بیٹے کے مرنے کے بعد بچے ہمارا خون مگر اس کی بیوی کے لیے کوئی جگہ نہیں، معاشرے کی کچھ ایسی روایات جن پر کوئی آواز نہیں اٹھاتا

image
 
معاشرے میں رہنے کے لیے ساتھیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ روز اول سے اللہ تعالیٰ نے انسان کو رشتے کی ڈور سے باندھ دیا تھا اور اس ڈور سے بندھنے کے سبب قدرتی محبت کا بیچ انسان کے دل میں لگا لیا تھا۔ نکاح کے چند بولوں سے میاں بیوی کو محبت کے جس بندھن سے باندھا گیا اس ڈور کو آنے والی اولاد مزید مضبوط کر دیتی ہے۔
 
اولاد کے جوان ہونے پر اس کی شادی کے خواب دیکھنے والے یہ ماں باپ بہو کو گھر پر لے کر آتے ہیں تو محبت کے اس تعلق اور رشتے میں دراڑ پڑنی شروع ہو جاتی ہے۔ وہی بیٹا جو جان سے زيادہ عزیز ہوتا ہے اس کی بیوی ماں کو اپنی سب سے بڑی دشمن لگنے لگتی ہے-
 
ساس بہو کے درمیان جھگڑے کی وجہ
اس بات میں تو کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ساس بہو کے جھگڑے کی سب سے بڑی وجہ ایک مرد ہوتا ہے جو کہ کسی کا شوہر اور کسی کا بیٹا ہوتا ہے اور دونوں عورتوں کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس کو جیت لیں۔
 
image
 
محبت کی اس جنگ میں نفرت نہ جانے کہاں سے آجاتی ہے۔ لیکن یہ نفرت کائنات کی سب سے بڑی حقیقت بن کر اسی فی صد گھرانوں کا سکون برباد کر دیتی ہے۔ ساس کو بہو سے نفرت مگر اس کے بطن سے پیدا ہونے والے بچوں سے انتہا کی محبت بھی ہوتی ہے پوتے پوتیاں جو ان کا خون بھی ہوتے ہیں وہ ان کے خاندان کے وارث ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے بہو سے تمام تر دشمنی کے باوجود یہ بچے ان کے جگر کا ٹکڑے ہوتے ہیں۔
 
بیٹے کے مرنے کے بعد جھگڑا کیسا
یہ کہانی ہمارے ایک عزیز کی ہے۔ لیکن یہ کہانی صرف ایک لڑکی کی کہانی نہیں ہے بلکہ ہمارے معاشرے میں ہمارے اردگرد ایسی یا اس سے ملتی جلتی لاتعداد کہانیاں بکھری ہوئی ہیں۔
 
سعدیہ جس کی شادی احمد کے ساتھ ہوئی، اس شادی کو یک طرفہ محبت قرار دیا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ احمد کی پسند کے سبب اس کے ماں باپ کو ہتھیار ڈالنا ہی پڑے کیوں کہ احمد ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔ بیٹے کی پسند کو مجبوراً بہو بنا کر لے تو آئيں مگر وہ کبھی بھی سعدیہ کو بہو کے طور پر برداشت نہ کر سکیں۔
 
کچھ ہی دنوں کے بعد سعدیہ کو اللہ نے امید لگائی اور پہلی ہی اولاد بیٹے کی صورت میں جب اس کی گود میں آئی تو اس کو لگا کہ اب اس کی ساس کی نفرت میں کمی واقع ہو جائے گی۔
 
مگر پوتے سے بے تحاشا محبت کے باوجود اس کی ماں کو وہ اب بھی نفرت ہی دیتی تھیں۔ اسی دوران اللہ نے ان کے بیٹے کو ایک بیٹی سے بھی نواز دیا، وقت کے ساتھ جتنی احمد اور سعدیہ کی محبت میں اضافہ ہوتا گیا اتنا ہی اس کی ماں کی نفرت سعدیہ کے لیے گہری ہوتی گئی-
 
حادثے نے سب کچھ بدل ڈالا
سعدیہ کی زندگی کی خوشیوں کو کسی کی نظر لگ گئی اسی وجہ سے ایک دن آفس سے آتے ہوئے احمد کی بائک کا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور وہ ماں بیوی اور بچوں کو روتا بلکتا چھوڑ کر اس دنیا سے دور چلا گیا-
 
احمد کی موت کا صدمہ ماں کے لیے بہت شدید تھا۔ اکلوتا جوان بیٹے کے جنازے کو دیکھنا کسی ماں کے لیے آسان نہیں ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بیٹے کی نشانیوں اس کے بیوی بچوں کو اپنے سینے سے لگا لیتیں۔
 
image
 
مگر سعدیہ سے ان کی نفرت نے احمد کی موت کے بعد بھی پیچھا نہ چھوڑا اتنے عرصے تو وہ سعدیہ کو صرف احمد کی وجہ سے برداشت کر رہی تھیں مگر اب یہ بہانہ بھی ختم ہو گیا تھا- احمد کی امی نے سعدیہ کو اس کے شوہر کے سوئم سے اگلے دن ہی گھر سے دھکے دے کر نکال دیا کہ جو تمھیں اس گھر میں لے کر آیا تھا جب وہی نہیں رہا تو تم یہاں رہ کر کیا کرو گی-
 
شوہر کے ساتھ ساتھ بچوں سے بھی جدائی
سعدیہ جس کو عدت کے دوران ہی اس کے سسرال والوں نے گھر سے دھکے دے کر نکال دیا تاکہ احمد کی جائيداد پر قبضہ نہ کر سکے مگر اس کے ساتھ ساتھ جو دوسرا سب سے بڑا ظلم کیا وہ سعدیہ سے اس کے معصوم بچے بھی چھین لینا تھا- چار سالہ بیٹی اور چھ سالہ بیٹے کو یہ کہہ کر اپنے پاس رکھ لیا کہ یہ ہمارا خون ہیں تم ان کو میکے سے تو ساتھ نہیں لائی تھیں۔
 
معاشرے کی بے حسی
ایمان کا سب سے کمزور درجہ احادیث کی رو سے یہ ہے کہ انسان بیماری کو ہوتے دیکھے اور اس کو روکنے کی کوشش نہ کرے۔ سعدیہ کے ساتھ ظلم کی یہ داستان ہوتے سب نے دیکھی، اس کو روتا بلکتا گھر سے دھکے کھا کر نکلتے سب سے نے دیکھا مگر اس کو روکنے کی کوشش کسی نے نہ کی کیوں کہ احمد کے گھر والے امیر اور صاحب رسوخ لوگ ہیں-
 
ایسے کتنے ہی واقعات اکثر ہماری نظروں کے سامنے سے گزرتے ہیں جو کہ ایک جانب دین و مذہب کے خلاف ہوتے ہیں اور دوسری جانب ملکی قانون کے خلاف بھی ہوتے ہیں مگر بدقسمتی سے قانون بھی اب صرف امیروں اور طاقتوروں کے لیے رہ گیا ہے-
 
معاشرے سے سوال!
کیا ہمارے نبی نے یتیموں اور بیواؤں سے نیک سلوک کرنے کا حکم نہیں دیا؟ کیا بیٹے کی بیوہ کے بیٹے کی موت کے بعد سسرال سے سارے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں- کیا اولاد ددھیال والوں کا خون ہوتی ہے ان کی ماں کا ان پر کوئی حق نہیں ہوتا ہے؟ ایسے بہت سارے سوال ہمارے اردگرد موجود ہیں مگر ہم ان سے آنکھ چرا کر گزر جاتے ہیں کیوں کہ ہم ان کے جواب تلاش کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔
YOU MAY ALSO LIKE: