پی ایس بی، سپورٹس ڈائریکٹریٹ دونوں کھیلوں کے فروغ کے دعویدار لیکن ..
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
پشاورکا لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم اور ایبٹ آباد میں واقع ہاکی سٹیڈیم خیبر پختونخواہ کے دو واحد ہاکی سٹیڈیم ہیں جس کے آسٹرو ٹرف وفاقی ادارے پاکستان سپورٹس بورڈ نے تبدیل کرنے تھے جبکہ دیگر چار کوئٹہ ، فیصل آباد ، اسلام آباد اور واہ کینٹ میں واقع آسٹرو ٹرف تھے جس کیلئے 523.163 ملین روپے کی رقم بھی مختص کی گئی ایک منصوبے کے تحت اس کی نگرانی پی ایس بی نے کرنی تھی اور یہ سال 2017کا منصوبہ ہے جسے چھتیس ماہ میں مکمل کیا جانا تھا سال 2020 تک چار سو پچاس ملین کی رقم وفاقی حکومت نے پی ایس بی کو جاری کی تھی تاکہ ان منصوبوں کو مکمل کیا جاسکے. یعنی سال 2020 کے اختتام تک اس کو مکمل کیا جانا تھا.لیکن ...
پشاور کے لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم میں واقع آسٹرو ٹرف جو کم و بیش تیرہ سال قبل لگایا گیا تھا اس آسٹرو ٹرف پر کم و بیش ستر سے زائد بین الاقوامی ہاکی میچز کھیلے گئے. جنوری 2022 میں پاکستان سپورٹس بورڈ کی انتظامیہ نے سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کا دورہ کیا . سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کو بتایا گیا کہ یہاں پر نیا آسٹرو ٹرف لگایا جارہا ہے جسے مئی 2022 تک مکمل کیا جائیگا . سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ اس وقت وزیراعلی خیبرپختونخواہ کے زیر انتظام تھا کیونکہ وزارت کھیل ان کے پاس اضافی وزارت تھی. جنوری 2022 میں نئے آنیوالے ڈائریکٹر جنرل جو اس سے قبل انڈسٹریز ڈیپارٹمنٹ میں تھے اور انہیں کھیل کی وزارت کا کوئی تجربہ نہیں تھا انہوں نے پی ایس بی کی جانب سے نئے آسٹرو ٹرف کے لگانے کو بڑا کارنامہ قراردیتے ہوئے کنٹریکٹر کو کام کرنے کا کہہ دیا اور یوں 7 جنوری 2022 میں لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم کے پرانے آسٹرو ٹرف کو اکھاڑا گیا جہاں پر روزانہ انڈر 12 سے لیکر انڈر 19 تک 100 کے قریب کھلاڑی روزانہ کھیلنے کیلئے آتے تھے..لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم سے آسٹرو ٹرف ہٹ جانے کے بعد ان کھلاڑیوں نے ابتداء میں فزیکل پر توجہ دینا شروع کردی تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد بھی کم ہوتی گئی اور یوں لالہ لایوب ہاکی سٹیڈیم کا آسٹرو ٹرف مئی میں مکمل ہونے کے بجائے جون میں اس پر تعمیراتی کام شروع ہوا جو تاحال اگست کے تیسرے ہفتے تک مکمل نہیں ہوسکااور ابھی تک یہ بھی پتہ نہیں چل رہا کہ یہ آسٹروٹرف کب مکمل کیا جائیگا .
سوال یہ ہے کہ ڈائریکٹر جنرل سپورٹس ڈائریکٹریٹ جو اس سے قبل انڈسٹریز ڈیپارٹمنٹ میں تھے انہیںاس ڈیپارٹمنٹ میں لایا گیا انہیں اس وقت شائد پتہ نہیں تھا لیکن ان کے ساتھ آنیوالے اور اس ڈیپارٹمنٹ میں بیٹھے ملازمین کو کھیلوں کی وزارت کا پتہ تھا انہوں نے یہ سوال نہیں کیا کہ سال 2017کا منصوبہ جو سال 2020 میں مکمل کیا جانا تھا اب سال 2022میں کیوں شروع کیا جارہا ہے جس کیلئے رقم بھی جاری ہو چکی ہے اور کیا اس منصوبے کو بروقت مکمل کیا جاسکے گا .یہ یقین دہانی نہ تو کنٹریکٹر نے کی ، نہ ہی سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کی انتظامیہ سمیت انجنیئرنگ ونگ ، ڈائریکٹر جنرل نے کی کی کہ اگر اسٹرو ٹرف مکمل نہیں کیا جاسکا تو اس کا خمیازہ کس کو بھگتنا پڑے گا.
یہ الگ بات کہ وزیراعلی خیبر پختونخواہ خود بھی ہاکی کے اچھے کھلاڑی رہے ہیں اور انہوں نے سال 2021 کے اختتامی مہینوں میں کے پی ہاکی لیگ کا انعقاد کیا تھا لیکن انہوں نے بھی اس منصوبے کے بارے میں میں کوئی تفصیلات حاصل نہیں کی ، نہ ہی موجودہ نئے وزیر کھیل عاطف خان کو اس منصوبے کے لیٹ ہونے کی کوئی پروا ہے ، کیونکہ متاثر کھلاڑی ہورہے ہیں کیونکہ آسٹرو ٹرف نہ ہونے کے باعث پریکٹس نہ ہورہی اور متاثر کھیل اور کھلاڑی ہورہے ہیں.سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ نے کبھی لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم میں آکر یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کی کہ ہاکی کے آسٹرو ٹرف کے منصوبے کا کیا حال ہے اور اس میں کتنا کام ہو چکا ہے. حالانکہ..
اسی لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم کے چاروں اطراف میں اس سے پہلے ایڈمنسٹریٹر کے دور میں آٹھ کیمرے لگائے گئے تھے جس میں نامعلوم وجوہات کی بناء پر چھ کیمرے رہ گئے ، اور یہ کیمرے بھی نامعلوم افراد اتار کر لے گئے ہیں جس کے بارے میں کسی کو پتہ ہی نہیں کہ آٹھ کیمرے چھ کیمرے کیسے ہوگئے اور پھر یہ چھ کیمرے کیسے غائب ہوگئے .اسی طرح لاکھوں روپے کے آسٹرو ٹرف کو پانی فراہم کرنے والی دو مشینیں بھی اضافی ہوگئیں ، آسٹرو ٹرف کے چاروں اطراف میں پڑے کم و بیش دو سو کے قریب جالیاں بھی اٹھا لی گئی ہیں جو نہ جانے کہاں پہنچ گئی ہیں ، چاروں اطراف میں آسٹرو ٹرف کو پانی فراہم کرنے والی بڑی سٹیل کی پائپس بھی نکال دی گئی اور وہاں پر پلاسٹک کی پائپ لگانے کا پروگرام ہے.یہ سامان کہاں گیا اور کہاں جائیگا اس بارے میں مکمل طور پر خاموشی ہے.کہنے کو تو سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میں سٹوربھی ہے مگر وہ سٹوراس سامان کیلئے نہیں بلکہ یہ سٹور صرف شوز اور دیگر سامان کیلئے ہے.اور لاکھوں روپے کے جنگلے ، پائپ ، سپرنکلزکہاں گئے اور کہاں جائیں گے.
کم و بیش یہی صورتحال ایبٹ آباد کی بھی ہے جہاں پر ہاکی گرائونڈ ہے مگر آسٹرو ٹرف بچھانے کی ابھی تک کسی کو پروا نہیں ، یہ دونوں خیبر پختونخواہ کے بڑے شہر ہیں اور ان دونوں شہروں میں سینکڑوں کھلاڑی ہاکی کے کھلاڑی ہیں مگر سپورٹس ڈائریکٹریٹ سمیت انہی شہروں سے منتخب ہونیوالے ممبران اسمبلی جن میں بیشتر تبدیلی والی سرکار کے نمائندے ہیں انہوں نے کبھی یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کی کہ ان کے شہر خواہ وہ پشاور ہو یا ایبٹ آباد ، ان کے ساتھ کھلواڑ کون کررہا ہے اور کیوں سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ اس معاملے میں خاموش ہیں.اسی طرح پاکستان سپورٹس بورڈ کی انتظامیہ اورخصوصا پشاور سے تعلق رکھنے والے ڈائریکٹر جنرل جو خود بھی کھلاڑی رہ چکے ہیں انہوں نے بھی اس معاملے میں خاموشی اختیار کر رکھی ہیں کہ ان کے آبائی شہر پشاور سمیت ایبٹ آباد کیساتھ یہ غیر منصفانہ رویہ کیوں روا کھا گیا . مزے کی بات یہی ہے کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ سمیت پاکستان سپورٹس بورڈ دونوں ملک میں کھیلوں کے فرو غ کے دعوے کرتی ہیں مگران کی سرگرمیاں انکے اپنے دعوئوں کے برعکس ہیں.
|