ہمارا قافلہ جب عزم و یقین سے نکلے گا
تو آسمان کا سورج زمین سے نکلے گا
اے خاکِ وطن ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقیں ہے کہ پانی یہیں سے نکلے گا
میرے سامنے بہت سی تصویریں محوِ رقص ہیں۔ان میں سے ایک تصویرمری کے المناک
حادثے میں شہید ہونے والے ان بچوں کی ہے جو چیخ ،چیخ کر حکمرانوں سے سوال
کر رہے ہیں کہ آخر ہمیں بچانے کی کوشش کیوں نہ کی گئی۔ایک تصویر حالیہ
سیلاب کے ریلے میں بہ جانے والوں کے لواحقین کی ہے جو بروقت امداد نہ ملنے
کی وجہ سے اپنے پیاروں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اس طرح کی بہت سی تصویریں ،بہت سی کہانیاں ہمارے ارد گرد رقص کرتی ہیں اور
یہ سوال کرتی ہیں کہ اے بلند وبانگ دعوے کرنے والو ! بتاؤ کیا یہ وہی دیس
ہے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا؟اے آزادی کے نعرے لگانے والو !
بتاؤ کیا یہ وہی دیس ہے جس کی آزادی کی خاطر علماء نے اپنی جانوں کے نذرانے
پیش کیے تھے ۔تو ہمارے پاس ان سوالات کے جواب میں سوائے شرمند گی کے اور
کچھ نہیں ہے۔
اگر ہم اس دیس کے ماضی اور حال کے مناظر کو اپنے سامنے رکھ کر گہری نظروں
سے جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ وہ دھرتی جہاں کے عظیم سپوت اپنے دیس
کی خاطر جاں ہتھیلی پہ لیے گھومتے تھے آج اسی دھرتی کا جواں اپنے دیس کو
سنوارنے کی بجائے خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا ہے۔
ہمیں معلوم ہو گا کہ اس دیس کا وہ عظیم پرچم جس کو سربلند رکھنے کے لیے کئی
سر کٹ گئے ،آج وہی سبز ہلالی پرچم یومِ آزادی کی شام کو ندی نالوں کی زینت
بنا اپنینا قدری کا ماتم کرتا نظر آتا ہے۔اور انتظار کرتا رہتا ہے اقبال کے
ان شاہینوں کا،مستقبل کے ان معماروں کا کہ وہ کب اسے اٹھائیں گے اور سینے
سے لگائیں گے۔
لیکن افسوس صد افسوس ا قبال کے وہ شاہین جنہوں نے اس پرچم کے وقار کو بلند
رکھنا تھا آج وہ اس پرچم کو قدموں تلے روندتے نظر آتے ہیں، مستقبل کے وہ
معمارجنہوں نے قوم میں جذبہ حب الوطنی بیدار کرنا تھا آج ان کا اپنا جذبہ
صرف چند نعروں اور مخصوص ایام تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، جناب والا! اقبال
کا وہ شاہین جس نے اپنی بلند اڑان سے دشمنوں کے دانت کھٹے کرنے تھے آج وہ
اغیار کی غلامی کا طوق گردن میں ڈال کر اپنی پرواز بھول چکا ہے۔
آخر کب تک؟ کب تک یہ دیس ہماری وجہ سے پستی کا شکا رہوتا رہے گا۔عرصہ دراز
سے یہ چمن ہماری نادانیوں کی وجہ سے اجڑتا چلا جا رہا ہے۔لیکن اب نہیں، اب
ہمیں اس چمن کو مزید اجڑنے سے روکنا ہو گا۔
اگر ہم اس صورتحال کا حل حکمرانوں سے پوچھیں تو ان کا ایک ہی جواب ہوگاکہ’’
ہمیں حکمران چن لو ہم ملک کو بچا لیں گے‘‘۔ لیکن اب ہمیں اس دھوکے سے نکلنا
ہوگا۔
اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہمیں اپنی گردنوں سے اغیار کی غلامی کا طوق نکال کر
ایک محمد عربیﷺ کی غلامی کا طوق ڈالنا ہو گا ۔اور مجھے آپ کو ہم سب کو مل
کر قدم سے قدم ملا کر اپنی مدد آپ کے تحت اس دیس کو بچانا ہو گا۔آج ہمیں اس
دیس کی خاطر....اپنے دیس کی خاطر خواب غفلت کی چادر کو اتار کر پھینکنا ہو
گا اور اس عزم کے ساتھ اٹھنا ہو گا کہ
اس ڈوبتی کشتی کو ہمیں پار لگانا ہے
یہ دیس ہمارا ہے اسے ہم نے سنوارنا ہے...... |