ادب اطفال کا معیار محلِ نظر

تحریر: ذوالفقار علی بخاری

ادب اطفال بچوں کے لئے لکھا جانے والا ادب ہے لیکن راقم السطور کے مشاہدے میں 2019سے یہ بات آرہی ہے کہ چند قلم کار کچھ ایسا لکھ رہے ہیں جو کہ بچوں کی تعلیم وتربیت کے لئے نہیں ہے وہ کچھ ایسا لکھ رہے ہیں جن کی ضرورت بچوں سے زیادہ بڑوں کی ہے لیکن اُسے بچوں کی نذر کیا جا رہا ہے اوریہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ ادب اطفال کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
راقم السطور کو یہ دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے کہ بچوں کے نام پر کچھ ادیب ایسی کہانیاں لکھ رہے ہیں جن کا کوئی سر پیر ہی نہیں ہے اوررسائل میں وہ قلم کار بڑے احترام کے ساتھ شائع ہو رہے ہیں۔ جن کے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ ان کی ذرا سی لاعلمی میں بچوں کے ذہن کس قدر متاثر ہو سکتے ہیں۔کچھ بہترین ادیب جہاں اچھی کہانیاں لکھ رہے ہیں وہیں کچھ کمزور کہانیاں بھی شائع ہورہی ہیں جس کی وجہ یہ بھی ہے کہ کئی عمدہ لکھنے والوں کو مختلف وجوہات کی بناء پر شائع نہیں کیا جاتا ہے۔ اس میں مدیران اورادیبوں کا نظریاتی یا ذاتی اختلاف ہونا اہم عنصر ہے اورکہیں گروہ بندی کی وجہ سے قلم کار مخصوص رسائل واخبارات سے ہٹ کر نہیں لکھ پا رہے ہیں۔ اس کا خمیازہ نونہالوں کو بھگتنا پڑر ہا ہے کہ معیاری تحریروں کے فقدان کی وجہ سے رسائل کی فروخت کم ہوگئی ہے کہ والدین کے علم میں یہ بات آچکی ہے کہ غیر معیاری موادشائع کیا جا ر ہاہے۔
بچوں کے لکھار ی جس طرح کی کہانیاں لکھ رہے ہیں اورجو رسائل میں شائع کی جا رہی ہیں۔ان میں سے اکثرایسی ہیں جو آج کے بچوں کے لئے قطعی غیر دل چسپ ہیں کہ وہ ماضی کے لبادے میں سمائی ہوئی ہیں جن کا جدید دور میں پڑھنا ماسوائے چند بچوں کے دیگر کے لئے اہمیت نہیں رکھتا ہے۔راقم السطور کے نزدیک اگر سب کہانیاں بچوں کے لئے دل چسپ اورمطالعے کی جانب راغب کرنے والی ہیں تو پھر جدید ایجادات کی بجائے بچوں کو رسائل اورکہانیوں کی کتب خریدنا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ ماسوائے چند ادب اطفال ادیبوں کے دیگر کو اپنی کتب کی فروخت کے لئے جو کچھ کرنا پڑتا ہے وہ ایک المیہ ہے۔یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ لکھاری مشاہدے سے زیادہ فلموں، ڈراموں سے متاثر ہو کر ایسے مکالمے لکھ رہے ہیں جن کو اگر کسی مہذب گھرانے کا بچہ بول دے تو اُس کی شامت آجائے۔چند اچھا لکھنے والے بھی کبھی کبھی کوئی ایسا جملہ لکھ دیتے ہیں جو کہ قابل گرفت ہوتا ہے یعنی کوتاہی کسی سے بھی ہو سکتی ہے لیکن کسی تحریر میں سنگین غلطی ہو تو پھر قلم کار اکیلا گناہ گار نہیں ہوتا ہے،اس سنگین غلطی کے حوالے سے دو مثالیں آگے پیش کی جا رہی ہیں۔
راقم السطور نے جب بچوں کے لئے لکھنا شروع کیا تواس کے پیچھے ایک اہم وجہ تھی کہ ایک ایسی کہانی کو پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا جو بچوں کے لئے مناسب نہیں تھی۔افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ تین برس قبل جو پڑھنے کو ملا تھا، اُس کے بعد کچھ اورطرح کا مواد پھر سے مطالعے میں آیا ہے۔ گذشتہ دنوں ایک ایسی کہانی پڑھنے کا اتفا ق ہوا ہے جسے پڑھ کر لکھاری کو بدترین کہانی کا ایوارڈ دینے کا دل کر رہا ہے۔ کہانی میں لکھاری نے بے حد غیر مناسب الفاظ میں کچھ جملے لکھے ہیں۔ رسالے کے مدیر نے اُس کہانی کو نجانے کیوں شائع کر دیاتھا لیکن اُن سے زیادہ تو وہ لکھنے والا قصور وار ہے جو ایسا لکھ رہا ہے جو بچوں کے لئے زہرقاتل ہے۔راقم السطور کی اپنی ایک کہانی محض اس وجہ سے اشاعت کے لئے منتخب نہیں ہوئی تھی کہ اُس میں چوری کی ترغیب کا عنصر نمایاں ہو رہا تھا اگرچہ اُس میں دیا گیا پیغام چوری کے عنصر سے زیادہ طاقت ور تھا لیکن ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہانی کو روک دیا گیا تھا۔
آپ ذرا وہ جملے ملاحظہ کیجئے جو ہمیں کہانی میں ناپسندیدہ محسوس ہوئے ہیں۔
"بوتھی (شکل) سنبھال ہنومان کے بھتیجے"
"تمہاری مینگیں پہلے گول تھیں اب لمبوتری کیوں ہیں؟"
"او!میں صدقے، میں واری۔ کیا سیانی ہے میری رانی"
جب ایسا مواد لکھا جائے گا تو کوئی بتائے گا کہ کون سے والدین بچوں کو رسائل پڑھنے دیں گے۔میرا مذکورہ رسالے کے مدیر اورلکھاری سے کوئی ذاتی اختلاف نہیں ہے، اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ رسالے کی دیگر تحریریں بہت عمدہ ہونگی لیکن آپ جانتے ہیں کہ محض ایک سنگین غلطی کبھی کبھی موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے اوربچوں کے رسائل میں ایک کہانی کئی ذہنوں کو خراب تر کر سکتی ہے جس کا مدوا شائع کرنے والوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ میری خواہش ہے کہ ادب اطفال کے لئے مواد ایسا ہو جوادب اطفال کی تعریف پر بھی پورا اترے۔ میرا مذکورہ کہانی پڑھ کر ابھی غم ہلکا نہیں ہوا تھا کہ ایک اورکہانی مطالعے میں آئی ہے جس نے سر پیٹنے پر مائل کر دیا ہے۔
اس کہانی کو پڑھ کر میرا دل اُکتا گیا ہے کہ بچوں کے رسائل کو ہاتھ میں لوں اورکچھ پڑھوں۔مجھے ایک طرف جہاں شدید غصہ ہے تو دوسری طرف خوشی ہے کہ بچوں کے رسائل کو پڑھنے سے وہ کچھ سامنے لانے کا موقع مل رہا ہے جس سے اگر کچھ نئے لکھنے والے یا پھر ایسے ادیب جو بچوں کے لئے لکھ رہے ہیں اُن کو میری بات سمجھ آگئی تو ادب اطفال کے لئے معیاری مواد زیادہ لکھا جائے گا۔بچوں کے رسائل پڑھنے سے بطور ادیب مجھے بھی اندازہ ہو رہا ہے کہ دورحاضر میں کن موضوعات پر لکھنا سودمند ثابت ہو سکتا ہے۔جس کہانی نے میرے پاؤں تلے سے زمین نکالی ہے۔اُس کے چند اقتباس ملاحظہ کیجئے تاکہ آپ کو پتا چل سکے کہ ادب اطفال میں کیسے کیسے کارہائے نمایاں سرانجام دیے جا رہے ہیں۔
”پھر وہ دن آیا جب اسے زچگی کے لیے ہسپتال لے جایا گیا۔ڈاکٹر اسے کمرے میں لے گئی۔ ادھر شکیل اوراس کی ماں بے چینی سے انتظار کر رہے تھے۔ کچھ دیر بعد نرس نے آکر بتایا”اللہ نے اپنی رحمت کرتے ہوئے بیٹی سے نوازا ہے۔“
بچوں کو زچگی کا مطلب کتنے والدین خوشی سے بتائیں گے؟کیا نونہال اس کی تشریح کے لئے رسالے کے مدیرسے رابطہ کریں گے۔ ان جملوں کی اشاعت اپنی جگہ آپ ایک اور اسی کہانی کا جملہ پڑھ لیجئے۔
”وہ اب بوڑھاہو چکا تھا اس کی بیٹی بھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکی تھی۔“
ہم اب بچوں کو یہ بات کیسے سمجھائیں گے کہ کوئی جوانی میں کب قدم رکھتا ہے۔
اسی کہانی میں ایک جگہ کچھ یوں بیان ہوا ہے، پیغام خوب صورت ہے لیکن کیا یہ بچوں کی کہانی میں ہونا لازم تھا۔
”اکثر لوگ اسے طعنہ دیتے کہ پڑھ لکھ کر بگڑ جائے گی، اس کی عزت کا جنازہ نکالے گی مگر وہ کہتا کہ بیٹیوں کو پڑھانے سے عزت کا جنازہ نہیں نکلتا بلکہ نہ پڑھانے سے نسل کا جنازہ اُٹھ جاتا ہے۔۔۔۔۔“
ان جملوں نے تو رہی سہی کسر پور ی کر دی ہے۔
”برادری کے کافی نوجوان خواہش مند تھے کہ خوشبو سے اپنی زندگی مہکائیں اورشادی کے بعد کی زندگی سکون سے گذرے اوران کی اولاد بھی نیک کردار ہو۔“
”خوشبو کی ازدواجی زندگی پرسکون گزر رہی تھی کیونکہ اس نے بھرپور کوشش کی کہ اس کے شوہر اورسسرال والوں کو اس سے کبھی شکایت کا موقع نہ ملے۔“
مجھے سمجھ نہیں آتی ہے کہ ہم بچوں کو ابھی سے شادی بیاہ کے حوالے سے معلومات دے کر کس قسم کی تربیت کر رہے ہیں۔ یہ ایک المیہ ہے کہ ہم بطور ادیب اپنی ذمہ داری سے غفلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اوربچوں کو مطالعے سے دور کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔اگر اس طرح کی کہانیاں شائع ہوتی رہیں تو پھربچوں کو والدین نے رسائل اورکہانیوں کی کتب کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دینا ہے۔اس جانب سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ادب اطفال جو قومی زبان اُردوکی بقاء کی ضمانت ہے اُسے مزید زک نہ پہنچائی جا سکے۔
دورحاضر کے ادب اطفال لکھاریوں کو ساننس فکشن، ماحولیات، منشیات سے نفرت، تعلیم کی اہمیت، وطن سے محبت، دین کی تعلیمات پر عمل، احترام انسانیت جیسے اور دیگر اہم موضوعات پر لکھنا چاہیے جن سے بچوں کو کچھ کردکھانے اوراپنے اندر تبدیلی لانے کا موقع مل سکے اوروہ اچھے شہری بن سکیں جس کے ہاتھ اورزبان سے دوسرے محفوظ رہیں۔مزاح پر مبنی کہانیاں ہوں یا پھر مذہب کے حوالے سے یا معلوماتی طرز کی ہمیں بچوں کو صاف ستھرا مواد دینا ہے جس پر کوئی انگلی نہ اُٹھا سکے کہ ادب، ادب و آداب سکھاتا ہے۔
۔ختم شد۔
بشکریہ
روزنامہ اساس
بتاریخ:25اگست 2022
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 392 Articles with 480212 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More