اب دلہن نہیں رشتے دار روتے ہیں… وہ خرافات جن کے بغیر آج شادی ادھوری سمجھی جاتی ہے

image
 
ایک طرف ہماری عوام مہنگائی کا رونا روتی ہے لیکن دوسری جانب شادی بیاہ کی تقریبات کو دیکھیں تو آپکو اسراف اور نمود و نمائش کی عمدہ مثالیں ملیں گی۔ ان تقریبات کے پیچھے خرچوں کو اتنا بڑھا لیا گیا ہے کہ اب اس پر قابو پانا ناممکن ہی لگتا ہے۔ شادی ایک مقدس اور خوبصورت بندھن ہے جس میں دو اجنبی لوگ ایک دستاویز کے زریعے ساری زندگی ساتھ نبھانے کا وعدہ کرتے ہیں۔ اسے سادہ طریقے سے بھی انجام دیا جاسکتا ہے شادی کے دو یا تین دن کے کھانوں پر بھی سمیٹا جا سکتا ہے لیکن یہ قدم کون اٹھائے؟ اپنے مؤقف کی وضاحت کے لئے آج کی شادی کی تقریبات کا جائزہ لیتے ہیں یہ دیکھنے کے لئے کہ کونسی تقریبات اضافی ہیں اور ان کے بغیر بھی شادی ہو سکتی ہے۔
 
زندگی کے آغاز کے لئے دولہا دلہن کے رشتہ دار تقریبات منعقد کرتے ہیں تاکہ اس موقع کو یادگار بنایا جا سکے۔ ہمارے معاشرے میں شادی کی بنیادی تقریبات مایوں، مہندی، بارات اور ولیمہ پر مشتمل تھیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان تقریبات میں مزید اضافہ ہوتا گیا لہٰذا یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اب ایک شادی کی تقریب مہینے پہلے شروع ہو جاتی ہے۔آیا وہ کونسی تقریبات ہیں جو کسی بھی شادی کا لازمی حصہ سمجھی جانے لگ گئی ہیں ۔
 
ڈھولکی:
ڈھولکی میں دلہن یا دولہا کے رشتہ دار ان کے گھر جمع ہوتے ہیں اور گانے اور ڈانس وغیرہ کے زریعے خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اور مہندی کی تقریب کو رنگا رنگ بنانے کے لئے پلاننگ اور تیاریاں کی جاتی ہیں۔ یہ تقریب عموماً جوانوں کے لئے ہوتی ہے۔ اب اس تقریب میں ایک اضافہ یہ بھی ہوگیا ہے کہ دولہا اور دلہن کے قریبی رشتہ دار جیسے نانی دادی ،خالہ پھوپھو، ماموں چچا وغیرہ بھی اپنے گھر میں یکجہتی کے اظہار کے لئے یہ تقریب کرتے ہیں۔ اب اس تقریب میں بھی شادی ہی کی طرح کے انتظامات کئے جاتے ہیں اور فینسی کپڑے پہنے جاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ تقریب غیر ضروری ہے کافی حد تک وقت اور مال کا اسراف اور اضافی بوجھ ہے۔
 
برائیڈل شاور:
یہ تقریب مغرب سے لی گئی ہے۔ اس میں دلہن کی کزنز اور سہیلیاں اس کی شادی سے پہلے والی زندگی کو انجوائے کرنے کے لئے جمع ہوتی ہیں۔ مغرب میں تو شادی کی ایک تقریب ہوتی ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ اس تقریب کی گنجائش ہے لیکن پاکستان میں تو اس کی کوئی ضرورت نہیں محسوس ہوتی یہ جوانوں کی مغرب کی تقلید کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم تو پہلے ہی برصغیر سے لی گئی تقریبات میں پھنسے ہوئے تھے ان کو کم کرنے کی اشد ضرورت ہے ناکہ ان میں مزید اضافہ کیا جائے۔
 
image
 
مایوں:
اسلامی لحاظ سے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے شاید یہ سوسائٹی کی روایات کے طورپر لی گئی ہے۔ مایوں سے شادی کی اصل تقریبات کا آغاز ہوتا ہے یہ فنکشن بھی بڑے پیمانے پر منایا جاتا ہے۔ شادی کی ہر تقریب کے لئے ڈریس کوڈ رکھے جاتے ہیں۔ مایوں کا ڈریس کوڈ پیلا ہوتا ہے اور لوگ پیلے رنگ کے ملبوسات پہنتے ہیں گھر اور تقریب کی جگہ کو پیلے گیندے کے پھولوں سے سجایا جاتا ہے۔
 
مہندی:
مہندی کی تقریب رنگارنگ اور پرجوش ہوتی ہے اب اس کو شندی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کیونکہ اب اس میں بارات کے لیول کی ڈریسنگ کی جاتی ہے۔ یہ جوانوں کا فنکشن ہوتا ہے ڈانس پرفارمنسز اس دن کے لئے تیار کی جاتی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے مہندی میں دولہا دلہن کی اپنی ٹیمیں ہوتی تھیں اور اس تقریب میں گانوں کے زریعے مقابلہ کیا جاتا تھا کہ کونسی پارٹی زیادہ جاندار ہے۔ اب ڈانس پرفارمنسز کے زریعے دکھایا جاتا ہے کہ کونسی پارٹی اچھی پرفارمنس دیتی ہے۔ ویسے یہ تقریب اصل میں پوری شادی کی جان ہوتی ہے۔
 
رخصتی سے پہلے نکاح:
اب نکاح کے لئے بھی رخصتی سے ایک دن پہلے الگ تقریب رکھی جاتی ہے اور عموماُ اس میں ڈریس کوڈ سفید ہوتا ہے۔ ویسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ بھی مغرب کی دلہن کے سفید کپڑوں کی تقلید میں شروع کیا گیا ہے۔ یہ بھی ایک اضافی تقریب محسوس ہوتی ہے۔
 
image
 
بارات یا رخصتی:
بارات کا بھی اپنا ایک ڈریس کوڈ ہوتا ہے اور تمام قریبی مہمانوں کو اس کوڈ کو اپنانا ہوتا ہے۔ پہلے دلہن بھاری کپڑوں میں الگ سے نظر آتی تھی لیکن اب تو دلہا دلہن کے قریبی رشتہ دار خواتین بھاری کپڑوں میں ملبوس ہوتی ہیں پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے کہ دلہن کونسی ہے۔ اس تقریب کو بھی ضرورت سے زیادہ مہنگا کر دیا گیا ہے کہ گمان ہوتا ہے کہ کوئی شاہی تقریب ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک کی دوڑ میں لوگ پھنستے چلے جا رہے ہیں ۔
 
ولیمہ:
مذہبی لحاظ سے تو اس تقریب کی ہی اصل حیثیت ہے ۔ ولیمے کا کھانا سنت ہے ۔یہ بھی بہت بڑے پیمانے پر ہوتا ہے اور یہ شادی کی ایک گرینڈ تقریب کا حصہ ہے۔
 
خوشی منانا منع نہیں ہے ۔امراء کے لئے یہ اخراجات کوئی معنی نہیں رکھتے نقصان صرف مڈل کلاس کا ہے۔ وہ کس طرح قرضوں میں ڈوب کر اپنی اولاد کی خوشیوں کو مدنظر رکھتے ہیں یہ صرف وہ ہی جانتے ہیں ۔ جس گھر میں شادی ہو رہی ہے وہ تو ان اضافی تقریبات کی لپیٹ میں ہیں ہی لیکن ان کے علاوہ خاندان کے دوسرے قریبی رشتہ دار بھی تو اس نمودونمائش کا حصہ ہوتے ہیں تقریبات کو کامیاب بنانے کے لئے انھیں بھی تو ملبوسات اور دوسری فضول رسومات پر بلاوجہ کے خرچے کرنے ہوتے ہیں جبکہ گھر کا بڑا اور کمانے والا رشتے دار خرچے دیکھ کر سر پکڑ کر بیٹھا ہوتا ہے ۔ آخر ہم اپنی ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے اخراجات کو کیوں نہیں قابو میں کر رہے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان روایات کے خلاف اقدامات اٹھائے جائیں اور سادگی کی طرف پیش قدمی کی جائے اسی میں سب کی بھلائی ہے ،اپنی اور دوسروں کی زندگی کو آسان بنائیں ۔
YOU MAY ALSO LIKE: