کسی بھی ملک و قوم کے
نوجوان اس کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں جب ان کی ہمت بلند اور عزم آہنی ہو تو
کوئی انہیں شکست نہیں دے سکتا۔ پاکستان کے قیام میں انہی نوجوانوں نے ہر
اول دستے کا کردار ادا کیا اور تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف میں لکھوا
دیا۔ آ ج بھی ہم اپنے نوجوانوں سے وہی توقع رکھتے ہیں اور باوجود بہت ساری
کوتاہیوں کے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان نوجوانوں میں آج بھی
عزم و حوصلے کی کمی نہیں یہ کسی بھی میدان میں اپنا آپ منوا نے کی ہمت
رکھتے ہیں اور ملک کی سر بلندی اور حفاظت کیلئے کوشاں ہیں۔
ظاہر ہے یوں تو ہم بے شمار کتابیں پڑھتے ہیں لیکن کچھ کتابیں اپنے لکھنے
والے کی وجہ سے خاص محسوس ہوتی ہیں کبھی بلحاظ شہرت ،کبھی بلحاظ رتبہ لیکن
بہت کبھی کبھی بلحاظ عمر بھی ۔ اوپر کی تمہید باندھنے کی وجہ ہی یہی تھی کہ
میں ایک ایسی کتاب کا ذکر کرنے جا رہی ہوں جس کو لکھنے والا سولہ سترہ سال
کا ایک بچہ یا نوجوان ہے جسے فیروز سنز نے شائع کیا ہے ۔یہ کتاب اس لحاظ سے
منفرد ہے کہ اس کو اے لیول کے ایک طالبعلم شہیر اللہ خان نے لکھا ہے۔ سترہ
سالہ مصنف بیکن ہائوس ایجوکیشنل کمپلیکس راولپنڈی کا طالبعلم ہے اور جیسا
کہ ایک عام تاثر ہے کہ آج کے بچے سختی سے بہت دور ہوتے ہیں اس بچے نے اس
تاثر کو غلط ثابت کیا ہے۔ کتاب The Mighty Souls جو کہ پندرہ مختصر کہانیوں
پر مشتمل ہے اور یہ تمام کہانیاں افواجِ پاکستان، اینٹلیجنس اداروں اور
اینٹی نارکوٹکس کے بارے میں لکھی گئی ہیں ۔ چونکہ یہ تمام کہانیاں تصوراتی
ہیں اور اسی لیے اسے اس نوجوان ذہن کی اپنے وطن سے محبت اور اس کیلئے
قربانی کے جذبے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اور یہ کتاب دوسرے نوجوانوں کو بھی
انہی جذبات کی ترغیب دلانے میں بھی مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کتاب کا
پیش لفظ جنرل ریٹائرڈ حمید گل نے لکھا ہے جس کو شہیر اللہ خان اپنے لیے ایک
اعزاز گردانتا ہے ۔ کتاب میں موجود کہانیاں تو اپنی جگہ لیکن زیادہ اہم وہ
جذبہ ہے جو ان میں کارفرما ہے اور جس کو دیکھ کر اور پڑھ کر اس بات پر یقین
کرنے کو دل چاہتا ہے کہ یہ قوم ناقابلِ تسخیر ہے اور باوجود ہزار مشکلات کے
اس کے عزم و ہمت میں کوئی کمی نہیں آئی اور نہ ہی نوجوان نسل کی اپنے
محافظوں پر اعتماد میں کمی آئی ہے۔ اس کتاب کو ادب کے معیار سے زیادہ جذبے
کے معیار پر پرکھا جائے تو ایک گو نہ خوشی محسوس ہوتی ہے کہ ہمارے نوجوان
جانتے ہیں کہ یہ ملک ہے تو وہ ہیں اور اسی لیے وہ اس کی بقا کیلئے کوئی بھی
قربانی دینے سے نہیں ہچکچاتے۔ اس کتاب میں کچھ کہانیاں دہشت گردی کے مسئلے
کے گرد بھی گھومتی نظر آتی ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس طویل جنگ نے کس
طرح آج کے بچوں کے ذہنوں پر اپنے اثرات مرتب کیے ہیں لیکن دہشت گردوں کا
مقابلہ کر کے انہیں شکست فاش دینے کی سوچ سے عزم وہمت کا اظہار بھی ضرور
کیا گیا ہے اور اس سوچ کا بھی کہ دشمن چاہے اندر کے ہوں یا باہر کے وہ دشمن
ہی ہیں اور جو بھی شخص اس ملک کو نقصان پہنچانا چاہے اس سے آہنی ہاتھوں سے
نمٹنا ضروی ہے ۔چونکہ خود شہیراللہ خان کا تعلق ایک فوجی گھرانے سے ہے اس
لیے ان کہانیوں کو پڑھ کر لگتا ہے اس نے فوجی زبان اور ہتھیاروں کے استعمال
کا اظہار بڑی مہارت سے کیا ہے لیکن وہ خود کتاب میں موجود جذبے کو پاکستان
کی نوجوان نسل کی اکثریت کی ترجمانی قرار دیتا ہے اور کہتاہے کہ یہ جذبہ
مختلف لوگوں میں مختلف صورتوں میں سامنے آتا ہے مگریہ جہاں بھی ہو اور جس
صورت میں بھی ہو قابلِ قدر اور انتہائی اہم ہے۔ اسی جذبے کے تحت ہمارے
نوجوان مختلف شعبوں میں سر گرمِ عمل ہیں۔ ہاں فوجی جس طرح اپنی جان پر کھیل
کر وطن ِ عزیز کے دفاع کیلئے ہر مشکل سے ٹکرا جاتے ہیں وہ اس سے بہت متاثر
دکھائی دیتا ہے خود وہ فوج کو پیشہ یا نوکری نہیں عبادت اور مشن سمجھتا ہے
اور اس دن کا منتظر ہے جب وہ بھی یہ اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے گا۔
بہر حال یہ بات خوش آئندہ ہے کہ ہمارے Teenagers صرف ون ویلنگ، شور شرابے ،
کمپیوٹر گیمز، شیشہ اور موبائل میسجنگ میں ہی مصروف نہیں ہیں وہ انتہائی
تعمیری سوچ بھی رکھتے ہیں ،وہ ملک کیلئے قربانی دینے والوں کو بھی یاد رکھے
ہوئے ہیں اور سوات، وزیرستان ، سیاچین، کشمیر غرض محاذ پر برسرِ پیکار اپنے
سے عمر میں کچھ ہی بڑے مجاہدوں کے کارناموں پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں کہ
یہ صورتِ فولاد جوان ہی اس مٹی اوروطن کی بقا اور عظمت کے ضامن ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس قوم کا ہر بچہ اور نوجوان بلکہ اس کا ہر
باشندہ اس مٹی کی حفاظت کیلئے اتنا ہی پر عزم اور پر جوش ہو جتنا The
Mighty Souls کا مصنف شہیر اللہ خان ہے۔اللہ اس وطن کی اور اس قوم کی حفاظت
کرے ﴿آمین﴾ |