وطنِ عزیز میں جشنِ آزادی منانے
کی تیاریاں عروج پر ہیں ۔ بعض سیاسی جماعتیں اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے
عوام کو شایانِ شان طریقے سے جشنِ آزادی منانے کی ترغیب دے رہی ہیں ۔ وطنِ
عزیز کے طول و عرض میں جھنڈے لہرانے اور گھر گھر چراغاں کرنے کا درس دے رہی
ہیں مگر میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ جشن آزادی کس خوشی میں منایا
جا رہا ہے۔جبکہ وطن عزیز آزادی کی کسی بھی تعریف کی رو سے آزاد نہیں ہے۔
سیاسی، سماجی، معاشی، اور معاشرتی طور پر یہ پہلے بھی غلام تھا، اب بھی ہے۔
اب بھی سیاسی ، سماجی، تعلیمی ، معاشی اور معاشرتی پالیسیاں انہی آقاﺅں کی
جنبشِ ابرو پہ بنتی ہیں ۔اب بھی وہی اس ملک کے مالک ہیں جو پہلے تھے ۔ آئے
دن ڈرون حملے اور ایبٹ آباد آپریشن جیسے واقعات کیا آزاد ملکوں میں ہو سکتے
ہیں؟کیا یہ ہماری آزادی کا بھانڈا بیچ چوراہے چور کرنے کے لئے کافی نہیں ؟ہم
ہرگز آزاد نہیں بس اندازِ غلامی بدل گیا ہے۔پہلے وہ براہِ راست حکومت کرتے
تھے اور اب اپنے کارندوں کے ذریعے۔ان کے یہ کارندے، نام نہاد سیاستدان، اور
فوجی حکمران سب ایک ہی دہلیز پر سر جھکاتے اور جگالی کرتے ہیں۔
یقینا آزادی ہی ہماری منزل تھی جن کے لئے ہمارے آباءنے قربانیاں دی تھیں ۔
اپنا گوشت اور لہو اس ملک کی بنیادوں میں دفن کیا تھا ۔ کئی ماﺅں کے بیٹے
نیزوں کی اندھی نوکوں پر پر لٹک گئے تھے ۔ کئی بیٹیاں اور بہنیں اپنی
عصمتوں سے محروم ہو گئی تھیں ۔ لہلاتے کھیت ، مال و جان سب کچھ ایک روشن
خواب کی تعبیر کے لئے قربان کر دیا تھا ۔ مگر یہ خواب ایک ڈراؤنی حقیت کا
روپ دھار چکا ہے۔ اور ان اسلاف کی روحیں پکار پکار کر کہہ رہی ہیں
جو خواب تھا لاکھوں آنکھو ں کا،یہ وہ پاکستان نہیں
ایسے میں یہ جشنِ آزادی’ چہ معنی دارد‘۔ منزل پہ پہنچے بغیر جشن منانا کتنا
بے معنی اور احمقانہ عمل ہے؟ اور موجودہ صورت حال میں تو بالکل پاگالانہ
حرکت کہ جب وطنِ عزیز چونسٹھ برس بعد بھی درست سمت تک کا تعین نہیں کر
پایا!نشان ِ منزل آنکھوں سے اوجھل ہو چکا۔اور سفر کا لامتناہی سلسلہ جانے
کب رکے گا؟
اب بھی اوجھل ہے آنکھوں سے نشانِ منزل
زندگی تو ہی بتا کتنا سفر باقی ہے؟
ملک ہمہ جہت زوال کا شکار ہو چکا ۔انارکی اس حد تک پھیل چکی ہے کہ مارنے
والا بھی مسلمان، مرنے والا بھی مسلمان۔قاتل بھی مسلم ، مقتول بھی مسلم۔
قاتل کا بھی وہی نعرہ،مقتول کا بھی وہی نعرہ۔قاتل کا بھی وہی رب ،مقتول کا
بھی وہی رب۔گلے کٹتے جا رہے ہیں ، گلیاں و بازار خون سے سرخ ہیں ۔عوام دست
و گریباں ۔ قانون اللہ کو پیارا ہو چکا۔ ہر طرف وحشت ناچ رہی ہے۔ بھوک نے
لوگوں کو خود کشی اور جرم کے اندھے کنویں مین دھکیل دیا ہے۔ہر طرف جنگل کا
قانون ہے۔ ساتھ والے گھروں سے لاشیں اٹھ رہی ہیں ۔ ایسے میں گھروں پہ
چراغاں اور جشن ؟یہ تو انہی لوگوں کا کام ہے جن کے ضمیر مردہ ہو چکے۔ایک
بھی لیڈر دلِ زندہ کے ساتھ اس دھرتی پہ موجود نہیں جو عوام کے زخموں پہ
مرہم رکھے۔ اک قحط ہے قیادت کا اور قوم بکریوں کا ریوڑ بنی ہوئی ہے۔
کہاں ہے ارض و سما کا مالک
کہ چاہتوں کی رگیں کریدے
ہوس کی سرخی رخِ بشر کا
غازہ بنی ہوئی ہے
کوئی مسیحا ادھر بھی دیکھے
ارے کوئی تو چارہ گری کو اترے
افق کا چہرہ لہو میں تر ہے
زمیں جنازہ بنی ہوئی ہے
کاش ہم اس دن کو یومِ جشن کی بجائے یومِ احتساب کے طور پہ مناتے کہ ملک کو
اس حال تک پہنچانے میں ہم سب قصور وار ہیں ۔ بلکہ ہم عوام کا قصور زیادہ ہے
جو بے حمیت ، بے غیرت،کرپٹ اور ملک دشمن افراد کو اپنی قیادت کے کئے منتخب
کرتے ہیں ۔پھر یہی جونک نما راہنما ملک کا قطرہ قطرہ لہو نچوڑتے ہیں ۔اور
خود نکھرتے جاتے ہیں ۔یہ ملک خور ہیں ، سب چور ہیں اور اندر سے ایک دوسرے
سے ملے ہوئے ہیں ۔امتِ مسلمہ کا شائد ہی کسی بات پر اتنا بڑا اجماع ہو جتنا
ان نام نہاد لیڈروں کا اس بات پر ہے کہ ملک کو مل جل کر لوٹا جائے۔
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے سب ٹھکانوں کی
شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت جشن منانے کا نہیں بلکہ اک عوامی تحریک چلانے کا
وقت ہے ۔جس کا مقصد ان درندہ نما لیڈروں کے چہروں سے نقاب نوچ کر ان کی
اصلیت عوام پر آشکار کرنا ہے۔اور عوام کو احساس دلانا ہے کہ وہ غور کرے کہ
ملکی خزانہ کس نے لوٹا؟املاک کس نے تباہ کیں؟ ادارے کس نے تباہ کئے؟ عہدے
کس نے بیچے اور کون بیچ رہا ہے؟گردنوں تک کرپشن میں کون دھنسا ہوا ہے؟ ملکی
معاہدوں میں کمیشن کس نے کھائے؟ کراچی سے پشاور تک وطن کی گلیاں خون سے
رنگیں کیوں ہیں ؟ڈرون حملوں میں بچوں کے چیتھڑے اڑانے کے جرم میں کون کون
شریک ہیں ؟عدالتوں کو پا بہ زنجیر کرنے کی کوشش کون کر رہا ہے؟کون عوام کو
طبقاتی طور پہ تقسیم کرکے اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتا ہے؟منصف اعلیٰ کو
شہر شہر نگر نگر انصاف کا بھکاری کس نے بنایا ؟ نا اہل افراد کو چن چن کر
اعلیٰ عہدوں پہ کس نے بٹھایا؟ ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ کس نے لگایا ؟ جاگ
پنجابی جاگ کا نعرہ کس نے لگایا؟ عظیم بلوچستان کا نعرہ لگانے والے کون ہیں
؟ مساجد مقتل گاہیں کیوں ہیں ؟ کس نے معاشرے میں افلاس بانٹا اور اپنے بینک
بھر لئے؟ جی ہاں جشنِ آزادی منانے کی نہیں بلکہ ایسی تحریک چلانے کی ضرورت
ہے جس کے نتیجہ میں اک ایسا پاکستان سامنے آئے جس کے لئے لاکھوں لوگوں نے
اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا ۔جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا اور جس کی
تعبیر کے کئے جناح نے انتھک محنت کی تھی۔اک ایسا ملک جہاں امن ،
خوشحالی،اور بھائی چارہ ہو جہاں اسلام کے زریں اصولوں کے مطابق زندگیاں
گزارنے کے مواقع میسر ہوں ۔ اس دن کو یومِ عہد کے طور پہ منائیں جس میں ذلت
کی زندگی کو تج کرکے ایک حقیقی صبح ِ آزادی کے لئے جدو جہد کرنے کا عزم ہو۔
تذلیل سہیں گے ہم کب تک کیوں جینا یہاں آسان نہیں
جو خواب تھا لاکھوں آنکھوں کایہ وہ پاکستان نہیں
یاں قوم کو بیچنے والے بھی سونے میں تولے جاتے ہیں
دروازے ان کی پلکوں کی ،جنبش پر کھولے جاتے ہیں
ہم پوچھتے ہیں ان زر والوں سے ،کیا ہم مفلس انسان نہیں
جو خواب تھا لاکھوں آنکھوں کا،یہ وہ پاکستان نہیں
کیا تم نے منظر دیکھا ہے ان لٹتی بیٹیوں ماﺅں کا
اک جذبہ خوشبو جیسا تھا، اک خواب تھا ٹھنڈی چھاﺅں کا
جیون کی سلگتی راہوں میں اب کون یہاں ہلکان نہیں
جو خواب تھا لاکھوں آنکھوں کایہ وہ پاکستان نہیں |