اٙدائے ابراہیم و دُعائے ابراہیم !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورٙةُالمُمتحنة ، اٰیت 4 تا 6 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھقُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
قد
کانت لکم
اسوة حسنة فی
ابرٰھیم والذین معہ اذ
قالوا لقومھم انا برءٰوؑا منکم
و مما تعبدون من دون اللہ کفرنا
بکم و بدا بیننا و بینکم العداوة و البغضاء
ابدا حتٰی توؑمنوا باللہ وحدہ الا قول ابرٰھیم لابیہ
لاستغفرن لک و ما املک لک من اللہ من شئی ربنا علیک
توکلنا و الیک انبنا و الیک المصیر 4 ربنا لا تجعلنا فتنة للذین
کفروا و اغفرلنا انک انت العزیز الحکیم 5 لقد کان لکم فیھم اسوة
حسنة لمن کان یرجوا اللہ و الیوم الاٰخر و من یتول فان اللہ ھو الغنی
الحمید 6
اے اہلِ ایمان ! ایمان و جان کے جن رشتوں کی بقا کے لئے تُم سر گرمِ عمل ہو اُن رشتوں میں توازن قائم کرنے کے لئے تُمہارے سامنے پہلی مثال ابراہیم اور اُس کی جماعت کا طرزِ عمل اور آخری مثال اپنے نبی کی سیرت اور اُس پر نازل ہونے والی کتابِ بصیرت ہے اور تُم جانتے ہو کہ جب اللہ کے قانون اور رشتہِ خون کی یہی آزمائش ابراہیم پر آئی تھی تو اُس نے اپنے خاندان کی بُت پرستی سے علیحدگی کا اعلان کر دیا تھا اور اُس نے اپنے خاندان سے صاف صاف کہدیا تھا کہ تُم جس وقت تک اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہیں لاوؑ گے اُس وقت تک تُمہارے نفرت بھرے دل حق محبت کے لئے کی نہیں کُھلیں گے اور اُس نے اپنے باپ سے جو ایک اضافی بات کہی تھی وہ یہ تھی کہ اللہ کے سامنے اگرچہ مُجھے کسی بات کا اختیار نہیں ہے لیکن میں اپنی اِس بے اختیاری کے با وجُود بھی آپ کی ہدایت کے لئے اپنے اللہ سے دُعا کرتا رہوں گا کیونکہ ہم سب نے اللہ کی طرف رجوع کرنا ہے اور اللہ کو اپنے اعمال و افعال کا جواب دینا ہے اِس لئے میں اللہ سے یہی دُعا کرتا ہوں کہ اہلِ کفر نے ہمیں جس آزمائش میں ڈال دیا ہے وہ اپنی قُوت و قُدرت سے ہمیں اُس آزمائش سے نکال دے اور اہلِ ایمان کو اِس بات کا یقین ہونا چاہیئے کہ جس انسان کا اللہ پر ایمان اور یومِ قیامت پر یقین ہے اُس کے لئے ابراہیم کا طرزِ عمل ایک اعلٰی ترین مثال ہے اور جو انسان اِس اصول سے اعراض کرتا ہے تو اُس کے اِس اعراض سے اللہ کی عظمت و شان میں کوئی فرق نہیں آتا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کی پہلی تین اٰیات میں ہجرتِ مکہ اور فتحِ مکہ کی اُس درمیانی مُدت کے اُن مُشکل حالات کا ذکر کیا گیا تھا جن مُشکل حالات سے مکے سے نکل جانے والے اور مکے میں رہ جانے والے مُسلمان گزر رہے تھے اور اُس وقت جو مُسلمان مکے سے نکل چکے تھے اُن کی جان پر بنی ہوئی تھی اور جو مُسلمان مکے میں رہ گئے تھے اُن کے ایمان و جان دونوں پر ہی بنی ہوئی تھی اور یہ وہ مُشکل گھاٹ تھا جس کی اُس مُشکل گھاٹی سے مکے سے نکل جانے اور مکے میں رہ جانے والے دونوں اٙطراف کے مُسلمان گزر رہے تھے ، اِس سُورت کی پہلی تین اٰیات کے اُس پہلے مضمون کے بعد اِس سُورت کی موجودہ اٰیات کے موجُودہ مضمون میں اِن حالات سے گزرنے والے انسان کی اِس نفسیاتی کیفیت پر بحث کی گئی ہے کہ انسان اپنی ذات اور اپنی جماعت کے ساتھ جس مُشکل وقت میں جس مُشکل گھاٹ کی جِس مُشکل گھاٹی سے گزر رہا ہوتا ہے اُس وقت اُس نے بہر حال اپنی اُسی ذاتی و جماعتی طاقت و لیاقت کے ساتھ اُس سے گزرنا ہوتا ہے جو طاقت و لیاقت اُس مُشکل وقت میں اُس کی ذات اور اُس کی جماعت کے پاس موجُود ہوتی ہے لیکن انسان اپنی اِس محدُود طاقت کو جاننے کے باوجُود بھی اُس مُشکل وقت اگر کہیں سے کوئی حوصلہ افزا آواز سُن لیتا ہے تو اُس سے اُس کا وہ محدُود حوصلہ لامحدُود ہو جاتا ہے ، اسی لئے زمین کے ہر خطے کے انسان ہمیشہ ہی اپنی جنگ میں اُن جنگی نغموں اور اُن حوصلہ افزا نعروں کا اہتمام کرتے ہیں جن جنگی نغموں اور جن جنگی نعروں سے اُن کی ذات اور اُن کی جماعت اُس عزم و ہمت کے ساتھ آگے بڑھتی ہے کہ اُس کی منزلِ مقصود خود ہی چل کر اُن کے قدموں میں آجاتی ہے ، انسان کے یہ انسانی خیال و اعمال اِن خارجی اٙمثال سے اِس لئے جِلا پاتے ہیں کہ اِن اٙمثال سے انسان کو بڑی حد تک اِس اٙمر کا یقین ہو جاتا ہے کہ جس مُشکل کام کو اُس جیسا کوئی دُوسرا انسان اپنی ایک مُختصر سی جماعت کے ساتھ اٙنجام دے سکتا ہے تو وہ بھی اُس مُشکل کام کو اپنی ایک مُختصر سی جماعت کے ساتھ اٙنجام دے سکتا ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ اُس انسان کے پاس اپنی اٙصل قُوت وہی قُوت ہوتی ہے جو اُن حالات میں اُس کے پاس بالفعل موجُود ہوتی ہے ، اگر اِس سیاسی و نفسیاتی صورتِ حال کو پیش نظر رکھ کر دیکھا جائے تو اٙصحابِ محمد علیہ السلام تاریخ کے اُس خاص زمانے میں اُن حالات کے جس گھاٹ کی جس مُشکل گھاٹی سے گزر رہے تھے اُس گھاٹ اور گھاٹی سے گزرنے کی اٙصل قُوت تو اُن کے دین و ایمان کی وہی قُوت تھی جو اُس وقت اُن کے پاس موجُود تھی لیکن اُن کو اعدائے دین کے مقابلے میں اٙدائے ابراہیم کی جو مثال دی گئی تھی وہ مثال اُن کے لئے اُن کی وہی خارجی و خیالی قُوت تھی جس خارجی و خیالی قُوت کے نقشِ خیال نے اُن کی قُوت میں وہ غیر معمولی اضافہ کر دیا تھا جو فتحِ مکہ سے پہلے ہی غیر معمولی طور پر اُن کے دلوں میں راسخ ہو چکا تھا اور اُن کے اِس قلبی رسوخ سے یہ اٙمر بھی اُن پر واضح ہو گیا تھا کہ حق و باطل کی اِس جنگ میں اصل چیز اہلِ مکہ کے ساتھ اُن کے خُون کا رشتہ نہیں ہے بلکہ اصل رشتہ اللہ کے اُس آسمانی قانُون کے ساتھ اُن کا وہ رشتہ ہے جو رشتہ اُنہوں نے اُس آسمانی قانُون کے ساتھ قائم کیا ہے جو قانون اللہ تعالٰی نے اپنے اُس رسول پر نازل کیا ہے جس رسول کی قیادت میں اہلِ ایمان نے یہ جنگ لڑنی ہے اور اِس جنگ میں فتح حاصل کرنی ہے ، فتحِ مکہ سے پہلے اہل ایمان کا اپنے ایمان کے بعد جو دُوسرا نازک معاملہ تھا وہ وہ اُن کی حفاظتِ جان کا معاملہ تھا اور اہلِ ایمان کے اِس معاملے میں بھی اللہ تعالٰی نے اہلِ ایمان کے سامنے وہ تاریخی مثال پیش کی تھی جو ابراہیم علیہ السلام کی دعوت و دُعا پر مُنتج ہوئی تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ اِن مُشکل حالات میں ابراہیم علیہ السلام نے ایک تو دعوتِ توحید کا کام جاری رکھا تھا اور دُوسرا کام یہ تھا کہ اُنہوں نے اپنے والد کے لئے دُعائے ہدایت کا عمل بھی منقطع نہیں کیا تھا اور اللہ تعالٰی نے ابراہیم علیہ السلام کے اِس طرزِ عمل کے ذریعے اہلِ ایمان کو یہ ہدایت دی ہے کہ وہ بھی ایک طرف تو اپنے دینِ حق کی دعوتِ حق کا عمل جاری رکھیں اور دُوسری طرف اپنی محبت کے اُن بے ہدایت رشتوں کے لئے اللہ تعالٰی سے دُعائے ہدایت کرنے کا عمل بھی جاری رکھیں لیکن قُرآن کے اِن اٙحکام بر عکس عُلمائے روایت ایک طرف تو اہلِ ایمان کو کفار کے لئے کسی بھی قسم کی دُعائے خیر سے منع کرتے ہیں اور دُوسری طرف یہ اپنا یہ منافقانہ وعظ بھی سناتے رہتے ہیں کہ { سلام اُس پر کہ جس نے گالیاں سُن کر دعائیں دیں } اور یہ بات تو ظاہر ہے کہ جو لوگ نبی علیہ السلام کو گالیاں دیتے تھے وہ بہر حال کافر تھے اور نبی علیہ السلام اُن بدترین اور اذیت دینے والے کافروں کو بھی دُعائیں دیتے تھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 559482 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More