وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ

شیخ سعدی ؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک جنگ میں قبیلہ طے کے چند قیدی رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کئے گئے چونکہ اُن لوگوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا تھا اور فسادبرپا کیا تھا حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کے قتل کا حکم دے دیا اُن قیدیوں میں حاتم طائی کی بیٹی بھی شامل تھی اُس نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ میں حاتم طائی کی بیٹی ہوں ،میرا باپ اہل کرم میں سے تھا اس لیے آپ بھی مجھ پر کرم فرمائیں حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ اسے آزاد کردو لیکن جب دوسرے قیدی قتل کئے جانے لگے تو حاتم طائی کی بیٹی نے لجاجت سے کہا کہ میں رہائی نہیں چاہتی مجھے بھی ان کے ساتھ قتل کردیجئے میں اسے شرافت سے بعید سمجھتی ہوں کہ میں رہا ہوجاﺅں اور میرے ساتھیوں کی گردن مار دی جائے حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کی گفتگوسنی تو سب قیدیوں کی جان بخشی کردی اور انہیں اپنے گھر واپس جانے کی اجازت دے دی ۔

قارئین آج پوری دنیا میں عورتوں یعنی صنف نازک کے حقوق کے حوالے سے ایک سے بڑھ کر ایک چیمپئن ایک سے بڑھ ایک بڑھک مارنے میں مصروف ہے اقوام متحدہ سے لے کر پوری دنیا میں پھیلی ہوئی لاکھوں این جی اوز کا نیٹ ورک یہ باور کروانے میں مصروف ہے کہ اُن سے بڑھ کر خواتین کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والا کوئی دوسرا نہیں ہے لیکن یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ صنف نازک کو جو احترام ،حقوق ،تحفظ اور شرف اسلام اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد عالیہ نے بخشا اس کی نذیر ماضی کے تمام مذاہب ،حال کی انسانی حقوق کی تمام چیمپئن تنظیمیں پیش کرنے سے قاصر ہیں اور مستقبل میں بھی کوئی بھی نظریہ اس شرف کی پیروی کیے بغیر خواتین کو وہ حقوق نہیں دے سکتا جو اسلام نے دیے ۔

یہ اسلام ہی تھا کہ جس نے زندہ درگو ر کردی جانے والی صنف نازک کو یہاں تک مقام دیا کہ اولاد کو کہہ دیا گیا کہ اُن کی جنت اُن کی ماﺅں کے قدموں تلے ہے ،نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرما دیا کہ جس نے اپنی بیٹیوں کی اچھی طرح پرورش کی انہیں تعلیم دلائی اورا نہیں عزت کے ساتھ پال پوس کر جوان کیا اُس کے لیے جنت واجب ہے ۔

اسلام سے پہلے عرب معاشرے میں عورت پاﺅں کی جوتی تھی اور دیگر معاشروں میں عیاشی اور نمائش کا ایک زریعہ سمجھی جاتی تھی آج اگر ہم پاکستان سمیت دنیا بھر کے نیم مہذب معاشروں کو دیکھتے ہیں تو ان معاشروں میں عورت ایک مرتبہ پھر پاﺅں کی جوتی بن چکی ہے اور نام نہاد ترقی یافتہ معاشروں کی دیکھتے ہیں تو وہاں عورت ایک مرتبہ پھر عیاشی اور نمائش کا کھلونا بن چکی ہے پاکستان میں جاگیردار گھرانوں میں جائیداد اور زمینوں کی خاطر بنت ِحوا کا استحصال کیا جاتا ہے اور غریب گھرانوں میں عورت معاشی جبرکا شکار ہو کر محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہے جبکہ متوسط گھرانوں میں مرد کی حکمرانی کی وجہ سے یہ جسمانی تشدد کا شکار ہے ۔ اسلام ان تمام استحصالی اشکال کی پرزور مذمت کرتا ہے ۔

جبکہ دوسری انتہاءکی طرف دیکھیں تو برطانیہ ، یورپ ، امریکہ ، سکینڈے نیوین ممالک اور دیگر نام نہاد ترقیاتی معاشروں میں عورت کو تعیش اور نمائش کا ایک کھلونا بنا کر رکھ دیا گیا ہے اور آزادی کے نام پر عورت کو گھر سے نکال کر بازار کی زینت بنا دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ ان معاشروں میں خاندان بکھرتے جا رہے ہیں ، شادی کا تصور ناپید ہوتا چلا جا رہا ہے ، ناجائز بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور نفسیاتی بیماریاں بڑھتی جا رہی ہیں اور ان معاشروں کے دانشور یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ہمیں اپنی پالیسیز پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔

قارئین عورت کا جو مقام اسلام اور نبی کریمﷺ نے طے فرمایا ہے وہ سخت سے سخت دل رکھنے والے انسان کو بھی اشک بار ہونے پر مجبور کر دیتا ہے ۔ اسلام کے نزدیک عورت حضرت فاطمہ ؓ ہیں کہ جب وہ تشریف لاتی ہیں تو نبوت ان کے استقبال کےلئے اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور حضرت محمدﷺ ان کے لئے اپنی چادر بچھا دیتے ہیں ، عورت حضرت خدیجہ ؓ اور حضرت عائشہؓ ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے مثال قائم فرما دی کہ ازدواج کے ساتھ حسن سلوک کیا ہوتا ہے ، عورت ماں ، بہن ، بیوی ، بیٹی کے رشتوں کا نام ہے اور ہر رشتہ اپنی جگہ مقدس اور محترم ہے ۔

قارئین بد قسمتی سے مغربی معاشرت کے ظاہری رنگوں اور آب و تاب سے متاثر ہو کر کچی ذہنیت رکھنے والے ہمارے کچھ لوگ سقراط اور افلاطون بنتے ہوئے بڑے آرام سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ مغرب میں عورت کو جو حقوق حاصل ہیں مشرق اور پاکستان میں بھی عورت کو وہ حقوق ملنے چاہئیں، یہ لوگ یہ تجزیہ کرنے سے قاصر ہیں کہ مغربی تہذیب و تمدن اس وقت شدید ترین کرائسز سے گزر رہی ہے اور بقول اقبال ۔
تمہاری تہذیب اپنے ہاتھوں سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ ِنازک پہ آشیانہ بنے گا ، ناپائیدار ہو گا

مغربی آزادی کی وجہ سے عملاً صورتحال یہ ہے کہ سکول جانے والی 16سال سے کم عمر 90فیصد سے زائد بچیاں شادی سے پہلے ہی جنسی عمل سے گزر جاتی ہیں ، 40فیصد سے زائد عورتیں شادی کے بغیر جنسی زندگی گزارنا ایک نارمل فعل سمجھتی ہیں ، شادی شدہ عورتیں اپنے شوہر کے علاوہ بوائے فرینڈز رکھنا کوئی عار نہیں سمجھتیں اور ان سب کاموں کے بعد یہ معاشرے دنیا کی بلند ترین طلاق کی شرح رکھنے والے معاشرے بن چکے ہیں ۔

جبکہ دوسری جانب جب ہم دوسری پستی کو دیکھتے ہیں تو پاکستان میں نظر آتا ہے کہ جائیداد بچانے کےلئے عورت کی شادی قرآن سے کر دی جاتی ہے ، اسے کاری قرار دیکر جاہلانہ جرگے کے ذریعے قتل کر دیا جاتا ہے ، اس پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے ،اس پر کتے چھوڑ دیئے جاتے ہیں اور دیگر ناقابل بیان ظلم و تشدد کیا جاتا ہے ۔

پستی کی یہ دو انتہائیں آج پکار پکار کر یہ اعلان کر رہی ہیں کہ اسلام نے جو عورت کو ایک مقام دیا تھا اس کا حصول ہی عورت کی معراج ہے ۔
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

عورت انسانیت کےلئے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ تحفوں میں سے سب سے بڑا تحفہ ہے اور دنیا کی حسنات میں سے ایک ہے اس کی قدر ایک بہادر اور شریف انسانی ہی کر سکتا ہے اور نا قدری کرنے والا بلاشبہ بزدل اور کمینہ کہلانے کا مستحق ہے۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
شادی کے چھ ماہ بعد میاں بیوی میں جھگڑا ہو گیا غصے سے بے قابو ہو کر شوہر نے بیوی کی کمر پر گھونسہ رسید کر دیا ۔ اتفاق سے ایک مولوی صاحب وہاں سے گزر رہے تھے انہوں نے کھڑکی میں سے گھونسہ پڑتے دیکھا فوراً بیچ بچاﺅ کرانے کےلئے دوڑ پڑے اور قہر آلود نظروں سے میاں موصوف کی جانب دیکھتے ہوئے ابھی کچھ کہنے ہی والے تھے کہ میاں نے سنبھل کر بیوی کی کمر پر ایک اور زور دار گھونسہ رسید کیا اور گرجدار آواز میں بولے ” اب بھی نماز پڑھنے میں سستی کرو گی “

قارئین سوچ کا مقام ہے اور فکر کی گھڑی ہے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا حال اور مستقبل روشن ہو تو ہمیں سب سے پہلے اپنے معاشرے میں عورت کا احترام اور مقام بحال کرنا ہو گا۔ ہمیں اپنی سوچ اور نظروں کی تطہیر کرنا ہو گی ۔۔۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374303 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More