محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو عاشورہ کہا
جاتا ہے جس کے معنی ہیں دسواں دن۔ یہ دن اﷲ تعالیٰ کی خصوصی رحمت اور برکت
کا حامل ہے۔ اس دن میں حضور اکرمﷺ نے روزہ رکھا تھا اور مسلمانوں کو روزہ
رکھنے کا حکم بھی دیا۔ پہلے تو یہ روزہ واجب تھا، پھر جب رمضان المبارک کے
روزے فرض ہوئے تو مسلمانوں کو اختیار دے دیاگیا کہ چاہیں یہ روزہ رکھیں یا
نہ رکھیں، البتہ اس کی فضیلت بیان کردی گئی کہ جو روزہ رکھے گا اس کے سال
گذشتہ کے چھوٹے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔پہلے یہ روزہ ایک دن رکھا جاتا
تھا، لیکن یہودیوں کی مخالفت کے لیے آخر میں حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اگر
میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو ان شاء اﷲ نویں محرم کو بھی روزہ رکھوں گا،
لیکن اس خواہش پر عمل کرنے سے قبل ہی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے لوگ
عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور عاشورہ کے دن بیت اﷲ کو غلاف پہنایا جاتا
تھا۔جب رمضان فرض ہوا تو حضور اکرمﷺنے فرمایا کہ جو چاہے روزہ رکھے اور جو
چاہے نہ رکھے۔ (صحیح بخاری ص 217)دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ
عنہا فرماتی ہیں کہ قریش جاہلیت میں عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے اور حضور
اکرمﷺ بھی اس وقت یہ روزہ رکھتے تھے۔ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں
بھی روزہ رکھا اور اس روزہ کا بھی حکم دیا۔ جب رمضان فرض ہوا تو عاشورہ (کے
روزے کا حکم) چھوڑ دیا گیا، جو چاہے روزہ رکھے، جو چاہے نہ رکھے۔ (صحیح
بخاری ص 254، ص268)حضرت رُبیع بنت مُعوِذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ
حضور اکرمﷺ نے عاشورہ کی صبح انصار کے گاؤں میں اعلان کروایا کہ جس نے صبح
کو کھاپی لیا ہو وہ بقیہ دن پورا کرے (یعنی رکا رہے)اور جس نے ابھی تک
کھایا پیا نہیں ہے وہ روزہ رکھے۔ فرماتی ہیں کہ وہ بھی یہ روزہ رکھتی تھیں
اور اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتی تھیں اور ان کے لیے اون کا کھلونا بناتی
تھیں۔جب کو ئی بچہ کھانے کے لیے روتا تویہ کھلونا اس کو دے دیتیں، یہاں تک
کہ افطار کا وقت ہوتا (صحیح بخاری ج1ص 263، صحیح مسلم ج 1 ص 360 ) حضرت
سلمہ بن الاکوع ث فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے عاشورہ کے دن ایک آدمی کو
بھیجا، جو لوگوں میں یہ اعلان کررہا تھا کہ جس نے کھالیاوہ پورا کرے یا
فرمایا بقیہ دن کھانے پینے سے رکا رہے اور جس نے نہیں کھایا وہ نہ کھائے
(یعنی روزہ رکھے) (بخاری ج 1 ص 257) حضرت عبد اﷲ بن عباس ث فرماتے ہیں کہ
حضور اکرم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودیوں کو دیکھا کہ عاشورہ کے دن
روزہ رکھتے ہیں۔ آپﷺنے پوچھا یہ کیا ہے؟ یہودیوں نے کہا یہ اچھا دن ہے، اس
دن اﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی، حضرت موسیٰ علیہ
السلام اور بنی اسرائیل کو غلبہ اور کامیابی عطافرمائی، ہم اس دن کی تعظیم
کے لیے روزہ رکھتے ہیں۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ ہم تم سے زیادہ موسیٰ علیہ
السلام کے قریب ہیں، پھر آپ ﷺنے بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے
کا حکم دیا (بخاری ج1 ص 268) حضرت ابو موسیٰ اشعری ث فرماتے ہیں کہ حضور
اکرم ﷺ مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ کچھ یہودی عاشورہ کی تعظیم
کررہے ہیں اور اس دن روزہ رکھتے ہیں، اس کو عید بنارہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا
ہم اس روزہ کے زیادہ حق دار ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے مسلمانوں کو روزہ رکھنے کا
حکم دیا۔ (بخاری ج۱ ص268، 562)حضرت عبداﷲ بن عباس ث فرماتے ہیں کہ میں نے
حضور اکرمﷺ کو کسی دن کے روزہ کا اہتمام اور قصد کرتے ہوئے نہیں دیکھا،
سوائے عاشورہ کا روزہ اور رمضان کے مہینے کا۔ (بخاری ج۱ ص 268) یعنی ان
روزوں کا آپﷺ بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔ حضرت معاویہث حج کے لیے تشریف
لائے تو حضور اکرمﷺ کے منبر پر عاشورہ کے دن (کھڑے ہوکر) فرمایا: اے اہل
مدینہ! کہاں ہیں تمہارے علماء؟ میں نے حضور اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا تھا
کہ یہ عاشورہ کا دن ہے اور اﷲ تعالیٰ نے تم پر اس کا روزہ فرض نہیں کیا ہے،
میں روزے سے ہوں، جو چاہے روزہ رکھے، جوچاہے روزہ نہ رکھے۔ (صحیح بخاری ج 1
ص 262)رسول اﷲﷺنے ارشاد فرمایا: مجھے اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ جو
شخص عاشورہ کے دن کا روزہ رکھے گا تو اس کے پچھلے ایک سال کے گناہ کا کفارہ
ہوجائے گا۔ (صحیح مسلم) حضرت ابوقتادہ ث سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺنے ارشاد
فرمایا کہ عاشورہ کے روزے کے بارے میں مجھے اﷲ تعالیٰ سے امید ہے کہ سال
گزشتہ کے گناہ معاف فرمادیں گے۔ (ترمذی ج 1 ص 151) ان احادیث میں گناہ سے
صغائر گناہ مراد ہے، کبائر گناہ کے لیے توبہ کی ضرورت ہوتی ہے۔حضرت عبداﷲ
بن عباس ث فرماتے ہیں کہ حضور اکر م ﷺ نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور لوگوں کو
اس کا حکم دیا۔ لوگوں نے بتایا کہ یہودونصاریٰ اس دن کی تعظیم کرتے ہیں تو
آپ ﷺ نے فرمایاکہ اگر آئندہ سال زندہ رہا تو ان شاء اﷲ نویں کو (بھی) روزہ
رکھوں گا، لیکن آئندہ سال آپ ﷺ کا وصال ہوگیا۔ (مسلم ج۱ ص 359 )حضرت عبد ا
ﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
عاشورہ کا روزہ رکھو اور اس میں یہود کی مخالفت کرو۔ ایک دن پہلے روزہ رکھو
یا ایک دن بعد۔ (مسند احمد ج 1 ص 241) یہ حدیث بعض نسخوں میں’’او‘‘ کی جگہ
پر ’’و او‘‘ کے ساتھ وارد ہوئی ہے۔ اگر واو (یعنی اور) کے ساتھ روایت ثابت
مان لی جائے تو پھر تین روزہ رکھنا ثابت ہوگا۔ اس طرح عاشورہ کے روزے رکھنے
کی 4 شکلیں بنتی ہیں: 9، 10 اور 11تینوں دن روزے رکھ لیں۔ 9 اور10 دو دن
روزہ رکھ لیں۔ 10 اور 11 دو دن روزہ رکھ لیں۔ اگر کسی وجہ سے 2 روزے نہیں
رکھ سکتے تو صرف ایک روزہ عاشورہ کے دن رکھ لیں۔
|