میں پیدا ہوئی تو خالہ نے مجھے امی سے مانگ لیا، بچپن میں بچوں کے رشتے کرنا کیا اچھا فیصلہ ہوتا ہے؟

image
 
بچی کو گود میں لیتے ہوئے خالہ نے اس کو فرط محبت سے اپنی آغوش میں چھپا لیا، پلنگ پر لیٹی بہن اور ساتھ بیٹھے بہنوئی کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے بٹوے سے چھوٹی سی سونے کی انگوٹھی نکال کر بچی کے ہاتھ میں پہناتے ہوئے اپنے سات سالہ بیٹے کے نام سے منسوب کر دیا۔
 
بہن اور بہنوئی نے بھی سالی کی خوشی اور محبت کو دیکھتے ہوئے اپنے ہونے والے داماد کا منہ سر چوما اور معصوم بچہ ان کی محبت کو نہ سمجھتے ہوئے ان کے گلے لگ گیا۔ یہ اکثر گھرانوں میں ہونے والی ایسی رسم ہے جس کو بچپن کی منگ کے نام سے پکارا جاتا ہے -
 
بچپن کی منگ
بچپن کی منگ کے لیے عمر کی قید نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی بچوں کی رضامندی کا اس سے کوئی تعلق ہوتا ہے۔ تاہم اس کے اثرات اکثر بچوں کی زندگی کو ضرور تباہ کر دیتے ہیں۔ اور بعض گھرانوں میں تو ان بچوں کے جوان ہونے کے بعد کشت و خون کا باعث بھی بن جاتے ہیں-
 
مستقبل کا حال اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا
عام طور پر رشتے داروں کے باہمی تعلقات میں اتار چڑھاؤ آنا ایک فطری سی بات ہے۔ ایسا کوئی فارمولا موجود نہیں ہے کہ جو انسان آج آپ کو جان سے زيادہ پیارا ہے آج سے دس پندرہ سالوں بعد بھی آپ کے احساسات اس کے لیے یکساں رہیں گے اسی وجہ سے والدین کے رشتوں میں ہونے والی تبدیلیاں بچوں میں بالغ ہونے کے بعد بہت مسائل کا سبب بن سکتی ہیں۔
 
image
 
بچپن کی منگ کے لڑکوں پر اثرات
عام طور پر ہمارے معاشرے کو مردوں کا معاشرہ کہا جاتا ہے اس وجہ سے عام طور پر لڑکے بچپن کی منگ کو صرف اس حد تک ہی لیتے ہیں کہ ان کی منگیتر ان کی ملکیت ہوتی ہے۔
 
عام طور پر ایسے لڑکے نہ تو تعلیمی میدان میں کچھ خاص سرگرمی دکھاتے ہیں اور نہ ہی جوان ہونے کے بعد معاشی طور پر کامیاب ہونے کے لیے سرگرمی دکھاتے ہیں کیوں کہ ان کو یہ پتہ ہوتا ہے کہ ان کا رشتہ تو ہو ہی چکا ہے اور شادی بھی ہو جانی ہے تو فالتو کوشش کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی ہے۔
 
یاد رہے عام طور پر بچپن کے رشتے کرنے کا رواج قدامت پرست گھرانوں میں ہوتا ہے۔ جہاں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان کم ہی ہوتا ہے۔ زمینوں اور جائیدادوں کی موجودگی کے سبب معاشی بے فکری بھی ان لڑکوں کو قدرے سست بنا دیتے ہیں-
 
بچپن کی منگ کے لڑکیوں پر اثرات
لڑکیاں لڑکوں کے مقابلے میں قدرے حساس ہوتی ہیں۔ اس کے بعد بچپن سے منگنی ہونے کے بعد دوہری پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ایک جانب تو والدین کی جانب سے روک ٹوک ہوتا ہے اور دوسری جانب اس کے زندگی کے ہر فیصلے میں اس کے سسرال والے بھی شامل ہو جاتے ہیں-
 
کیا پڑھنا ہے کتنا پڑھنا ہے برقع پہننا ہے یا دوپٹہ اوڑھنا غرض ایسے تمام فیصلے اس کے سسرال کی جانب سے اس پر مسلط کیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد اگر لڑکی تعلیمی میدان میں کچھ کرنے کی خواہشمند ہو تواس کو یہ کہہ کر روک دیا جاتا ہے کہ چونکہ لڑکیوں شوہر سے زيادہ پڑھ جائیں تو ذہنی ہم آہنگی نہیں ہو سکتی ہے اس وجہ سے اس پر تعلیم کے دروازے بھی بند کر دیے جاتے ہیں-
 
image
 
بچپن کی منگ اور شادی تک کا سفر
عام طور پر ایسے رشتے اگر شادی تک پہنچ بھی جائیں تو لڑکے اور لڑکی کے لیے اس میں کوئی خاص کشش اس وجہ سے نہیں ہوتی کہ وہ بچپن سے ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہیں اور انہیں اس رشتے میں کسی سرپرائز کی امید نہیں ہوتی ہے ۔ اس وجہ سے ان کے نزدیک شادی ایک ذمہ داری بن جاتی ہے جس کو وہ ایک بوجھ کی طرح ادا کر رہے ہوتے ہیں-
 
اگر شادی نہ ہو سکے
اس رشتے کا پایہ تکمیل تک یعنی شادی تک پہنچنا بھی ایک نازک مرحلہ ہوتا ہے جس میں کبھی تو رشتے داروں کے باہمی خراب تعلقات رکاوٹ بن جاتے ہیں تو کبھی اس کا سبب لڑکے لڑکیوں کے بڑے ہونے کے بعد رجحان میں تبدیلی ہو سکتا ہے-
 
مگر ہمارے معاشرے میں لڑکی کے لیے ایسی منگنی ٹوٹنا انتہائی مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔ کیوں کہ معاشرہ ایسی لڑکی کو قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوتا ہے جس کے خیالوں میں بچپن سے کوئی اور تھا وہ کسی نئے انسان کے ساتھ ایڈجسٹ نہ ہو سکے گی-
 
یہ تمام عوامل ایسے ہوتے ہیں جو نہ صرف بچوں کی زندگی کو خراب کر دیتے ہیں بلکہ اس سے پورے خاندان کو بھی مستقل طور پر نفسیاتی مسائل کا شکار کر دیتے ہیں اس وجہ سے موجودہ زمانے میں اس قسم کے فیصلوں سے بچنا ضروری ہے-
YOU MAY ALSO LIKE: