کرونا وائرس نے خوف، ڈر، اور وحشت پھیلائی ۔ یہ سب اس وقت
سامنے آیا کہ جب انسان جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے آسمان کو چھونے کی دعوے کر
رہا تھا لیکن چھوٹے سے وائرس کے سامنے بے بسی اور لاچارگی کا نمونہ بنارہا
۔
اس وبا نےانسانی زندگی کو مفلوج کرکے رکھ دیا ۔ زندگی کا ہر شعبہ اس سے
متاثر ہوا۔ معاشرتی ،سماجی، سیاسی، اقتصادی ،مذہبی اور تعلیمی سرگرمیاں
محدود ہو کر رہ گئیں۔سڑکیں ویران، بازار خالی، گلیاں خاموش اور راستے سنسان
ہو گئے ۔ہم اگر ماضی پر نظر دوڑا ئیں تو پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں جب بھی
کوئی تبدیلی رونما ہوئی ہے تو ادب پر براہ راست اس کےاثرات پڑتے ر ہیں
۔چونکہ ادیب اور شاعر کسی بھی قوم اور معاشرے کے لئے آنکھ اور کان کی حیثیت
رکھتا ہے اور ان کے اجتماعی شعور اور جذبات و احساسات کا نمائندہ ہوتا ہے
اس لیے وہ ان تبدیلیوں کو سچائی، دیانتداری اور نفاست کے ساتھ ادب کا حصہ
بنا لیتا ہے ۔ ماضی میں لکھاریوں نے مختلف قسم کے حالات کو اپنے مخصوص رنگ
میں تحریری صورت میں پیش کیا ہے۔ دیکھا جائے تو ان فن پاروں میں آفاقی رنگ
بھی دکھائی دیتے ہیں۔
جیسے کہ: سرہانے میر کے کوئی نہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو
یہ اشعار وبا کی وجہ سے پیدا شدہ حالات پر صادق آتے ہیں۔کرونا نے ادب کے
ذیادہ تر موضوعات کو تبدیل کرکے رکھ دئیے ہیں۔ اب ادیبوں اور شعرا کا موضوع
سخن یہی ہے ۔اس تناظر میں مستنصر حسین تارڑ کی "شہر خالی ،کوچہ خالی " اور
آصف فرخی کی "تالا بندی کا روزنامچہ" قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ فرخی صاحب
نے دنیا بھر سے کرونا وبا سے متعلق تحاریر جمع کرکے ترتیب دے رہے تھے کہ
داعی اجل نے اپنے پاس بلا لیا اور وہ اس دار فانی سے کوچ کر گئے ۔ پھر ان
کی صاحبزادی "غزل آصف فرخی" نے کراچی سے دنیا زاد کا ایک وبا نمبر شائع کیا
۔اس شمارے میں ۵۱ مضامین ہیں ۔
اس کے علاوہ 2021 کے آغاز میں محمد اعظم ندوی (حیدرآباد) نے منظوم اور نثری
تخلیقات کا ایک مجموعہ "کرونائی ادب" کے نام سے شائع کروایا ۔محمد شاہد خان
نے بارہ مضامین پر مشتمل ایک ڈائری لکھی جو کہ قرنطینہ کے حالات و احساسات
پر مشتمل ہے ۔
افضل مراد نے کرونا وبا اور اس کے اثرات سے متعلق دو افسانے "آخری آدمی"
اور "نوٹوں کی گنتی" تخلیق کیں۔ معروف ادیب حسن منظر نے "وبا" کے نام سے
ناول لکھا ۔
کرونائی ادب کے حوالے سے مسرت زہرا کنول کا مجموعہ "درد کی دہلیز پر"
منظرعام پر آیا جو اس وبا کے مختلف پہلوؤں پر لکھی گئی شاعری ہے ۔یہ پہلا
شعری مجموعہ ہے جس میں کرونا وبا اور اس سے جنم لینے والے احساسات کو موضوع
بنایا گیا ہے۔
اسی طرح "ادارۀ انحراف" کی طرف سے "لاک ڈاؤن اور ڈائری" جیسے سلسلوں کا
آغاز ہوا ۔جس میں مختلف قسم کے ادبی رسائل نمبرز کی صورت میں ادباء اور
شعراء کے جذبات و احساسات کو تحریری شکل میں قارئین تک پہنچانے کی سعی کی
گئی ۔
بحیثیت مجموعی اس کرونائی ادب کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ہمیں جابجا خوف،
تنہائی، ذہنی تناؤ، بے چینی، بے بسی، جسمانی فاصلے، کوارنٹائن ،فطرت پسندی،
تصورخدا، اعمال کا محاسبہ اور اپنوں سے دوری جیسے موضوعات ملتے ہیں ۔جس میں
امید اور یاس پہلو بہ پہلو ملتے نظر آتے ہیں۔کبھی خوف ، جبری تنہائی اور
دہشت سے چھٹکارا پانے کا حوصلہ ملتا ہے ۔ تو کبھی بے چینی،مایوسی اور بے
قراری دیکھنے کو ملتی ہے۔رجائیت اور یاسیت کی یہ خوبصورت آمیزش اس کرونائی
ادب کی جان ہے۔
انڈیپنڈنٹ اردو ڈاٹ کام کو انٹرویو دیتے ہوئے مستنصر حسین تارڑنے اس حوالے
سے کہا کہ " اس جبری فرصت یا تنہائی، اسے جو نام بھی دیں، اس میں عام افراد
کے لیے ایک خوف اور ڈر کا عنصر ہے۔ ماحول میں ایک ویرانی اور تاریکی کا
احساس گھلا ہوا ہے، لیکن ادیبوں کے لیے یہ تنہائی کوئی نئی چیز نہیں ہے۔
میں گزشتہ کئی دہائیوں سے لکھ رہا ہوں اور میری یہ مصروفیت مسلسل اور مستقل
ہے۔ میں پابندی سے کئی گھنٹے ہر روز صرف لکھنے یا پڑھنے کا کام کرتا ہوں۔
یہ کام تب ہی ہوسکتا ہے جب آپ گھر میں رہیں گے اور پوری توجہ اس کام کو
دیں گے۔ اب کورونا کی وبا نے سب کو جبری تنہائی میں دھکیل دیا ہے۔ پھر
انہیں یہ زیادہ وحشت ناک یا اکتاہٹ بھرا کام محسوس ہو رہا ہے جن کے ہاں
تخلیقی سرگرمی نہیں ہے یا جو لکھنے پڑھنے کے کام سے وابستہ نہیں ہیں ورنہ
اس ماحول میں بھی کام کرنے والے کام کر رہے ہیں۔"
مشہور مزاح نگار انور مقصود کا کہنا ہے کہ" ایک وائرس نے کھانسی اور بخار
کے ذریعے پوری دنیا کو روک دیا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ہم اس بات پر فخر کرتے
رہیں کہ انسان نے چاند کو تسخیر کرلیا اور مریخ پر پہنچ گیا۔ لہٰذا یہ
قیامت جیسا ہی دور ہے جس سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں کہ دنیا کئی دنوں سے
رُکی ہوئی سی ہے۔"
اس وبا کی وجہ سے تمام معاشی سرگرمیاں خاصی متاثر ہوئیں۔ تاہم تعلیمی
سرگرمیاں اور ادبی محافل آن لائن میٹنگز کی صورت میں منعقد کیے جانے لگے
۔اس کے علاوہ نئے لکھاریوں کو ایک زبردست موقع ملا کہ وہ ان مشاعروں اور
محفلوں میں شرکت کرکے اپنی صلاحیتیں کو آزمائیں اور ساتھ ساتھ مختلف قسم کے
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنی تخلیقات کو پیش کرکے داد حاصل کریں اور
مختلف ناقدین کی آراءسے استفادہ کریں۔اس دور میں تخلیق شدہ ادب کو "کرونائی
ادب" کا نام دیا گیا ۔ یہ ادب نہ صرف موجود ہ بلکہ مستقبل میں بھی آنے والے
وبائی صورتحال کے دوران انسانی نفسیات ،احساسات اور حالات کو سمجھنے میں
مدد گار ثابت ہوگا ۔
کرونائی ادب نے اردو ادب کے دامن کو
تنہائی،خوف،وحشت،جبر،بےبسی،بےکیفی،لاچارگی،کم مائیگی،امید اور یاس جیسے
موضوعات سے بھر دیا۔جس سے نہ صرف اردو ادب کی وسعت میں اضافہ ہوا بلکہ
انسانی نفسیات کی مختلف گرہیں بھی کھل گئیں۔امید ہے مستقبل میں اس سے ادب
کے نئے گوشے وا ہونگے۔
|