معاشرے ترقی اور علم و ہنر میں کوہ ہمالیہ سر کرنے پر تلا
ہوا ہے لیکن اخلاقی اقدار اتنی ہی تیزی سے روبہ زوال ہیں۔پاتال کی عمیق
گہرائیوں میں کسی طرح جھانکا جائے تو البتہ اعلیٰ انسانی اور اسلامی اقدار
صف ماتم بچھائے بیٹھی نظر آتی ہیں۔
سید عون شیرازی نے بیس لفظوں کی کہانی یوں لکھی
بھوکا تھا اس لئے روٹی چرائی
جج بولا،سزا ملے گی۔
اگلا مقدمہ اربوں کی کرپشن کا تھا
جج مسکرایا،کمیشن بنا دو
انسانی جذبات کی بے بسی کی انتہا دیکھنی ہو تو سعدی شیرازی کی بادشاہ اور
لڑکے والی حکایت بھی بغور پڑھ لیں۔۔۔
گویا منصف ہی جب انصاف کی دھجیاں اڑانے پر تلا بیٹھا ہو تو کسی اور سے کیا
شکایت!!!
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ایک اصول ہمیں دیا تھا،جس کی بنیاد پر وہ روز حشر
مواخذہ فرمائے گا۔۔۔۔ کہ
تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا
ظاہری سی بات ہے،جیسے خود اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بندوں کی اخلاقی و روحانی
اور جسمانی و مادی ،دونوں طرح کی خوراک کا انتظام کیا ہے،اسی طرح وہ ہر ایک
راعی سے بھی اسی بات کا اقتضاء کرتا ہے۔۔۔ جہاں تک خوراک ولباس اور جسمانی
ضروریات کا تعلق ہے وہ تو جانور بھی بقائے نسل کی خاطر اور رحم کے سبب کرتے
ہی ہیں۔۔۔
لہذا عاقل وباشعور اور ارادہ و اختیار کی بنیاد پر فضیلت پانے والے راعی کو
چاہیئے کہ اپنی رعیت کی اخلاقی تربیت کے لئے بھی دن رات ایک کر دے۔۔۔ان کی
بد تمیزیوں کی پشت پناہی کرنے کی بجائے اور ان کی بد اخلاقی کو 'بولڈنیس'
کی چادر میں میں چھپاتے چھپاتے ان کے اخلاق کا جنازہ نکالنے کی بجائے ان کی
اصلاح کے لئے سر گرم عمل ہو جائے۔۔۔
ہر ایک راعی سے التماس ہے کہ نہ تو عون شیرازی کی کہانی میں مذکور جج جیسے
بنیں کہ 'دوغلے' کہلائے جائیں اور نہ ہی سعدی شیرازی کی حکایت میں مذکور
بادشاہ ،جج اور والدین جیسے بنیں،جنھوں نے لڑکے کے لئے سہولت کی کوئی راہ
نہ چھوڑی۔۔۔
خدا کے لئے ،رعایا کے جذبات کو بے بسی کی اس انتہا تک پہچنے سے قبل تھام
لیجئے جب وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں۔ کہ
کسے وکیل کروں ،کس سے منصفی چاہوں
اور اس خدا پر اپنا مقدمہ چھوڑ دیں جس کے ہاں انصاف کی چکی دھیرے دھیرے
چلتی ہے مگر اس کے پاٹوں میں باریک پستا ہے۔۔۔ بھولئے نہیں ، جب بھی شر کی
قوتیں یا بدی ۔۔۔ خیر یا اچھائی کو تنہا کر دیتی ہیں ،اچھائی کو اپنا وکیل
نہی نظر آتا اور خیر حیران ہوتی ہے کہ کس سے منصفی چاہے، اس وقت رب
ذوالجلال کی رحمت جوش میں آتی ہے اور وہ ابراہیم کو حنیف کا خطاب دیتا ہے
اور آتش نمرود سے بچا لیتا ہے۔ لہٰذا جب حق پر ہونے کے باوصف آپ تنہا کر
دیئے جائیں تو رب العالمین سے بد گمان نہ ہوئیے گا، اسی سے استعانت طلب
کیجئے گا اور استقامت سے خیر کی حفاظت کیجئے گا۔۔۔ یقیناً اللہ تعالیٰ آپ
کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی ،جو اس کے لئے کی ہو گی، آپ کے نامہ اعمال میں
درج کرنا نہ بھولے گا کہ تیرا رب بھولتا نہیں ہے۔
اللہ ہمیں اپنی ذمہ داریوں سے بحسن وخوبی بری الزمہ ہونے کی توفیق عطا
فرمائے ۔۔۔ ا'مین
|