بنت عبدالقیوم
شاہدرہ
محبت ایک جذبہ ہے اور بنی نوع انسان کے خمیر میں یہ جذبہ گوندھ دیا گیا
ہے،ہر انسان کی فطری ضرورت ہے ۔ اس ضرورت کو پورا نہ کیا جائے یا پورا نہ
کرنے دیا جائے تو فساد پیدا ہوتا ہے یقینا یہ بھی ایک وجہ تھی اس تنبیہہ کی
جو آپ صلی علیہ وسلم نے اقرع بن حابس کو کی، جب اس نے بتایا کہ اس کے دس
بچے ہیں مگر وہ ان کی جذباتی ضرورت کو پورا نہیں کرتا یعنی بوسہ نہیں دیتا
جیسا کہ اس نے سید کونین کو اپنے نواسے کو دیتے ہوئے دیکھا۔ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فوراً اصلاح کے نکتہ نظر سےاس کی گرفت کی کہ جو رحم نہیں کرتا
اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ یہ رویہ
قابل اصلاح ہے ۔۔۔ قربان جاؤں نبی مہربان کے جنھوں نے نفسیات دانوں کو راہ
سجھائی کہ محبت انسان کی جذباتی ضرورت ہے اور اس ضرورت کو پورا کیا جاتے
رہنا چاہیئے۔۔۔ یہی وجہ تھی کہ اولاد ،ازواج، صحابہ،مسلم غیر مسلم ،عربی،
بدو ۔۔۔ ہر ایک اس چشمہ محبت سے جی بھر کر سیراب ہوا اور فیض پانے والوں
میں سے ہر ایک اس چشمے کی ایسی بوند ثابت ہوا ، جو جہاں بھی ٹپکی انقلاب کا
ذریعہ بن گئی۔
گویا محبت اظہار مانگتی ہے اور عموماً اس کا اظہار خودبخود ہوتا ہے ، آپ کے
عمل کی خوبصورتی سے ۔۔۔ الفاظ کے چناؤ سے ... جذبات کی گرمی سے ۔۔۔ دلکش
ادا سے ۔۔ چہرے کے تاثرات سے ۔۔۔نرم و لچکدار رویے سے ۔۔۔ لہجے کی شیرینی
سے ۔۔۔ تاہم اس کے اظہار کو غیر فطری طریقے سے روک لیا جائے،کبھی اندر کے
احساس کمتری کے باعث تو کبھی احساس برتری کے باعث ۔۔۔ کبھی سنگ دلی کے سبب
۔۔۔ اور کبھی معاشرتی خوف کے باعث ۔۔۔ کبھی واہمے اور اندیشوں کی بناء پر
۔۔۔ تو کبھی زاہد و عابد بننے کے چکر میں ۔۔۔ اور کبھی محض انا کی تسکین کے
لئے ۔۔۔ اس جذبے کے بہاؤ میں رکاوٹ کچھ بھی بنے ،تشنگی بہرحال پیدا کرتا ہے
اور یہ تشنگی بہت سی پیچیدگیوں کا باعث بن جاتی ہے کبھی جرائم کے شکل میں
اس کا نتیجہ سامنے آتا ہے تو کبھی اخلاقی دیوالیے کی شکل میں ۔۔۔ کبھی
قساوت قلبی پیدا کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے یہ غیر فطری رویہ تو کبھی غیر
متوازن شخصیتوں کو جنم دیتا ہے ۔۔۔ کبھی نسل در نسل یہی غلط رویہ چلتا رہتا
ہے تو کبھی اس رویے کے شکار کسی دوسری انتہاء کے موُجد بن جاتے ہیں۔
بے شک جو انسان محبت نہیں کرتا خود تو ذہنی مریض ہوتا ہی ہے دوسروں کے لئے
بھی ذہنی اذیت کا سبب بنتا ہے ۔۔۔ خود تو غیر فطری راہ پر چلتے ہوئے، جذبات
کو کچلتے کچلتے خود کو اذیت میں مبتلا کرتا ہی ہے لیکن اوروں کی حق تلفی کا
سبب بھی بنتا ہے۔ اس حق تلفی کے شکار لوگ کبھی بھی نارمل زندگی نہیں گزار
پاتے اور جذباتی عدم توازن کا شکار ہو جاتے ہیں۔
لہٰذا محبت کو فروغ دینے کا سبب بنیں کہ یہ دن بدن زوال پذیر معاشرے کی اہم
طبی ضرورت ہے۔ یہ علاج کا وہ طریقہ ہے جو نبی اقدس نے خود بتایا ہے۔ یہ
بگڑے ہوؤں کو سنوارنے کا ذریعہ بھی ہے سوائے ان بد قسمت لوگوں کے ، جن سے
نیکی کی توفیق سلب کر لی جاتی ہے۔
|