کہا جاتا ہے اور نزولِ قُرآن کے زمانے میں قُرآن ہی نظر کے سامنے کی وہ چیز تھی جس کی اہلِ ایمان نے اُن منافقین کو متوجہ کیا تھا جو قُرآنی اٰیات کو چھوڑ کر انسانی روایات کے لئے مرے جا رہے تھے اِس لئے اٙمرِ واقعہ یہ ہے کہ اِس سُورت کی اِن اٰیات میں مُسلم معاشرے میں پیدا ہونے والے قُرآنی اٰیات کے ترک اور انسانی روایات کے اختیار کرنے کے اُسی ابتدائی بگاڑ کا ذکر کیا گیا ہے جس بگاڑ سے اِس سُورت کی اٰیت 27 کے مطابق پہلے مُوسٰی و مسیح علیہ السلام کی اُمتیں برباد ہوئی تھیں اور اٙب ایک پرانی روایت کے طور پر وہی بگاڑ اِس اُمت میں بھی پیدا ہونے والا تھا اور جن لوگوں میں یہ بگاڑ پیدا ہو رہا تھا وہ اُس وقت ایک بہت ہی مُختصر سی اقلیت تھے اور اِس وجہ سے وہ چاہتے تھے کہ قُرآنی اٰیات کے پیروکار انسانی روایات کے اِن پیروکاروں کو بھی اپنے ساتھ چلائیں تاکہ وہ مسلم معاشرے کے ملّی مفاد سے مُستفید بھی ہوتے رہیں اور قُرآنی دین کی جڑھیں بھی کاٹتے رہیں اِس لئے اہلِ ایمان نے اُن کو سادہ و صاف لفظوں میں کہدیا تھا کہ وہ اللہ تعالٰی کے اُس دین پر ایمان و یقین رکھتے ہیں جس دین میں قُرآن کا حُکم ہی حرفِ اٙوّل و حرفِ آخر ہے لیکن اہلِ روایت کا روایتی دین یہ ہے کہ میں نے یہ بات فلاں سے سنی ہے اور اُس نے یہ بات فلاں فلاں سے سنی ہے اور یہی سنی سنائی بات اُن کا دین ہے اِس لئے ہم روشنی کے اِس سفر میں اندھیرے کے اِن مسافروں کے ساتھ نہیں چل سکتے اور یہ کور چشم بھی ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے ، قُرآن کی اِن ہی اٰیات میں اللہ تعالٰی نے اپنی اٰیات کے مطابق چلنے والوں کو اپنی جنت کی نوید اور انسانی روایات پر چلنے والوں کو اپنی جہنم کی وعید سنائی ہے تاکہ جس بگڑے ہوئے انسان کو جس وقت بھی اپنے اِس فکری و نظری بگاڑ کا اندازہ ہو جائے تو وہ گُم راہی کو چھوڑ کر رجوعِ حق کر سکے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 462984 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More