تعلیم وہ روشنی ہے جو اندھیرے کو مٹا دیتی ہے۔ کسی بھی
معاشرے میں اس بات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کہ شعبہ تعلیم میں صنفی مساوات کا
لازمی خیال رکھا جائے تاکہ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی باشعور اور پڑھی
لکھی ہوں تاکہ وہ عملی زندگی میں کچھ کر سکیں اور نسلوں کی بھی بہتر پرورش
ہو سکے۔
انسان کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے اور اس کی تربیت بچے کے اچھے
کردار کی بنیاد بنتی ہے۔ بچے کا زیادہ وقت اپنی ماں کے ساتھ گزرتا ہے اور
وہ اس کے طور طریقے، عادات اور دلچسپیوں کو مستعار لیتا ہے۔ ماں بچے کو
اچھے برے کی تمیز اور صحیح غلط کی پہچان بھی سکھاتی ہے۔ ذہنی پسماندگی کی
وجہ سے ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم کو معیوب سمجھا جاتا رہا ہے، تاہم
گزشتہ کچھ سالوں سے صورتحال میں بہتری آئی ہے اور اب لوگوں کو احساس ہو چکا
ہے کہ عورت کا تعلیم یافتہ اور باشعور ہونا بھی بہت ضروری ہے۔
ہر انسان میں (چاہے وہ مرد ہو یا عورت) بہت سی صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ ضرورت اس
بات کی ہے کہ ان سے فائدہ اٹھایا جائے۔ تعلیم یافتہ لڑکیوں کی بھی ذمہ داری
ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے گھر بلکہ اپنے معاشرے کو فائدہ
پہنچانے کی کوشش کریں۔ آج دنیا بہت تیزی سے آگے جا رہی ہے، جو اس کے ساتھ
نہیں چل پاتا، وہ بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ ایسے میں تعلیمی میدان میں اصلاحات
کے عمل کو تیز کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ ملک میں ناصرف معیارِ تعلیم بہتر
ہو بلکہ خواندگی کی شرح میں بھی اضافہ ہو سکے۔ پروفیسر محمد عثمان صاحب
اپنی کتاب ''نئے تعلیمی تقاضے'' میں لکھتے ہیں کہ ''پورے پاکستان میں ایک
بھی ماہر تعلیم نہیں۔'' اس بات کو یوں بھی دہرایا یا کہا جا سکتا ہے کہ
ہمارے ہاں صحیح معنوں میں تعلیم کا ماہر ایک شخص بھی موجود نہیں ہے۔ جس دن
سے پاکستان وجود میں آیا ہے تعلیم کے میدان میں ہم نے اول درجے کی ایک بھی
شخصیت پیدا نہیں کی اور طلبا اور اساتذہ میں اس وقت جو ذہنی انتشار، ابہام،
جو بے یقینی اور بے قابو پن پایا جاتا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم
اپنا کوئی ماہر تعلیم(Educationist) پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
جب پاکستان بنا تو زندگی کے ہر میدان میں ہمیں ''قحط الرجال'' کا سامنا
تھا۔ ہمیں اچھے اور اہل سیاست دانوں کی ضرورت تھی، اچھے اور اہل افسروں اور
اہلکاروں کی بھی ضرورت تھی۔ اگر اس وقت کی تعلیم اور سیاست میں ''خیبر
پختونخوا'' پر نظر ڈالیں تو خیبر پختونخوا کے ایک ضلع صوابی میں ہم دیکھتے
ہیں کہ اس میں تعلیم کا ریشو بہت زیادہ ہے اور اس ضلع میں ایک گاؤں
''مرغز'' ایسا ہے کہ وہ بہت تاریخی گاؤں ہے اس میں بہت عظیم لوگ گزرے ہیں۔
اب اس گاؤں کو سابقہ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے نام سے لوگ جانتے ہیں۔
وہ اس گاؤں کا ہے اور اس حلقے کا ایم این اے بھی ہے۔ اس کا بھائی عاقب اللہ
اس حلقے کا ایم پی اے ہے اور ان کے حلقے میں ان کے گاؤں مرغز (ونڈ) میں نہ
لڑکیوں کا پرائمری اسکول ہے اور نہ مڈل، ہائی سکول تو بڑی بات ہے۔ اس جگہ
سے بچے چار پانچ کلومیٹر پیدل سفر کر کے سکول جاتے ہیں۔ گاؤں کے لوگوں نے
کئی بار احتجاج بھی کیا۔ آخری احتجاج لوگوں نے بلدیاتی الیکشن سے پہلے کیا
تھا۔ اس وقت تحصیل کیلئے سابقہ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا خالہ زاد
بھائی کھڑا تھا اور اس احتجاج کے دو دن بعد سپیکر اسد قیصر کا پی اے آیا
اور گاؤں کے لوگوں کو کہا کہ سپیکر صاحب نے کہا ہے کہ آپ جاؤ اور گاؤں کے
لوگوں کو بتاؤ کہ اسپیکر صاحب نے آپ کے لئے زمین دے دی ہے۔ اس وقت اسپیکر
پی اے کے ساتھ ساتھ مظہر اور سرور کاکا بھی موجود تھے اور پنڈال میں بھی
بہت لوگ موجود تھے۔ ان سب کے سامنے انہوں نے علان کیا اور اس وقت ان لوگوں
کو زمین بھی الگ دی اور لوگوں سے انہوں نے یہ وعدہ لیا کہ اسپیکر صاحب نے
آپ لوگوں کے لئے زمین دے دی ہے لیکن ووٹ صرف عطااللہ خان کو دو ۔ لوگوں نے
اس سے وعدہ کیا کہ ہم ووٹ عطااللہ خان کو دیں گے۔ جب الیکشن ہوا اور عطا
اللہ خان پاس ہوئے تو جن لوگوں نے اسکول کے لئے زمین دی تھی انہوں نے وہ
زمین واپس لے لی۔ اب لوگ حیران ہیں کہ انہوں نے کہا کہ سکول کے لئے زمین
منظور ہو گی تو منظور زمین کیسے واپس ہو سکتی ہے۔
آپ لوگوں کو یہ بھی پتہ ہو گا کہ صوبائی وزیر تعلیم شہرام خان ترکئی بھی
صوابی کا ہے۔ انہوں نے پوسٹ کیا اور لکھا ہے کہ ''وزیر تعلیم شہرام ترکئی
پشاور میں ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں۔ ان کو اطلاع ملی ہے کہ اس
گھر کے بچے سکول نہیں جاتے۔ انہوں نے خود گھر جا کر بچوں کے والدین کو قائل
کیا کہ بچوں کا داخلہ کرائیں۔ اس گھر کے مکینوں کی دو چھوٹی بیٹیوں کو خود
سکول لے جا کر داخلہ کروایا۔ آپ بھی ہر اس بچے کو سکول لے کر آئیں جو سکول
سے باہر ہیں۔'' ایک طرف وزیر تعلیم شہرام خان ترکئی ہیں جنہوں نے گھر گھر
جا کر بچوں کا سکول میں داخلہ مہم کا آغاز کیا ہے اور دوسری طرف سابق سپیکر
قومی اسمبلی اسد قیصر ہیں۔ وزیرتعلیم شہرام خان ترکئی کے نو سال گورنمنٹ
میں رہنے کے بعد بھی سپیکر قومی اسمبلی جناب اسد قیصر کا آبائی گاؤں
پرائمری اسکول جیسی نعمت سے محروم ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ نہ انہوں نے سکول
بنایا اور نہ ہی کبھی اسمبلی میں اس کے بارے میں آواز اٹھائی۔
کچھ دن پہلے صوبائی اسمبلی کے اجلاس کا ایجنڈا دیکھا تو اس میں ایک ایم پی
اے نے وزیر تعلیم سے سوال کیا کہ ''یونین کونسل ڈھکی چارسدہ میں لڑکوں اور
لڑکیوں کیلئے ہائی سکول موجود نہیں ہے تو حکومت کب تک مذکورہ علاقے کی
لڑکیوں اور لڑکوں کے علیحدہ علیحدہ ہائی سکولوں کے قیام کی منظوری دے گی۔
ہمارے ایم این اے اور ایم پی اے نے کبھی سوال بھی نہیں کیا۔ جب ریسرچ کے
لئے صوبائی اسمبلی گیا اور وہاں پر1973 کی اسمبلی کی تقریر دیکھی تو وہ بھی
ہمارے حلقے کے ایم پی اے تھے۔ ''زیدہ سکول'' کیلئے انہوں نے اپنی ذاتی زمین
دی تھی اور آٹھ کنال شاہ منصور کے لوگوں سے پیسوں پر لی تھی اور اس میں
سکول بنایا تھا۔ اب اس وقت ہمارے ایم پی اے بھی اسمبلی میں خاموش بیٹھے
نہیں ملتے ہیں۔
پتہ نہیں کہ ان کو اسمبلی میں بات کرنے کا اختیار نہیں ہو گا یا کوئی اور
بات ہے۔ عبدالعزیز خان کاکا نے اسمبلی کے اجلاس میں کہا کہ جناب سپیکر میں
مطالبہ زر کی مخالفت کرتا ہوں اور محکمہ تعلیم کے بارے میں کٹوتی کی حمایت
کرتا ہوں کیونکہ محکمہ تعلیم عوام کو یہ سہولت دینے میں ناکام ہو چکا ہے
بلکہ میں یہ عرض کروں گا کہ ہمارا پورے کا پورا نظام تعلیم غلط خطوط پر چل
رہا ہے۔ تمام سکولوں اور کالجوں کو ضروریات کے مطابق سہولتیں نہیں مل رہی
ہیں۔ صوابی میں صرف ایک کالج ہے لیکن وہاں سٹاف کم ہے، سائنس کے آلات اور
دوسری ضروریات پوری نہیں ہو رہی ہیں، اس لئے میں عرض کرتا ہوں کہ جب تک یہ
ضروریات پوری نہیں ہوتی ہیں، میں اس مطالبہ زرکی مخالفت کرتا ہوں۔ دیہاتوں
میں بچے اپنے گھروں سے بوریاں لاتے ہیں اور پھر ان پر بیٹھ کر تعلیم حاصل
کرتے ہیں، اس لئے سکولوں کو چٹائیاں میسر نہیں ہیں بلکہ یہ عرض کروں گا کہ
محکمہ تعلیم نے انہیں کوئی بنیادی سہولت مہیا نہیں کی ہے۔
اکثر وبیشتر سکولوں کی عمارتوں کی حالات ناگفتہ بہ ہے، ان کی مرمت کا فوری
بندوبست کیا جائے، جلسئی نامی ایک گاؤں میں دو پرائمری سکول ہیں۔ وہاں کے
لوگ مڈل سکول کا مطالبہ کرتے ہیں، اس طرف توجہ فرمائی جائے۔ اس کے علاوہ
شاہ منصور میں مڈل سکول کھولا جائے، کنڈہ میں بھی مڈل سکول کھولا جائے،
زیدہ میں ایک پرائمری سکول ہے اس کا رقبہ بہت کم ہے، اس کے مقابلے میں
لڑکیوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ اس طرف بھی مناسب توجہ دی جائے اور ساتھ ہی
اس سکول کا درجہ بڑھایا جائے اور سکول کی عمارت کا لڑکیوں کی تعداد کے پیش
نظر انتظام کیا جائے، سکول کی عمارت کے لئے تین کنال زمین حاصل کی گئی تھی۔
اس زمین پر مناسب تعمیر کرنے کا بندوبست کیا جائے۔ ان وجوہات کی بنا پر میں
اس مطالبہ زر کی مخالفت کرتا ہوں۔ پھر انہوں نے اسمبلی کے ایک اجلاس میں
سپیکر صاحب سے کہا کہ جناب والا میں وزیر صاحب سے یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں
کہ اگر متعلقہ لوگ سکول کی عمارت مہیا کرنے میں ناکام ہوئے ہیں تو کیا یہ
حکومت کی ذمہ داری نہیں کہ وہ عمارت مہیا کرے۔
ہم نے ابھی تک نہیں دیکھا کہ ہمارے ایم پی اے اور ایم این اے نے اس حوالے
سے آج تک کوئی بات کی ہو۔ پتہ نہیں اس کے پیچھے کیا محرکات ہیں۔ آخر میں اس
شعر پر اس مضمون کا تمت بالخیر کہ؛
آپ خود اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ھم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
|