رسول اللہ ﷺ نے حضراتِ حسنین کے متعلق فرمایا:
’سیدا شباب اہل الجنۃ‘ یعنی حضرت حسن اور حسین نوجوانانِ اہل جنت کے سردار
ہیں۔[ترمذی] رسول اللہ ﷺ اکثر آپؓکو گود میں لیتے، کبھی کندھے پر بٹھاتے
اور آپؓکو بوسہ دیتے۔ آپؓکوسونگھتے اور فرماتے ’تم اللہ تعالیٰ کی عطا
کردہ خوشبو ہو۔ [ترمذی] ایسے ہی کسی موقع پر حضرت اقرع بن حابسؓنے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول ﷺ ! میرے دس بیٹے ہیںلیکن میں نے تو آج تک کسی کا بوسہ
نہیں لیا! آپﷺ نے ارشاد فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اس پر بھی (اللہ تعالیٰ
کی جانب سے) رحم نہیں کیا جاتا۔[ترمذی]
تعارف
حضرت حسین بن علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن ابوعبداللہ القرشی
الہاشمی، کربلا میں شہید ہونے والے، رسول اللہ ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ
زہراؓکے بیٹے اور دنیا میں آپ ﷺ کا پھولوں کا گلدستہ ہیں۔حضرت حسینؓ۵؍
شعبان المعظم ۴ھ کو پیدا ہوئے اور محرم ۶۱ھ کی دس تاریخ کو بہ روز جمعہ
شہید کیے گئے۔ آپؓکی عمر ۵۴؍ سال، ساڑھے چھے ماہ تھی۔ [البدایۃ والنہایۃ،
اسد الغابۃ]
آپؓکی ولادت کے بعد حضرت نبی کریم ﷺ نے بہ ذاتِ خود شہد چٹایا اور آپ کے
دہنِ پاک کو اپنی زبانِ بابرکت سے تر کیا۔ آپؓکو دعائیں دیں اور ’حسین‘
نام رکھا۔ [المرتضیٰ]نیز حضرت نبی کریمﷺ نے از خود نومولود بچے کو منگا کر
آپؓکے کانوں میں اذان دی، اس طرح گویا پہلی مرتبہ خود زبانِ وحی والہام نے
اس بچے کے کانوں میں توحیدِ الٰہی کا صور پھونکا۔ پھر فاطمہ زہراؓکو عقیقہ
کرنے اور بچے کے بالوں کے ہم وزن چاندی خیرات کرنے کا حکم دیا۔ [سیر
الصحابہ]رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:حسن اور حسین میری دنیا کی بہار ہیں۔ نیز
رسول اللہﷺ فرماتے تھے کہ حسین میرے ہیں اور میں حسین کا ہوں۔ اللہ تعالیٰ
اس شخص کو دوست رکھے جو حسین کو دوست رکھے۔ حسین ایک سبط ہیں اسباط سے۔[اسد
الغابۃ]
حضرت واثلہ بن اسقعؓنے فرمایا کہ ایک دن میں حضرت نبی کریم ﷺ کے حضور، امِ
سلمہؓ کے مکان پر حاضر ہوا۔ اتنے میں حضرت حسنؓتشریف لائے۔رسول اللہﷺ نے
انھیں اپنے داہنے زانو پر بٹھالیا اور پیار کیا۔ پھر حضرت حسینؓتشریف
لائےتو آپﷺ نے انھیں اپنے بائیں زانو پر بٹھالیا اور پیار کیا۔ پھر حضرت
فاطمہؓتشریف لائیںتو انھیں آپﷺ نے اپنے سامنے بٹھالیا، پھر حضرت علیؓکو
بلایا اورسورۂ احزاب کی آیت: ۳۳ تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے
(حضرت محمدﷺ کے) اہلِ بیت! اللہ تعالیٰ یہی چاہتے ہیں کہ تم سے ناپاکی کو
دور کردے اور تمھیں خوب پاک کردے۔[اسد الغابہ]
عہدِ نبوی میں
حضرت حسینؓکے بچپن کے حالات میں صرف ان کے ساتھ آں حضرتﷺ کے پیار و محبت
کے واقعات ملتے ہیں۔ آپﷺ ان کے ساتھ غیر معمولی شفقت فرماتے تھے۔ تقریباً
روزانہ حسن و حسین کو دیکھنے کے لیے حضرت فاطمہؓکے گھر تشریف لے جاتے اور
دونوں کو بلاکر پیار کرتے اور کھلاتے۔ دونوں بچے آپ سے بے حد مانوس اور
شوخ تھے لیکن آپﷺ نے کبھی کسی شوخی پر تنبیہ نہیں فرمائی بلکہ ان کی
شوخیاں دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ [سیر الصحابہ]
عہدِ صدیقی و فاروقی میں
حضرت ابوبکرؓکے ابتدائی عہدِ خلافت میں بھی حضرت حسینؓبہت صغیر سن تھے
البتہ آخری عہد میں سنِ شعور کو پہنچ چکے تھے۔ لیکن اس عہد کی مہمات میں
ان کا نام نظر نہیں آتا۔ حضرت عمرؓبھی حضرت حسینؓپر بڑی شفقت فرماتے تھے
اور قرابتِ رسولﷺ کا خاص لحاظ رکھتے تھے۔ چناں چہ جب بدری صحابہؓکے لڑکوں
کا دو دو ہزار وظیفہ مقرر کیاتو حضرت حسینؓکا محض قرابتِ رسول ﷺ کے لحاظ سے
پانچ ہزار ماہوار مقرر کیا گیا۔ آپؓکسی چیز میں بھی حضرت حسینؓکی ذاتِ
گرامی کو نظر انداز نہ ہونے دیتے تھے۔ ایک مرتبہ یمن سے بہت سے حُلّے
آئے،وہ حضرت عمرؓ نے تمام صحابہ میں تقسیم کر دیے گئے۔ آپؓقبر اور منبرِ
نبویﷺ کے درمیان تشریف فرما تھے۔ لوگ ان حلوں کو پہن پہن کر شکریے کے طور
پر آکر سلام کرتے تھے، اسی دوران حضرت حسنؓوحسینؓحضرت فاطمہؓ کے گھر سے
نکلے۔ آپ کا گھر حجرۂ مسجد کے درمیان تھا۔ حضرت عمرؓ کی نظر ان دونوں پر
پڑی تو ان کے جسموں پر حلے نظر نہ آئے۔ یہ دیکھ کر آپ کو تکلیف پہنچی اور
لوگوں سے فرمایا: مجھے تمھیں حلے پہنا کر کوئی خوشی نہیں ہوئی۔ انھوں نے
پوچھا: امیر المؤمنین! ایسا کیوں؟ فرمایا: اس لیے کہ ان دونوں لڑکوں کے
جسم ان حلوں سے خالی ہیں۔ اس کے بعد فوراً حاکمِ یمن کو حکم بھیجا کہ جلد
سے جلد دو حلے بھیجو اور حلے منگواکر دونوں بھائیوں کو پہنانے کے بعد
فرمایا: اب مجھے خوشی ہوئی۔ ایک روایت یہ ہے کہ پہلے حلے حضرت حسنؓوحسینؓکے
لائق نہ تھے۔[سیر الصحابہ]
حضرت عمرؓحضرات حسنینؓکو اپنے صاحب زادے حضرت عبداللہؓ، جو عمر اور ذاتی
فضل وکمال میں ان دونوں سے بھی فائق تھے، زیادہ مانتے تھے۔ ایک مرتبہ
آپؓمنبرِ نبویﷺ پر خطبہ دے رہے تھے کہ حضرت حسینؓآئے اور منبر پر چڑھ کر
کہا: میرے ابّا (مراد رسول اللہ ﷺ ) کے منبر سے اترو اور اپنے ابّا کے منبر
پر جاؤ۔ حضرت عمرؓنے اس طفلانہ شوخی پر فرمایا کہ میرے باپ کا تو کوئی
منبر ہی نہ تھا اور انھیں اپنے پاس بٹھالیا۔ خطبہ تمام کرنے کے بعد انھیں
اپنے ساتھ گھر لے گئے، راستے میں پوچھا کہ یہ تم کو کس نے سکھایا تھا؟ بولے
واللہ کسی نے نہیں۔ پھر فرمایا: گاہ بگاہ میرے پاس آیا کرو۔ چناں چہ اس
ارشاد کے مطابق ایک مرتبہ حضرت حسینؓان کے پاس گئے۔ اس وقت حضرت عمرؓحضرت
معاویہؓ سے تنہائی میں کچھ گفتگو کررہے تھے اور ابن عمرؓدروازے پر کھڑے
تھے۔ حسینؓبھی ان ہی کے پاس کھڑے ہوگئے اور بغیر ملے ہوئے ان ہی کے ساتھ
واپس چلے گئے۔بعد میں جب حضرت عمرؓسے ملاقات ہوئی تو حضرت عمرؓنے پوچھا تم
آئے کیوں نہیں؟ انھوں جواب دیا: امیر المومنین! میں حاضر ہوا تھا مگر
آپؓحضرت معاویہؓسے گفتگو میں مشغول تھے، اس لیے حضرت عبداللہؓ کے ساتھ
کھڑا رہا، پھر انھیں کے ساتھ لوٹ گیا۔ حضرت عمرؓنے فرمایا: تم کو ان کا
ساتھ دینے کی کیا ضرورت تھی؟ تم ان سے زیادہ حق دار ہو، جو کچھ ہماری عزت
ہے وہ خدا کے بعد تم ہی لوگوں کی دی ہوئی ہے۔[الاصابہ، سیر الصحابہ]
عہدِ عثمانی میں
حضرت حسینؓحضرت عثمانؓ کے زمانے میں پورے جوان ہوچکے تھے، چناں چہ سب سے
اول اسی عہد میں میدانِ جہاد میں قدم رکھا اور ۳۰ھ میں طبرستان کی فوج کشی
میں مجاہدانہ شریک ہوئے۔[الاصابہ، سیر الصحابہ] جب حضرت عثمانؓکے خلاف
بغاوت برپا ہوئی اور باغیوں نے قصرِ خلافت کا محاصرہ کرلیا تو حضرت علیؓنے
ان دونوں بھائیوں کو حضرت عثمانؓکی حفاظت پر مامور کیا کہ باغی اندر گھسنے
نہ پائیں۔ چناں چہ حفاظت کرنے والوں کے ساتھ ان دونوں نے بھی نہایت بہادری
کے ساتھ باغیوں کو اندر گھسنے سے روکے رکھا۔ جب باغی کوٹھے پر چڑھ کر اندر
اتر گئے اور حضرت عثمانؓکو شہید کرڈالا اور حضرت علیؓکو شہادت کی خبر ہوئی
تو انھوں نے دونوں بھائیوں سے نہایت سختی کے ساتھ باز پرس کی کہ تمھارے
ہوتے ہوئے باغی کس طرح اندر گھس گئے؟ [تاریخ الخلفاء، سیر الصحابہ]
فقہ وفتاویٰ
قضا وافتا میں حضرت علیؓکا پایہ تمام صحابہؓمیں بلند تھا۔ اس موروثی دولت
میں حضرت حسینؓکو بھی وافر حصہ ملا تھا۔ چناں چہ ان کے معاصر ان سے استفسار
کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ابن زبیرؓکو جو عمر میں ان سے بڑے اور خود بھی
صاحبِ کمال بزرگ تھے، قیدی کی رہائی کے بارے میں استفسار کی ضرورت ہوئی تو
انھوں نے حضرت حسینؓکی طرف رجوع کیا اور ان سے پوچھا: ابوعبداللہ قیدی کی
رہائی کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے؟ اس کی رہائی کا فرض کس پر عائد ہوتا
ہے؟ انھوں نے فرمایا: ان لوگوں پر جن کی حمایت میں وہ لڑا ہو۔اسی طرح ایک
مرتبہ ان کے شیر خوار بچے کے وظیفے کے بارے میں استفسار کی ضرورت ہوئی تو
اس میں بھی انھوں نے حضرت حسینؓکی طرف رجوع کیا۔ آپؓنے بتایا کہ پیدائش کے
بعد ہی جب سے بچہ آواز دیتا ہے وظیفہ واجب ہوجاتا ہے۔اسی طریقے سے کھڑے
ہوکر پانی پینے کے بارے میں پوچھا؛ آپؓنے اس سوال پر اسی وقت اونٹنی کا
دودھ دُہاکر کھڑے کھڑے پیا۔ آپ کھڑے ہوکر کھانے میں بھی مضائقہ نہ سمجھتے
تھے، چناں چہ بھنا ہوا بکری کا گوشت لے لیتے اور کھاتے کھلاتے چلے جاتے
تھے۔ (اغلب یہ ہے کہ آپؓکا یہ عمل ان اعمال کے جواز کو ثابت کرنے کے لیے
تھا۔ واللہ اعلم)
آپؓ کے تفقہ کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ ، حضرت امام
باقرؒ کے شاگرد تھے اور حدیث وقفہ میں ان سے بہت کچھ استفادہ کیا تھا اور
دینی علوم میں امام باقرؒ کو سلسلہ بہ سلسلہ اپنے اسلاف کرام سے بڑا فیض
پہنچا تھا۔[سیر الصحابہ]
خطابت و شاعری
ان مذہبی کمالات کے علاوہ حضرت حسینؓاس عہد کے عرب کے مروجہ علوم پر بھی
پوری دستگاہ رکھتے تھے۔ خطابت اس زمانے کا بڑا کمال تھا۔ آپ کے والد
بزرگوار حضرت علیؓاپنے عہد کے سب سے بڑے خطیب تھے۔’نہج البلاغہ‘ کے خطبات
آپ کے کمالِ خطابت پر شاہد ہیں۔ حضرت حسینؓکو بھی اس موروثی کمال سے وافر
حصہ ملا تھااور ان کا شمار اس عہد کے ممتاز خطیبوں میں ہوتا تھا۔ادب اور
تذکرہ وتراجم کی کتابوں میں آپ کی جانب بہت سے حکیمانہ اشعار بھی منسوب
ہیں لیکن ان کی صحت مشکوک ہے۔ [سیر الصحابہ]
صدقات وخیرات
مالی اعتبار سے آپؓکو خدا نے جیسی فارغ البالی عطا فرمائی تھی، اسی فیاضی
سے آپؓاس کی راہ میں خرچ بھی کرتے تھے۔ ابن عساکر لکھتے ہیں کہ حضرت
حسینؓخدا کی راہ میں کثرت سے خیرات کرتے تھے، کوئی سائل کبھی آپؓکے دروازے
سے ناکام نہ واپس ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک سائل مدینے کی گلیوں میں پھرتا
پھراتا ہوا درِ دولت پر پہنچا۔ اس وقت آپؓنماز میں مشغول تھے۔ سائل کی صدا
سن کر جلدی جلدی نماز ختم کرکے باہر آئے۔ سائل پر فقر وفاقے کے آثار نظر
آئے، اسی وقت قنبر خادم کو آواز دی۔ قنبر حاضر ہوا۔ آپ نے پوچھا: ہمارے
اخراجات میں سے کچھ باقی رہ گیا ہے؟ قنبر نے جواب دیا: آپ نے دو سو درہم
اہلِ بیت میں تقسیم کرنے کے لیے دیے تھے، وہ ابھی تقسیم نہیں کیے گئے ہیں۔
فرمایا: اس کو لے آؤ، اہلِ بیت سے زیادہ ایک مستحق آگیا ہے۔ چناں چہ اسی
وقت دو سو درہم کی تھیلی منگا کر سائل کے حوالے کردی اور معذرت کی کہ اس
وقت ہمارا ہاتھ خالی ہے، اس لیے اس سے زیادہ خدمت نہیں کرسکتے۔ حضرت علیؓکے
دورِ خلافت میں جب آپ کے پاس بصرہ سے آپ کا ذاتی مال آتا تھا تو آپ اسی
مجلس میں اس کو تقسیم کردیتے تھے۔[سیر الصحابہ]
وقار وسکینہ
سکینت اور وقار آپؓکا خاص وصف تھا۔ آپ کی مجلس وقار اور متانت کا مرقع
ہوتی تھی۔ حضرت معاویہؓ نے ایک شخص سے حضرت حسینؓکی مجلس کا پتہ بتایا کہ
جب تم رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں داخل ہو تو وہاں لوگوں کا ایک حلقہ نظر آئے
گا۔ اس حلقے میں لوگ ایسے سکون اور خاموشی سے بیٹھے ہوں گے کہ گویا ان کے
سر پر چڑیاں بیٹھی ہوئی ہیں۔ یہ ابو عبداللہ (حسینؓ) کا حلقہ ہوگا۔کمال یہ
ہے کہ اس وقار وسکینہ کے باوجود تمکنت وخود پسندی مطلق نہ تھی اور آپؓحد
درجے خاک سار اور متواضع تھے۔ ادنیٰ ادنیٰ اشخاص سے بے تکلف ملتے تھے۔ ایک
مرتبہ کسی طرف جارہے تھے، راستے میں کچھ فقرا کھانا کھارہے تھے۔ حضرت
حسینؓکو دیکھ کر انھیں بھی مدعو کیا۔ ان کی درخواست پر آپؓفوراً سواری سے
اتر پڑے اور کھانے میں شرکت کرکے فرمایا کہ تکبر کرنے و الوں کو خدا دوست
نہیں رکھتا اور ان فقرا سے فرمایا کہ میں نے تمھاری دعوت قبول کی ہے، اس
لیے تم بھی میری دعوت قبول کرو اور ان کو گھر لے جاکر کھانا کھلایا۔ [سیر
الصحابہ]
|