تاریخ اقوامِ عالم میں ادب اور ادیب کا بہت اہم کردار رہا
ہے۔ادب نہ صرف قوموں کی تہذیب،معاشرت،اخلاقی قدروں،انسانی جذبات اور
احساسات کے اظہار کا ذریعہ ہے بلکہ ایک زبردست انقلابی قوت بھی ہے۔ دنیا
بھر کے دانش ور اور ادیب ،اپنے قلم سے،اپنے افکارو نظریات کی ترویج کرکے
انسانی معاشروں کو متاثر کرتے ہیں۔ ادب سے مراد ایسی تحریر یا کلام ہے جس
میں اتنی خوب صورتی اور تاثیر پائی جاۓ کہ پڑھنے والے کا عمل بدل جاۓ۔
اگر ہم برصغیر پاک و ہند کی تاریخ پہ نگاہ ڈالیں تو جہاں محمد علی جوہر کے
قلم نے غیرت_ ملی کو اجاگر کیا ،وہیں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے اپنی ولولہ
انگیز شاعری کے ذریعے سے امت_مسلمہ کو خواب_غفلت سے بیدار کیا،مسلمانوں کو
آئینہء حالات دکھا کر ان کے امراض کی درست تشخیص بھی کی اور حکیم الامت بن
کر ان کے امراض کا علاج بھی کیا،فرمایا:
~وہ کل کے غم وعیش پہ کچھ حق نہیں رکھتا
جو آج خود افروز جگر سوز نہیں ہے
علامہ اقبال نے اپنے حکیمانہ کلام میں پوری دل سوزی اور درد مندی کے ساتھ
اسلامی عقائد و افکار کی عکاسی کی ،قوم کو اپنا نصب العین معلوم ہوگیا اور
وہ میدان_عمل میں اتر آئی ۔فرمایا:
عشقِ بتاں سے ہاتھ اٹھا،اپنی خودی میں ڈوب جا
نقش و نگار _دیر میں خون_جگر نہ کر تلف
مثل_کلیم ہو اگر معرکہ آزما کوئ
اب بھی درخت_ طور سے آتی ہے بانگِ لا تخف ۔
ہر دور میں انسانوں کی بھلائی ، خوش حالی اور مسائل کے حل کے خواب سب سے
پہلے ادیبوں اور دانش سروں نے ہی دیکھے ہیں لیکن ادیب اور لکھاری میں اتنی
اخلاقی جرات ضرور ہونی چاہئے کہ جو مشاہدہ اس کی آنکھ کرتی ہے ، جو اس کا
دل محسوس کرتا ہے اور جو کش مکش ،اس کے شعور اور ضمیر میں برپا ہوتی ہے،اسے
پوری دیانت داری کے ساتھ قارئین تک پہنچاسکے۔
بر صغیر کے صف_ اول کے ادیبوں میں سید ابوالاعلی' مودودی بھی ہیں ،ان کی
تحریر کردہ کتب نے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کیا۔“عالمی
ادب میں تغیرات اور معاشرت پر اس کی اثر انگیزی “ کے موضوع پر سید
ابوالاعلی' مودودی لکھتے ہیں:
“لٹریچر )یعنی ادب ( پیش قدمی کرتا ہے ،راۓ عامہ اس کے پیچھے آتی ہے۔آخر
میں اجتماعی اخلاق Social Ethics سوسائٹی کے ضوابط اور حکومت کے قوانین سب
تابع ہوجاتے ہیں”۔انھوں نے اپنی کتاب “پردہ” میں لکھا کہ“ ہمارے خیال میں
ایک مسلم ادیب کے نزدیک ادب ،اظہار_ حسن و ذوقِ جمال محض تفریح_ طبع اور
آزادیء اظہار کا ذریعہ ہو ہی نہیں سکتا ،چوں کہ وہ اس بات کا ادراک رکھتا
ہے اور اسے رکھنا بھی چاہئیے کہ اس کے قلمی رحجانات،افکار،عنوانات دراصل
سماج کی صورت گری کر رہے ہیں جو قاری کی سوچ ،فکر ،ذوق ،ترجیحات_زندگی
پرلامحالہ اثر انداز ہوتے ہیں” مادہ پرستی ، ظاہری ٹیپ ٹاپ اور منافقت کے
حالات میں ہر صاحبِ بصیرت اور شعور کو ادراک ہونا چاہئے کہ ہمارے بچے اور
نوجوان ،الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے دور میں ،اچھی کتابوں ،اچھی
بلاگ سائٹس،اچھی سرگرمیوں کے پہلے سے زیادہ ضرورت مند ہیں۔اس دور میں ہر
صاحبِ قلم کو ایسا ادب تخلیق کرنے کی ضرورت ہے جو مسلم معاشرے میں مہذب
روئیے ،صبروتحمل ،اخوت و ہمدردی،زبان و بیان کا لحاظ،حب الوطنی ،امید
_مستقبل اور فکر_ آخرت کو زندگی کا حاصل سمجھا سکیں۔
ایک چراغ ،ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ
اس کے بعد تو جو کچھ ہے ،سب افسانہ ہے ۔
|