لاپتہ خواتین پاکستان سے مل گئیں۔۔۔ آخر ان لوگوں کو اغواﺀ کیسے کیا جاتا ہے اور پھر ان سے کیا کام لیا جاتا ہے؟

image
حمیدہ بانو اور ان کے اہلِ خانہ
 
20 سال سے لاپتہ بھارتی خاتون سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کی مدد سے پاکستان سے مل گئی ہے۔ حمیدہ بانو لاپتہ ہندوستانی خاتون اپنے گھر جانے کا بے چینی سے انتظار کر رہی ہیں۔ حمیدہ بانو نے 2002 میں ہندوستان چھوڑ دیا جب ایک بھارتی ایجنٹ نے انہیں دبئی میں باورچی کی نوکری دلانے کا وعدہ کیا تھا دبئی کے بجائے انھیں دھوکہ دے کر پاکستان پہنچایا گیا۔
 
ہندوستان کے ممبئی میں حمیدہ بانو کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے انھیں ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی اور بالآخر ہندوستان اور پاکستان کے دو نیک دل افراد نے حمیدہ بانو کو ان کے بچھڑے ہوؤں سے ملا دیا۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے گھر والوں تک رسائی نہ کر سکیں اور حالات پر اپنے آپ کو چھوڑنا پڑا۔ لیکن اس سارے عرصے میں انھوں نے کبھی اپنے بچوں سے ملنے کی تڑپ نہیں چھوڑی وہ اپنے آس پڑوس میں لوگوں سے مدد کی طالب رہیں۔
 
لیکن پھر کچھ یوں ہوا کہ اس سال جولائی میں سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ولی اللہ معروف نے محترمہ بانو کا انٹرویو کیا اور ویڈیو آن لائن اپ لوڈ کر دی۔ ادھر ممبئی میں خلفان شیخ نامی ہندوستانی صحافی نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس میں ان کی ویڈیو شیئر کر دی ۔ کسی طرح یہ ویڈیو محترمہ بانو کے اہل خانہ کی نظروں سے گزری اور انھوں نے ان کو پہچان لیا ۔اس کے بعد دونوں افراد نے محترمہ بانو اور ان کی بیٹی یاسمین شیخ کے درمیان ویڈیو کال کا اہتمام کیا۔ اور یوں انسانی اسمگلنگ کی شکار حمیدہ بانو کا رابطہ ایک مرتبہ پھر اپنے گھر والوں سے قائم ہوگیا-
 
image
 
یہاں اگر ہم آپ کو بتائیں کہ پاکستان کے پاس تیل کے کتنے ذخائر ہیں تو یقیناً آپ کے ہوش اڑ جائینگے۔پاکستان اگر اپنے تیل کے ذخائر سے خود استفادہ کرنا شروع کردے تو ہمیں آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک اور دیگر ممالک سے قرضوں کی بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور پاکستان بھی عرب ممالک کی طرح معاشی طور پر مستحکم ہوکر ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔
 
ایسا ہی ایک انسانی اسمگلنگ کا ایک واقعہ زاہدہ بی بی کے ساتھ بھی پیش آیا- زاہدہ 1983 میں تئیس سال کی تھیں جب انہیں جنوب مغربی بنگلہ دیش میں ان کے گاؤں سے زبردستی شادی کے نام پر اغوا کر کے پاکستان سمگل کر دیا گیا تھا۔
 
پاکستان میں رقیہ بیگم کے نام سے جانی جانے والی 61 سالہ زاہدہ کی عمر 23 سال تھی جب اسے بنگلہ دیش کے ضلع جھنیدہ سے اغوا کر کے پاکستان کے صوبہ سندھ میں ایک بزرگ کو دلہن کے طور پر فروخت کر دیا گیا تھا۔ اس کا شوہر جس نے اسے کبھی بھی اپنے خاندان سے رابطہ کرنے کی اجازت نہیں دی2014 میں انتقال کر گیا۔ چار سال بعد ولی اللہ معروف میڈیا ایکٹوسٹ، سوشل میڈیا پر ان کو ان کے خاندان سے جوڑنے میں کامیاب ہو گئے۔
 
ستمبر 2021 میں زاہدہ بیگم کراچی سے جہاں وہ اب رہتی ہیں امارات کی پرواز سے ڈھاکہ کے لیے روانہ ہوئیں۔ وہ چھ ماہ کے ویزا کے ساتھ بنگلہ دیش گئی تھی ان کا کہنا تھا کہ:"یہ میری زندگی کا سب سے بہترین لمحہ تھا جب میں اپنی والدہ اور بہن بھائیوں سے ملی لیکن کاش میرے والد چند سال اور زندہ رہتے تاکہ میں ان سے مل سکتی ۔"
 
image
 
انسانی اسمگلنگ سب سے زیادہ لیبر کے مقصد کے لئے کی جاتی ہے، جو سندھ اور پنجاب صوبوں میں زراعت اور اینٹ سازی کے لئے کی جاتی ہے جس میں کچھ حد تک کان کنی اور قالین سازی بھی شامل ہے۔ مزدوری کے متاثرین جن میں مرد، عورتیں اور بچے شامل ہیں، کے تخمینے بڑے پیمانے پر مختلف ہیں لیکن اندازاً یہ ایک ملین سے زیادہ ہیں۔
 
شک ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان دنوں بچیوں کا گھروں سے بھاگ کر شادی کرنا بھی اسی طرح کی اسمگلنگ کی ایک کڑی ہے اس سے پہلے چینی نوجوان پاکستانی لڑکیوں سے شادی کر کے چین لے جاتے تھے اور پھر آگے ان لڑکیوں کو اسی کاروبار میں استعمال کیا جاتا تھا۔ افراد کی سمگلنگ ایک گھناؤنا جرم ہے جس کا آغاز افراد کی نقل و حمل سے ہوتا ہے جس کے بعد انہیں تمام قسم کی مزدوری اور غلامی کے لیے فروخت یا مجبور کیا جاتا ہے بشمول جبری شادیاں اور جبری جسم فروشی۔ یہ کام قومی اور بین الاقوامی سطح پر بڑے منظم طریقے سے انجام دیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان درندوں سے سب کو محفوظ رکھے۔
YOU MAY ALSO LIKE: