کلچرل و ٹورازم اتھارٹی کی کشمیر ریلی اور " پین ڈزے"



پشتو زبان میں ایک جملہ بہت زیادہ بولا جاتا ہے کہ "کم زائے نہ کار خلتہ سہ کار" یعنی جہاں پر کام نہ ہوں وہاں پر جانے کی ضرورت ہی نہیں. کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا پر راقم نے سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میں میں چوری کی بجلی کے استعمال سے متعلق رپورٹ دی کہ چوری بڑے دھڑلے سے جاری ہے اور ماشاء اللہ ابھی تک جاری و ساری ہے .بل بھی آرہے ہیں اور میٹر ریڈرز اوسطا پرانے بلوں کی بنیاد پر بل بھیج کر فنڈز وصول کررہا ہے. اور اس پر ابھی تک خاموشی ہے. یہ آج کا موضوع نہیں اس لئے اس پر بات نہیں کررہا لیکن ایک صاحب جو سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ملازم ہے نے اس پر تقریبا یہی کمنٹس دئیے اور اس کا مقصد یہی تھا کہ اگر سرکار ی ادارہ چوری کررہا ہے تو پھر آپ بھی خاموش رہو ، آپ کو اس بارے میں بات کرنے کی ضرورت نہیں.لیکن راقم نے جب ا ن صاحب سے ملاقات کی تو بتایا کہ جہاں پر کسی کا کام نہ ہو وہاں پر صحافی کا کام لازمی ہوتا ہے.بقول ایک انگریز صحافی کے " خبر وہی ہے جس کو شائع ہونے سے روکنے کیلئے آپ پر دبائو آئے. باقی جو چیزیں ہیںوہ تو سب ایڈورٹائزمنٹ کے زمرے میں آتی ہے" ا اور سچی بات بھی یہی ہے کہ مرنے کے خبر سے لیکر شادی خانہ آبادی ، کسی کارروائی کی خبر یاسرگرمی کی خبر متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کی ایڈورٹائزمنٹ ہی ہے.کیونکہ ہر شخص و ادارہ اپنی ایڈورٹائزمنٹ چاہتا ہے.

اتنی لمبی تمہید کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی کی جانب سے حال ہی میں کئے جانیوالے یوم کشمیر ڈے کے حوالے سے منعقدہ پروگرام کے بارے میں بتانا تھا.سوال یہ ہے کہ کشمیر کیا سپورٹس ڈائریکٹریٹ اور ٹورازم اتھارٹی کا مسئلہ ہے ، کشمیر کے حوالے سے کوئی ریلی کسی سیاسی جماعت نے نہیں نکالی ، نہ ہی کوئی سیمینار ، ورکشاپ منعقد ہوا اور نہ ہی کشمیر کے حوالے سے کوئی رپورٹ سوشل میڈیا پر آئی ، نہ ہی کم و بیش پچاس ٹی وی چینلز پر کشمیر پر ہونیوالے مظالم کے حوالے سے کوئی بات کی گئی . ریلی نکالی گئی اور وہ بھی ٹورازم اتھارٹی کی انتظامیہ نے نکال دی ، دنیا کو یہ دکھانے کیلئے ہم کشمیر کے ساتھ ہیں ، لیکن مزے کی بات یہی تھی کہ کشمیریوں کے ساتھ ہونے کے دعویدار ٹورازم اتھارٹی کے عہدیدار وں نے سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کی بلڈنگ کے اندر ریلی نکالی ، جس میں زیادہ تر ٹورازم متھارٹی کے ملازمین ہی شامل ہوئے ، جبکہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہوئے اپنی حاضری لگائی کہ ہم بھی کشمیرریلی میں ہونیوالے غازیوں میں شامل ہیں. سب سے حیران کن بات یہی تھی کہ ایک دن قبل اوپر سے فون آیا کہ کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی نے ریلی نکالنی ہے اور یہ ریلی بڑے بڑے دیواروں میں بند سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی بلڈنگ میں نکالنی ہے ، یعنی صرف ٹی وی کے سکرین او ر اخبارات میں تصاویر نظر آئے باقی اللہ اللہ خیر صلا ، اور یہ کام بھی صوبے میں حکمرانی کرنے والی تبدیلی والی سرکار ہی کررہی ہے ، حالانکہ ان کی وفاق میں حکومت میں ہوتے ہوئے مودی سرکار نے کشمیریوں کیساتھ وہ کام کیا کہ تبدیلی والی سرکار نے یہ اعلان کردیا کہ ہفتے میں ایک دن "کھڑے ہو کر " احتجاج کرنا ہے ، یہ تو شکر ہے کہ اوپر سے آرڈر نہیں آیا کہ ایک پائوں پر کھڑے ہو کر احتجاج کرنا ہے ، ورنہ پھر مشکل ہوتی ، تاہم ان دنوں میں مختلف ڈیپارٹمنٹس سے وابستہ ملازمین نے کھڑے ہو کر احتجاج کیا تصاویر نکالی ، اخبارات میں شائع کروائی ، ٹی وی چینلز پر چلائی تاکہ سندرہے اور بوقت ضرورت کام آئے کہ ہم بھی کھڑے ہو کر احتجاج کرنے والے غازیوں میں شامل ہیں.

ہمیں کلچر و ٹورازم اتھارٹی کے ریلی پر اعتراض نہیں ، البتہ اعتراض اس بات پر ہے کہ سفید کپڑوں میں ملبوس پی ایم ایس افسران اور اپنے آپ کو ہائی پروفائل بتانے والے ان سرکاری ملازمین میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ کم از کم صدر روڈ پر نکل جاتے ، شہر کی طرف کہیں نکل جاتے جہاں پر عام لوگوں کو کشمیر ریلی کے حوالے سے پتہ بھی چلتا اور ائیر کنڈیشنر گاڑیوں سے لیکر ائیر کنڈیشنڈ دفاتر میں بیٹھنے والے ان سرکاری اہلکاروں کے کپڑے بھی پسینے سے بھیگ تو جاتے اور انہیں پتہ بھی چلتا کہ "ہے تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات " .لیکن نہ ان میں اتنی ہمت ہے کہ اپنے دفاتر سے باہر نکل کر سڑکوں پر کشمیر ریلی میں نکلیں ، نہ ہی اس حوالے سے بات کرنے کی ہمت ہے کیونکہ اوپر سے آنیوالے آرڈر پر اتنا ہی احتجا ج ہوسکتا ہے.

ویسے کوئی یہ ہمت کرکے بتا سکتا ہے کہ اس ریلی سے کشمیر کو کیا فائدہ پہنچا ، ہاں صرف ٹی وی چینل پر ٹکرز چل گئے ، ویڈیوز چل گئے اوراخبارات میں تصاویر لگ گئے ، صاحب لوگوں کے انٹرویوز بھی چل گئے ، ہاں اس ریلی کی آڑ میں اخراجات کی مد میں کتنا عوام کا پیسہ نکلے گا. یہ وہ سوال ہے جس پر سوچنا اب عام عوام کا کام ہے کیونکہ مہنگائی کی ماری عوام کے پیسوں پر عیاشی کرنا سرکاری اہلکار اپنا حق سمجھتے ہیں حالانکہ عوامی ٹیکسوںکو اڑانا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں . چلتے چلتے ایک حقیقی واقعہ بھی سن لیں.

ہمارے ایک سینئر صحافی دوست جن کے دادا کسی زمانے میں کشمیر میں جنگ کیلئے گئے تھے یہ ان کے دادا کی داستان ہے جو انہوں نے اپنے پوتے کو بتائی بقول دادا کہ ہمیں کہا گیا تھا کہ کشمیر میں ہندووں کیساتھ "پین ڈزے" مخصوص رائفل ہے جس کو اگر حاصل کرنا ہے تو کشمیر چلو ، قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے دادا بھی کشمیر گئے ، وہاں پر انہوں نے کارنامے انجام دئیے ، اس وقت انہیں کہا گیا تھا کہ جتنے بھی " پین ڈزے" آپ نے حاصل کرلئے بس آپ ہی کے ہیں ، تو صاحب نے کم و بیش ایک درجن کے قریب " پین ڈزے" حاصل کرلئے ، جب انہیں واپسی کا حکم ہوا تو بتایا گیا کہ صرف دو " پین ڈزے" آپ لے جاسکتے ہیں باقی نہیں ، کشمیر جانے والے شخصیت نے دو تو اپنے پاس رکھ لئے اور بقایا ایک درجن کے قریب پلاسٹک کے شاپنگ بیگ میں جمع کرکے دبا دئیے کہ پھرمستقبل میں واپس آکر اپنے لئے نکال لیں گے. بقول اس پوتے کے ہمارے دادا آخری وقت تک یہی رونا روتے رہے کہ درجن بھر" پین ڈزے"زمین میں دفن رہ گئی اس کا کیا ہوگا.اور یہی غم و ہ دل میں لیکرانتقال بھی کر گئے.

کلچر اینڈٹورازم اتھارٹی خیبر پختونخواہ کے حالیہ کشمیر ریلی اور صحافی کے دادا کی کہانی میں مفادات تقریبا یکساں ہی ہے`وقت تبدیل ہوگیا ہے لیکن مفادات کا کھیل تقریبا یکساں ہی ہے ایک دور میں اگر "پین ڈزے"کا حصول تھا تو اب عوامی ٹیکسوں کی رقم کو اپنی مرضی سے اڑانا ، جس کا کوئی آڈٹ بھی نہیں ، باقی وہی پرانی باتیں یعنی زوڑ ملا او زڑے تراویح.. کیا کلچرل اینڈ ٹورازم اتھارٹی کا کام یہی رہ گیا ہے اور انہیں جو کام تفویض کئے گئے تھے وہ انہوں نے پورے کئے ہیں .کیونکہ سارا سال تو صرف ان کے پاس سیاحت کے فروغ کے نام پر "مخصوص " کھیلوں کے پروگرام ہوتے ہیں ، خدا جانے انہیںدیگر کھیل کیوں نظر نہیں آتے.اور اگر صرف ایک ہی کھیل ہے تو ضم اضلاع میں کرانے سے انہیں کیا فائدہ پہنچا ہے ، نہ تو سیاحت میں اضافہ ہوا اور نہ ہی مخصوص کھیل وہاں پر کھیلا گیا ، دوسرا سال میں ایک ایونٹ ہوتا ہے جوچترال میں کرایا جاتا ہے اس میں بھی اتنے لوگ کسی اور کے نہیں ہوتے جتنے ان کے اپنے ڈیپارٹمنٹ کے لوگ جاتے ہیں. اور پھر یہی لوگ بدنام کرتے ہیں سیکورٹی اداروں کو ، کہ انہوں نے پورے پویلین پر قبضہ کیا ہوتا ہے. ہم کچھ کر بھی نہیں سکتے. حالانکہ جو کچھ کلچرل اینڈ ٹورازم اتھارٹی کرتی ہے وہ سیکورٹی اداروں کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوتا.
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 498084 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More