کھانا کھانا ہے تو اپنا چمچہ ساتھ لے کر آؤ یا اپنے ہی بچے کو پیار کرنا منع ہے، کچھ ایسے اصول جو انگریزوں کے راز کھول ڈالیں

image
 
عام طور پر انگریزوں کو ہم ایشیائی ملکوں سے تعلق رکھنے والے لوگ رول ماڈل کے طور پر دیکھتے ہیں ان کی بنائی گئی چیزیں استعمال کرتے ہیں- ان کے صفائی ستھرائی اور ڈسپلن کے اصولوں کو مثالی سمجھتے ہیں اور ان جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں مگر ہر بات ماننے کے لیے نہیں ہوتی ہے- ایسی ہی کچھ باتوں کے بارے میں ہم آپ کو آج بتائيں گے جو کہ آپ کو کبھی بھی اپنانے کی کوشش کرنی نہیں چاہیے-
 
1: کھانا کھانا ہے تو اپنا چمچ ساتھ لاؤ
ماضی میں انگریز شرفا جب کسی کو کھانے کے لیے مدعو کرتے تھے تو وہاں کھانا کھانے کی شرط یہی ہوتی تھی کہ مہمان اپنا کھانا کھانے کے چمچ اپنے ساتھ لائيں- یہاں تک کہ بڑی سے بڑی دعوتوں میں بھی مہمانوں کو کھانے کے لیے چمچ فراہم کرنا ان کی توہین سمجھی جاتی تھی اور ہر فرد اپنی جیب میں سے اپنا چمچ نکال کر کھانا کھاتا تھا-
 
2: تصویر میں مسکرانا منع ہے
مسکرانے والا انسان کم عقل اور پاگل تصور کیا جا سکتا تھا۔ یہ بات سن کر اگر آپ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آرہی ہے تو روک لیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی میں انگریز جب تصویر کھنچواتے تھے تو اس کے لیے ضروری تھا کہ سنجیدگی سے کھڑے ہو کر مسکراہٹ کو روک کر تصویر بنائيں- اس حوالے سے حالیہ لوگ دو نظریات پیش کرتے ہیں جن میں سے ایک نظریہ تو یہ ہے کہ ماضی میں انگریزوں کے دانت اتنے خراب ہوتے تھے جن کو وہ دکھاتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتے اس وجہ سے تصاویر میں مسکرانے سے پرہیز کرتے تھے جب کہ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ اس دور میں زيادہ ہنسنے ہنسانے والے انسان کو پاگل تصور کیا جاتا تھا اس وجہ سے وہ تصاویر میں ایسا کرنے سے اعتراز برتتے تھے-
 
image
 
3: میز پوش کا مقصد ہاتھ صاف کرنا ہوتا تھا
انگریز کھانے کے لیے ٹیبل کرسی کا انتخاب کرتے ہیں اور اس کی دیکھا دیکھی آج کل ہم لوگ بھی ایسا ہی کرنے لگے ہیں لیکن اس بات سے بہت کم لوگ واقف ہوں گے کہ انگریزوں کی کھانے کی ٹیبل پر بچھے میز پوش اس ٹیبل کی صفائی اور خوبصورتی کے لیے نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کا مقصد کھانا کھانے کے بعد ہاتھ صاف کرنا ہوتا تھا ۔ یہ بات اگرچہ آج کل کے دور میں بہت بدتمیزی سمجھی جا سکتی ہے لیکن یہی حقیقت ہے کہ ماضی میں انگریز یہ بدتمیزی بار بار بڑے فخر سے دوہراتے تھے-
 
4: اپنے بچے کو پیار کرنا منع ہے
بچوں کو تو دیکھ کر تو سب ہی کو پیار آتا ہے مگر اپنے ہی بچے کو پیار کرنا منع ہے یہ بات سن کر سب کو حیرت ہی ہوگی۔ جب کہ بیسویں صدی کے درمیان تک انگریزوں کا یہ اصول تھا کہ چھ ماہ سے کم عمر بچے کو پیار کرنا سخت معیوب سمجھا جاتا تھا- جب کہ بچوں کو کم عمری میں گلے لگانا یا چومنا اس کو بگاڑنے کے مترادف ہوتا تھا اور وہ بچے سے دور دور رہتے تھے تاکہ اس کی شخصیت بن سکے مگر بیسویں صدی کے آخر میں بچوں کی تربیت کے حوالے سے ایک کتاب کی اشاعت نے انکے ان نظریات کو غلط ثابت کر دیا اور انہوں نے بچوں کو پیار کرنا شروع کر دیا-
 
image
 
5: منگیتر سے اکیلے ملنا منع ہے
انگریزوں کی معاشرت میں اس وقت جس آزادی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے ماضی میں یہی انگریز اس کو سخت معیوب سمجھتے تھے- یہاں تک کہ ان کی طر‌ز معاشرت میں کسی لڑکی کا اس کے منگیتر کے ساتھ اکیلے وقت گزارنا سختی سے منع تھا اور اگر کوئی ایسا کرتا ہوا پایا جاتا تو اس کو بہت بری نظر سے دیکھا جاتا تھا- یہاں تک کہ شادی سے قبل تنہائی میں ملنے پر بھی پابندی تھی-
 
یہ تمام قوانین وقت کے ساتھ اگرچہ تبدیل ہو چکے ہیں مگر انگریزوں کی طرز معاشرت کی جھلک دکھانے کے لیے کافی ہیں اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ لوگ بھی ایسے اصول رکھتے تھے جو کہ حیران کردینے والے تھے -
YOU MAY ALSO LIKE: