یہ دعویٰ اپنی موجودہ شکل میں غلط نہیں قرار دیا جاسکتا
یا اسے مکمل طور پر مسترد نہیں کیا جا سکتا ۔کیوں کہ ریاست میں واقع ہی
ایسے بہت سے افراد ہے جو چاہتے ہیں کے کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہو جائے ۔لیکن
اس دعوے کے جواب میں کچھ سوال ضرور ذہن میں ابھرتے ہیں جن میں سے سب سے
پہلا سوال یہ کہ جو عوام پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں ان کا تناسب کیا ہے
؟؟؟یعنی کتنے فیصد عوام ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں
؟؟؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر ریاست کے عوام کے سامنے آزادی کا راستہ بھی ہو تو
اکثریت کس طرف جائے گی ؟؟؟
دراصل جب تک ریاست کے باشندوں کے سامنے صرف دو ہی راستے موجود تھے ایک
ہندوستان سے الحاق اور دوسرا پاکستان سے تو ایسے افراد کی کمی نہیں تھی جو
ہندوستان کی نسبت پاکستان سے الحاق چاہتے تھے لیکن یہ وہ عہد تھا جب ریاست
میں "قومی آزادی " کی جدوجہد موجود نہیں تھی بلکہ ریاست کے عوام کے حقوق کے
لیے برسر پیکار لیڈر اور جماعتیں ایک طرف ہندوستان اور دوسری طرف پاکستان
کے حکمرانوں سے بہتری کی امید لگائے بیٹھی تھیں مگر آج ریاست کے اندر
بنیادی حقیقت بدل چکی ہے اور یہ حقیقت الحاق کی قوتوں کی جدوجہد سے نہیں
بلکہ کشمیر کی مکمل آزادی کے علمبردار قوتوں کی جدوجہد سے بدلی ہے جس کا
آغاز ساٹھ کے عشرے میں ایک طرف جموں کشمیر نیشنل لبریشن فرنٹ اور دوسری طرف
قومی محاذ آزادی کے قیام سے ہوا تھا اور باد ازاں اس حقیقت کو نوشتہء دیوار
بنانے میں مقبول بٹ شہید سے لے کر آج کے کشمیر کے لاکھوں افراد کی بے پناہ
قربانیوں نے مرکزی کردار ادا کیا ہے لہذا مذکورہ بالا دعوے کے جواب میں اب
یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب چونکہ اصل مقابلہ الحاق کے ہندوستان اور الحاق
پاکستان میں نہیں اس لئے آج کی حقیقت کی روشنی میں جوابی دعوی یہ ہیں "ریاست
کے عوام کے اکثریت الحاق کے مقابلے میں آزادی کو ترجحیی دیتی ہے "۔
لیکن ان دونوں دعووں کی اس وقت تک کوئی حثیت نہیں جب تک کہ کشمیر کے عوام
سے براہ راست یہ پوچھ نہ لیا جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں یہ ہیں یعنی جب تک
عوام کو غیر مشروط حق خود احتیاری نہ دیا جائے یہ دعوے بے معنی ہے ۔
فی الحال اپنے اس دعوے کے حق میں الحاق والوں کے پاس یہ دلیل ہے کہ جی اگر
کشمیر پاکستان سے الحاق کے حق میں نہیں ہیں تو آزاد کشمیر میں مسلم کانفرنس
یا الحاق کی حامی دیگر جماعتوں کی حکومت کیوں بنتی ہے ؟اس کے جواب میں ایک
تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر یہ کسوٹی ہے تو پھر کشمیری بھارت کے حق میں
ہیں کیونکہ 1987 تک کشمیر کی اکثریتی آبادی والے حصہ میں بھارت نواز سیاسی
جماعت نیشنل کانفرنس کی حکومت چلی آ رہی ہے ۔
دوسری بات یہ کہ آزاد کشمیر میں انتخابات میں حصہ لینے کے لیے لازمی ہے کہ
آپ "الحاق پاکستان" کے حلف نامے پر دستخط کریں لہذا خودمختار کشمیر والے اس
کو مسترد کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیتے یوں وہ یہاں کے انتخابی
دھارے سے ہیں ہی باہر۔
موجودہ تحریک حوالے سے کہا جاتا ہے کہ کشمیری بھارت مقبوضہ علاقے میں
پاکستان کے جھنڈے لہراتے ہیں اور گاڑیوں میں پاکستانی وقت ملا رکھا ہے اس
کے علاوہ پاکستان کا دن مناتے ہیں ۔عمران خان کے پرستار ہیں ۔اور پاکستان
کے حکمرانوں پر بن آئے جیسے بھٹو کی پھانسی اور ضیاء کی ہلاکت تو کشمیری
سوگ مناتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔
اس سلسلہ میں کہا جاسکتا ہے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں عوام کا مقصد بھارت
کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کرنا ہوتا ہے اس کے لئے وہ سینکڑوں طریقے
اختیار کرتے ہیں اپنی پہاڑیاں یا پوٹھوہاڑی میں اسے یوں بیان کیا جاسکتا ہے
کہ غاصب کے خلاف اظہار نفرت کے لئے "جیڑیاں تواڑیاں چیڑاں او ماڑیاں کھیڑاں
"والا رویہ اپنایا جاتا ہے ۔اگر کشمیری وہاں پاکستان کے جھنڈے لہراتے ہیں
تو وہ آزاد کشمیر اور جے کے ایف کے علم بھی بلند کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ اگر اس دلیل کو آزاد کشمیر کے حوالے سے دیکھا جائے تو بارہا
یہاں پاکستانی حکمرانوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بھارت کے حق میں نعرے
لگائے اور ڈڈیال میں جب بارات ڈوبنے کا واقعہ ہوا تھا تو باز شہادتوں کے
مطابق لوگوں نے تھانے پر قبضہ کر کہ بھارت کے جھنڈے لہرا دیے تھے اور پھر
جب 1953 میں پونچھ کے عوام پر پاکستان کے حکمرانوں نے ستم ڈھائے تھے تو
وہاں بھی لوگوں نے اس ہی طرح کے ردعمل کا اظہار کیا تھا جب کے آپ نے آزاد
کشمیر کے گمشاتہ حکمران بھی کئی بار جب اپنے بے اختیار و اقتدار کو جاتا
ہوا دیتے ہیں تو بھارت کے ساتھ مل جانے کی دھمکیاں دینے لگتے ہیں تو کیا وہ
بھارت سے الحاق کرنا چاہتے ہوتے ہیں ؟؟؟
اور پھر اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ پورے کشمیر میں اکثریت الحاق پاکستان
کے حق میں ہے تو پھر پاکستانی حکمران طبقے اور ان کے ماتحت کشمیری حکمران
خودمختاری کے آپشن سے بدکتے کیوں ہے ؟؟؟ وہ یہ تسلیم کیوں نہیں کرتے کہ
کشمیری قوم کے سامنے تینوں راستے رکھے جائیں اور جس طرف اکثریت رائے دے اس
کے مطابق کشمیر کے مسئلے کو حل کر لیا جائے ؟؟؟
یہ طبقے غیر مشروط حق خوداختیاری کی بجائے صرف دو راستوں پر ہی کیوں بضد
ہیں ؟؟؟
کہا جاتا ہے کہ چونکہ اقوام متحدہ میں صرف دو ہی متبادل ہیں "الحاق پاکستان
" اور "الحاق ہندوستان " لہذا تیسرے آپشن یعنی خودمختاری کی بات کرنے کا
مطلب یہ ہوا کہ ہم اس مسئلہ کو اقوام متحدہ سے باہر نکال رہے ہیں اور اگر
ایسا ہوا تو بھارت اقوام متحدہ کی جھکڑ سے نکل جائے گا (زیڈ اے سلہری " ایک
خطرناک چال" اور کشمیر کو آزاد نہیں چھوڑا جاسکتا " روزنامہ جنگ لنڈن)
اس دلیل کی بنیاد کشمیریوں کو جاہل اور اپنا ابدی غلام سمجھنے کی بنیاد پر
ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس سے قبل بھی اقوام متحدہ میں اس حوالے سے کم از
کم دو بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کرائی جا چکی ہے ۔پہلی تبدیلی کا تعلق
اقوام متحدہ کے اس کمیشن کے نام کے بارے میں ہے جو 1948 میں ریاست جموں و
کشمیر کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے مقرر کیا گیا تھا اس کا ابتدائی یا
اصلی نام "کمیشن برائے جموں و کشمیر" رکھا گیا تھا لیکن پاکستانی حکام کی
سفارش پر (باحوالہ امان اللہ خان جنگ انٹرویو ) اس کا نام تبدیل کر کے
کمیشن برائے انڈیا اور پاکستان رکھ دیا گیا تھا ۔اس کے بعد جب اس کمیشن نے
جب اپنی پہلی قرارداد آگست 1948 میں پیش کی تو اس میں کشمیر کے مستقبل کے
حوالے سے یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے
کشمیر کے لوگوں کو یہ حق دیا جائے کہ وہ رائے شماری کے ذریعے مستقبل کا
فیصلہ کرے یہ قرارداد قوموں کی حقیقی حق خود ارادیت کے ہم معنی تھی اور اس
میں کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے سلسلہ میں کشمیریوں کو تینوں راستوں
کی ضمانت دی گئی تھی اس میں تینوں آپشن تھے یعنی اس میں کشمیر کی آزادی کی
برابر گنجائش تھی ۔لیکن بات اگر ایک بار پھر پاکستانی وزیر خارجہ سر ظفر
اللہ خان کے مطالبے پر اس قرار داد میں تبدیلی لا کر اس میں بنیادی نوعیت
کی تبدیلی کر کے کشمیریوں کی آزادی کے راستے کو بند کر دیا گیا اور اس میں
کشمیر کے مستقبل کی بجائے کشمیر کے الحاق کے الفاظ لکھ دئیے گئے ۔اقوام
متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے کشمیریوں کی آزادی کے امکانات کو ختم کردیا
گیا۔
ان تاریخی اور آن دی ریکارڈ حقائق کی بنیاد پر آج بجا طور پر یہ سوال ذہن
میں آتا ہے کہ اگر مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ سے نکال بغیر کشمیریوں کی
آزادی کا دروازہ بند کیا جا سکتا ہے تو پھر یہ کھلولا کیوں نہیں جا سکتا؟؟
آزادی کا دروازہ بند کرانے اور کھولنے کے عمل میں بنیادی فرق کیا ہے ؟؟؟
یہی ناکہ اقوام متحدہ کے موجودہ قراردادوں کی بنیاد پر پاکستانی حکمرانوں
کو پورا یقین ہے کہ کشمیری بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے حق میں ووٹ دیں
گے لیکن اگر آزادی کا راستہ کھل گیا تو دنیا کی دیگر اقوام باشمول بھارت و
پاکستان کی عوام کی طرح کشمیری بھی آزاد رہنے کو ترجیح دیں گے ۔اس کے علاوہ
کوئی اور فرق مجھے تو نظر نہیں آتا اور اگر بنیادی فرق یہ ہے تو پھر یہ
دعوی کس بنیاد پر کیا جاتا ہے کہ کشمیری پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں ؟؟؟
حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی حکمران آزادکشمیر کے حکمرانوں کے ذریعے کشمیر پر
اپنے غضبانہ قبضہ "جائز" بنانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے اقوام متحدہ کی
قراردادوں کا استعمال کرکے اپنے اس غاصبانہ اور نو آبادیاتی طرز عمل کو
قانونی ظاہر کرنا چاہتے ہیں ۔
کشمیریوں کی قومی امنگوں کا پتہ لگانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ کشمیریوں
کو غیر مشروط اور غیر محدود حق خود اختیاری دیا جائے یہ خود ان سے پوچھا
جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں پاکستان یا بھارت سے الحاق یا آزادی ۔اس کے علاوہ
جس طریقے سے کشمیر کے لوگوں کی رائے کے بارے میں دعوی کیا جائے گا وہ جھوٹ
یا آدھا سچ ہو گا ۔اور آدھے سچ کی بنیاد پر کیے گئے قومی فیصلے کبھی دیرپا
نہیں ہوتے اور اکثر آگے چل کر ملک کی ٹوٹ پھوٹ اور بے تحاشہ خون خرابے کا
باعث بنتے ہیں ۔
نوٹ:
اگست١٩۴٨ء کی قرارداد کے حوالے سے قاضی حسین احمد صاحب نے جو مضمون 13 اگست
1992 کہ جنگ لندن میں لکھا ہے اس میں شاید سہوا انہوں نے 13 اگست کی
قرارداد کے الفاظ بدل کر لکھے ہیں اور مستقبل کے فیصلے کے حق کی بجائے
الحاق کا حق لکھا ہے پاکستانی سفارتخانے نے جو کتابچہ
KASHMIR IN SECURITY COUNCIL چھاپہ ہے اس میں قرارداد کءے الفاظ وہی لکھے
ہیں ۔
جن کا حوالا میں نے اوپر دیا ہے۔
|