پاکستان کی ترقی کا سفر، ترقی پذیر ممالک سے تقابلی جائزہ

پاکستان کو آزاد ہوئے 75 برس ہوچکے۔ اس آزادی پر ہم رب ذوالجلال کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔ یہ آزادی ہمیں لاکھوں مسلمانوں کی تن من دھن کی قربانیوں کی بدولت ملی ہے۔بلاشبہ پاکستان کی آزادی کا سفر قربانیوں ، جذبوں اور طویل خونچکاں داستانوں پر مشتمل ہے۔ افسوس !جس سے ہماری نئی نسل ناآشنا ہے ۔ 1947ء میں دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت تھی جس کے زخم آج بھی ہرے ہیں ۔ پاکستان کی بنیادوں میں ان بیس لاکھ شہیدوں کا لہو شامل ہے جنہوں نے ا ٓزادی کیلئے اپنی جانیں اس پاک وطن پر وار دیں ۔ گویا آج ان آزاد فضاؤں میں شہداء پاکستان ہم سے وفا کا تقاضا کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں ہماری قربانیوں کا پاس رکھنا۔پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے، پاکستان کی اساس ہی کلمہ لاالہ الااﷲ ہے، پاکستان جن روح پرور نعروں کی گونج پر بنا ہے، ان میں پہلا نعرہ یہ تھا: "پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااﷲ’’۔ لہذا مقاصد پاکستان میں پہلا مقصد اسلام کا عملی نفاذ ہے

یہ قائد اعظم کی بصیرت افروز قیادت ہی ہے جس کی بدولت ہی آج ہمیں بحیثیت ایک آزاد قوم دنیا میں جینے کا موقع ملا ۔ وگرنہ ہمارا حال بھی بھارت میں بسنے والے ان مسلمانوں سے مختلف نہ ہوتا جن پر مسجدوں کے دروازے بند کئے جارہے ہیں ، اذان پر پابندی ہے ، بیف کھانے پر ان کے گلے کاٹے جا رہے ہیں ، جہاں کسی مسلمان کی جان و مال وآبرو محفوظ نہیں ۔الحمداﷲ اج ہم نے آزادی کے پچھتر برسوں کی مسافت طے کر لی ہے ۔ اگرچہ ان 75 سالوں میں ہم نے بہت کچھ کھویا ہے تو پایا بھی بہت کچھ ہے ۔ قوموں کی تاریخ میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں ۔ وہ قومیں ہی ترقی کرتی ہیں جو اپنی کمزوریوں و خامیوں پر قابو پا لیتے ہیں ۔ اگر ایک طرف پاکستانی زوال پذیر ہے تو دوسری جانب ہماری ترقیوں کا سفر بھی جاری و ساری ہے ۔ درحقیت ہم نے ترقی کی ان منازل تک نہیں پہنچ پائے جن کا خواب قائد اعظم نے دیکھا تھا اور جس کیلئے بانیان پاکستان نے اپنی زندگیان نچھاور کر دی تھیں ۔ اس کے باوجود ہماری کامیابیاں و کامرانیاں کم سمیٹی ہیں لیکن یہ مایوس کن نہیں ، بلکہ انشاء اﷲ وہ دن دور نہیں جب اس پاک دھرتی کا شمار بھی ترقی یافتوں قوموں میں ہو گا ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کے مسائل ، سازشیں اور بھارتی ہٹ دھرمی روزِ اول سے ہی ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ اور آج پاکستان کے قیام کو 14 اگست 1947 ء سے 14 اگست 2022 ء تک 75 برس یعنی ڈا ئمنڈ جوبلی کا سال ہے ۔قداعظم پاکستان کے قیام کے بعد 394 روز حیات رہے، آزادی کے اس ایک سال 29 دنوں میں زندگی کے ہر شعبے اور پاکستان کے ہر ادارے کی خبر گیری کی۔ قومیں قیادت سے بنتی ہیں، قائداعظم کے حریف بھی اْن کے حوصلے ، ہمت، صاف گوئی اور ثابت قدمی کے معترف تھے۔ لندن کے اخبار 'نیوز کرانیکل' نے قائداعظم کی وفات کے موقع پر اپنی 12ستمبر1948 ء کی اشاعت میں لکھا تھا کہ ''موت وہ پہلی طاقت ہے جس سے مسٹر جناح نے شکست قبول کی۔''دفاع اور تعلیم قائداعظم کی دو بڑی ترجیحات تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنی وفات سے پہلے اپنے اثاثوں میں اپنے حصے کی رقم پاکستان کے تعلیمی اداروں ، لاہور ، پشاور اور کراچی کو تحفہ کردی تھی۔ ملٹری اکیڈمی کاکول کی بنیاد رکھی جس میں26جنوری 1948 ء کو پہلے کورس کا آغاز ہوا۔ ڈیرہ دون کی ملٹری اکیڈمی بھی قائداعظم کی تحریک اور مطالبے پر قائم ہوئی تھی جس کا پہلا بیچ 1934 ء میں پاس آؤٹ ہوا تھا۔1948 ء ہی میں25 فروری کو اْردو کو قومی زبان کا درجہ دیا مگر75 برسوں میں بھی ملک میں نافذ نہ ہو سکی۔تقسیم برصغیر کے وقت بھارت نے چار ارب روپے کے سرمایہ میں سے ہمارے حصے کے ایک ارب روپے کے بجائے صرف 20 کروڑ روپے دیئے، اثاثوں کی تقسیم میں ناانصافی کی اور پانی بھی روک دیا۔ 1947-48 میں کشمیر پر جنگ ہوئی اور بغیر کسی بیرونی امداد کے پاکستان نے آدھا کشمیر آزادکروایا۔ 1965ء اور1971ء میں بھارت سے دو مزید جنگیں ہوئیں۔ 1951 کی مردم شماری میں اس وقت کے مغربی پاکستان اور آج کے پاکستان کی آبادی 3 کروڑ70 لاکھ تھی۔ 1961ء کی مردم شماری میں آبادی 4 کروڑ 28 کروڑ ہو گئی۔ 1972ء میں آبادی 6 کروڑ 53 لاکھ،1981ء کی مردم شماری میں 8 کروڑ 37 لاکھ جبکہ 1986ء تک یہ آبادی تقریبا دس کروڑ ہو گئی۔ان تمام تر مسائل کے باوجود مذکورہ چار دہائیوں میں ہماری معیشت بہت مستحکم رہی اور ہماری اقتصادی ترقی کی رفتار 6 فیصد رہی، سالانہ فی کس آمدنی دوگنا تھی، 1980ء کی دہائی کے آخر تک 46 فیصد غربت کم ہوکر 18 فیصد ہوگئی، اس دوران امریکی ڈالر کی قیمت 1948-49 میں ڈھائی روپے، 1972ء میں دس روپے،1977ء میں گیارہ روپے اور1987 ء میں 17.7 روپے تھی۔ 1972ء میں دس گرام سونے کی قیمت271 روپے، 1977ء میں دس گرام سونے کی قیمت 603 روپے تھی، یہ قیمت 1983ء میں2240 روپے ہوگئی جبکہ 1987ء میں دس گرام سونے کی قیمت 3340 روپے تھی۔آزادی کے بعد پاکستان نے صنعتی اعتبار سے تیزی کے ساتھ ترقی کی۔پاکستان کی معیشت ہمیشہ مد و جزر کا شکار رہی ہے۔ گو کہ پاکستان کو ورثہ میں بچے کھچے صرف چند ادارے ملے لیکن اس وقت ایک قابل انتظامیہ موجود تھی جس کی بدولت 1950 ء تک پاکستانی معیشت ایک مستحکم درجہ اختیار کرچکی تھی۔پاکستان کی فی کس سالانہ آمدنی 1947 میں 100 ڈالر تھی جو اب بڑھ کر 1798 ڈالر پر پہنچ چکی ہے۔ کوریا کی جنگ میں پاکستانی کپاس، پٹ سن سے خوب زرِ مبادلہ حاصل ہوا۔ لیکن ملکی معیشت میں تبدیلی1958 ء کے بعد آئی۔ پاکستان کا دوسرا پانچ سالہ منصوبہ 1965 ء میں ختم ہوا۔ اس وقت پاکستانی معیشت کو ترقی پذیر ممالک کے لئے ایک ماڈل کی حیثیت حاصل تھی۔ ورلڈ بینک کے مطابق اس وقت جو ممالک پہلی دنیا (ترقی یافتہ ممالک) کا درجہ حاصل کرسکتے تھے، ان میں پاکستان بھی شامل تھا۔ 1965 ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد معیشت میں خرابی پیدا ہوئی لیکن جلد ہی اس پرقابو پالیا گیا تھا ۔ 1965 ء کی جنگ سے پہلے پاکستان کی اقتصادی حالت خاصی بہتر تھی۔ ملک کی مجموعی پیداوار 8فیصد کی شرح سے ترقی کررہی تھی، ماہرین اقتصادیات کا خیال تھا کہ اگر ترقی کی یہ شرح دس سال تک برقرار رہی تو وہ دن دْور نہیں کہ جب پاکستان جاپان کی ہمسری کا دعویٰ کر دے گا۔ حکومتِ پاکستان نے پاکستان کی معیشت کو مضبوط کرنے کیلئے پہلا پانچ سالہ منصوبہے کا یکم اپریل 1955 کو آغاز کیا، جو کہ 31 جولائی 1960 ء تک جاری رہا۔ اس منصوبے میں ایک ہزار 80 کروڑ کی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا گیا،جن میں پیپر، کارڈ بورڈ، فرٹیلائزر اور کیمیکلز سمیت دیگر انڈسٹریز شامل تھیں۔ ان اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کی معیشت اپنے پاوں پر کھڑی ہو گئی اور بالآخر اس اقتصادی منصوبے کے باعث ملکی آمدنی (نیشنل انکم) میں 11 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ عام آدمی کی زندگی پر بھی اس کے مثبت اثرات پڑے اور فی کس آمدن میں 3 فیصد اضافہ بھی دیکھنے میں آیا۔پاکستان کادوسرا اقتصادی دور ، جو کہ 1950 ء سے لے کر 1960 ء کی دہائی پر محیط تھا، اس دوران ملک میں معاشی ترقی کی اوسطً شرح ترقی 3.06 فیصد رہی۔ اسی دہائی میں ملک میں زرعی شعبے نے شرح نمو میں اوسطً 1.63 فیصد اپنا حصہ ڈالاجبکہ مینوفیکچرنگ سیکٹر کی 1950 ء سے 1960 کے دوران اسطً شرح نمو 7.6 فیصد تھی۔اسی طرح سروسز سیکٹر میں دوسرے اقتصادی دور کے دوران ہونے والی ترقی کی اوسطً شرح نمو 3.42 فیصد تھی ۔جون 1960 ء کو ملک میں دوسرے پانچ سالہ اقتصادی منصوبے کا اعلان کیا گیا جس کا کل حجم 19 ارب روپے مقرر کیا گیا، 1965 ء میں پاکستان میں تیسرا پانچ سالہ اقتصادی منصوبہ لایا گیا، جس کیلئے حکومت نے ملک میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے 52 ارب روپے مقرر کیے۔ تاہم اس عرصے میں ملکی معاشی ترقی کی شرح اوسطً 6.76 فیصد رہی۔ جبکہ۔ اس عرصے کے دوران زرعی ترقی کی شرح 5.06 فیصد، مینوفیکچرنگ سیکٹر نے تقریباً 9.92 فیصد، جبکہ سروسز سیکٹر نے 6.74 فیصد کی شرح سے ترقی کی۔ اس دہائی میں عام شہری کی زندگی میں بہتری آئی اور اس کی فی کس آمدن میں بھی اضافہ ہوا۔70 ء کی دہائی کے دوران پاکستان کی جی ڈی پی میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ 71ء میں مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہو گیا ،اس مایوس کن عرصے میں روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قیمت 4.76 روپے سے بڑھ کر 11 روپے تک جا پہنچی۔ اس کے ساتھ ہی ملک میں تمام بڑی نجی صنعتوں کو قومی تحویل میں لے لیا گیا،جس سے معیشت پر منفی اثرات پڑے اورسرمایہ کاروں کی کثیر تعداد نے پاکستان کی بجائے دیگر ممالک میں سرمایہ کاری کرنے کو ترجیحی دی۔ چوتھے پانچ سالہ اقتصادی منصوبہ 1970 سے لے لر 1975 تک رہا جس کیلئے 75 ارب روپے مختص کیے گئے، تاہم حکومتِ وقت اس اقتصادی منصوبے کے طے شدہ اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام رہی ، اور اس منصوبے کا اختتام ہو گیا۔ 1983 ء میں چھٹے پانچ سالہ اقتصادی منصوبے کے تحت حکومت کی جانب سے مختص کی جانے والی رقم میں دوگنا اضافہ کرتے ہوئے ، ریکارڈ 495 ارب روپے مقرر کیے دیے گئے۔ ملکی تاریخ کے اس پانچویں اقتصادی دور کے دوران ملک میں زرعی ترقی یا پیداوار میں سالانہ 6.2 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا، جس کی ایک وجہ ان دس سالوں میں ملک میں کاٹن، چاول، گندم اور چینی کی پیدوار میں اضافہ تھا۔2000ء میں غربت کی شرح جو 2001 ء میں 34 فیصد پر تھی، سال 2005 ء میں کم ہو کر 22 فیصد تک جا پہنچی۔ ان سالوں میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے نجی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کیلئے اقدامات کیے گئے جس سے ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں روانی پیدا ہوئی۔ ملک میں ٹیلی کمیونیکیشن اور آٹو مینوفیکچر سیکٹر میں سرمایہ کاری کو فروغ ملا۔اگر پاکستان کے گزشتہ اقتصادی دور2010-2020 کی بات کی جائے تو پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح اوسطاً 3.61 فیصد رہی، جس میں سے سب سے زیادہ معاشی ترقی کی شرح سال 2017 سے 2018 کے دوران 5.53 فیصد رہی، جبکہ سب سے کم ریکارڈ ہونے والی معاشی ترقی کی شرح سال 2019 ء سے 2020 کے دوران منفی 0.47 تھی۔ دہائیوں پر پھیلی پاکستان کی معیشت اعدادوشمار کے لحاظ سے اتار چڑھاوسے بھرپور ہے۔معاشی آزادیوں سمیت کاروبار، عدلیہ، مزدوری، تجارت، سرمایہ کاری اور حکومت سمیت متعدد شعبوں میں بھارت کا مجموعی نمبر نیچے سے 60 ہے جبکہ انہیں شعبوں میں پاکستان کا نمبر 0.1 پوائنٹ بہتر یعنی 60.1 ہے۔پاکستان جی ڈی پی کے حوالے سے دنیا کی 40ویں بڑی معیشت ہے جبکہ بھارت کا نمبر چھٹا ہے۔ پاکستان کی فی کس آمدنی 1798 جبکہ بھارت کی 1850 ڈالر ہے۔پاکستان کی معیشت کا مجموعی حجم 346 ارب ڈالر جبکہ بھارت کا 31 کھرب ڈالر ہے۔پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ہے جنہوں نے گذشتہ چھ دہائیوں میں مسلسل پانچ فیصد کی شرح نمو حاصل کی ہے۔غربت کی شرح جو 2015 تک 40 سے کم ہو کر 24 فیصد پر آگئی تھی اس میں پچھلے سات سالوں میں پھر اضافہ ہوا اور وہ 39 فیصد پر پہنچ چکی ہے، جبکہ بھارت میں غربت کی شرح 27 فیصد ہے۔اس مالی سال میں پاکستان کی سالانہ برآمدات 26 جبکہ بھارت کی 670 ارب ڈالر ہیں۔پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 14 جبکہ بھارت کے 594 ارب ڈالر ہیں۔پاکستان میں بیروز گاری کی شرح 16 اور بھارت میں آٹھ فیصد ہے۔بھارت کا بیرونی قرضہ 620 ارب ڈالر ہے جو اس کے جی ڈی پی کا 21.2 فیصد ہے، جبکہ پاکستان کا کل بیرونی قرضہ 126 ارب ڈالر ہے جو اس کے جی ڈی پی کا 28.5 فیصد ہے۔بھارت میں شرح خواندگی77.7 اور پاکستان میں 62.3 فیصد ہے۔بھارت کی 41 اور پاکستان کی چار یونیورسٹیاں دنیا کی ایک ہزار بہترین یونیورسٹیوں میں شامل ہیں۔پاکستان صحت کے شعبے پر اپنے جی ڈی پی کا 1.2 اور بھارت 1.35 فیصد خرچ کرتا ہے۔بھارت کی صرف 25 اور پاکستان کی 50 فیصد آبادی کو پرائمری ہیلتھ کیئر کی سہولت میسر ہے۔پاکستان کی 80 اور بھارت کی 50 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے جبکہ دنیا میں یہ شرح 24 فیصد ہے۔فضائی آلودگی کے حوالے سے پاکستان چوتھا اور بھارت دنیا کا دوسرا آلودہ ترین ملک ہے۔بھارت کی 38 فیصد جبکہ پاکستان کی چھ فیصد بجلی متبادل توانائی کے ذرائع سے پیدا ہوتی ہے جن میں شمسی اور ہوا کے ذرائع بھی شامل ہیں۔آزادی کے وقت پاکستان میں بجلی کی پیداوار 70 میگا واٹ تھی جو اب بڑھ کر 37261 میگا واٹ ہو چکی ہے۔کسی ملک کی ترقی کا انحصار اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ وہاں کی خواتین کتنی با اختیار ہیں اور قومی ترقی میں ان کا کردار کیا ہے۔پاکستان میں خواتین میں شرح خواندگی کا تناسب 46.49 فیصد اور لیبر فورس میں تناسب 22 فیصد ہے جو کہ جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے۔تاہم حالیہ سالوں میں پاکستان میں مینیجر لیول کی حامل خواتین کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور اب یہ شرح 20.53 فیصد پر پہنچ گئی ہے جس کا واضح مطلب ہے کہ اس میدان میں پاکستانی خواتین نے بھارتی خواتین کو مات دے دی ہے۔بھارت دنیا کے 142 ممالک میں چوتھے اور پاکستان نویں نمبر کی بڑی دفاعی طاقت ہے۔پاکستان اپنے جی ڈی پی کا 2.2 اور بھارت 2.7 فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ پاکستان کے پاس 120 ایٹمی وار ہیڈز ہیں۔ ان 50 برسوں میں بنگلہ دیش بھی ہم سے آگے نکل گیا ہے ۔ بنگلہ دیش کی معیشت کا حجم ا?ج 338 ارب ڈالر جبکہ پاکستانی معیشت کا حجم صرف 264 ارب ڈالر ہے، بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی 2064 جبکہ پاکستان کی فی کس آمدنی 1271 ہے، بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر 52 ارب ڈالر جبکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر صرف 21 ارب ڈالر ہیں، بنگلہ دیش کی ایکسپورٹس45ارب ڈالر جبکہ پاکستان کی ایکسپورٹس محض 25 ارب ڈالر ہیں۔گزشتہ 50 برسوں میں بنگلہ دیش کی جی ڈی پی گروتھ اوسطاً 7.9 جبکہ پاکستان کی 1.5 رہی۔ ڈالر کے مقابلے میں بنگلہ دیشی ٹکا 85 جبکہ پاکستانی روپیہ 180کی سطح تک گرچکا ہے، بنگلہ دیش میں غربت کی شرح 20 سے بھی کم ہے جبکہ پاکستان میں غربت کی شرح 40 فیصد سے تجاوز کرگئی ہے، بنگلہ دیش میں خواندگی کی شرح 90 فیصد جبکہ پاکستان میں 70 فیصد سے بھی کم ہے۔ یہ چارٹ مجھ سمیت ہر پاکستانی کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔گر اْسی ملک نے 50 برسوں میں حیرت انگیز ترقی کی اور ہمیں پیچھے چھوڑتے ہوئے ایک پسماندہ ملک سے ترقی پذیر ملک کا درجہ حاصل کرلیا اور وہ دن دور نہیں لگتاجب بنگلہ دیش ترقی یافتہ ممالک کی صف میں آکھڑا ہوگا۔ قبل ازیں مشرقی و جنوب مشرقی ایشیا کے کئی ممالک کی مثالیں ہیں، ساٹھ کی دہائی میں ترقی میں پاکستان ان کا رول ماڈل تھا ۔اب وہی ریاستیں علم ، سائنس ، ٹیکنالوجی میں ہم سے آگے ہیں ۔چین اس کی بہترین مثال ہے ۔چین نے ہم سے بعد میں آزاد ی حاصل کی ااج وہ ناقابل تسخیر معاشی و عسکری قوت بن چکا ہے جس سے امریکہ سمیت بڑی یورپی طاقتیں بھی خوفزدہ ہیں ۔جرمنی ہم سے آگے نکل گیا ، ایوب خان کے دور میں جرمنی کو 12 کروڑ کا قرضہ دیا گیا تھا ۔ جاپان کوبھی ہم نے قرضہ دیا تھا ۔ شمالی کوریا نے بھی ہم سے پنجسالہ منصوبہ لیا تھا ۔اس کے باوجود ماہرین معاشیات پر امید ہیں کہپاکستان پر عوامی قرضوں کی سطح گھانا، مصر، زمیبیا اور سری لنکا سمیت دیگر ملکوں کے مقابلے میں بہت کم ہے، جی ڈی پی پر ہمارا عوامی قرض 70 فیصد ہے جبکہ زمیبیا کا قرض 100فیصد اور سری لنکا کا قرضہ اس وقت 120 فیصدپر پہنچ چکا ہے۔دوسری وجہ بیرونی قرضہ ہے، پاکستان پر بیرونی قرضہ 40 فیصد ہے جبکہ تیونس کا 90 فیصد، انگولا کا 120 اور زمیبیا کا 150فیصد سے بھی زیادہ ہے، اس کا مطلب پاکستان کیلئے بیرونی قرضے اتنے اہم نہیں بلکہ اندرونی قرضے اہم ہیں۔ مختصر دورانیے کے قرضے ہیں، پاکستان کے کیس میں صرف 7 فیصد بیرونی قرضہ ہے۔اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ نامساعد حالات میں ہم اٹیمی قوت سے سرفراز ہوئے ، ہمارے ڈاکٹروں ، انجنئیروں نے دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس کی روشن مثال ہے ۔ ڈاکٹر عبدالسلام جن کو نوبل انعام سے نوازا گیا ۔ ہمارے کھلاڑیوں نے کامیابیوں کے تاریخی ریکارڈ قائم کئے ، اسکوائش ، کرکٹ ، ہاکی اور حالیہ کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان کے کھلاڑیوں کی عمدہ پر فامنس نے قوم کے سر فخر سے بلند کر دیا ہے ۔ پاکستان نے مختلف صنعتوں اور شعبوں میں ترقی کی ۔ سب سے بڑی کامیابی ہے کہ ہمارے پاس اسلامی آئین ہے جس کی بنیاد لا الہ الااﷲ پر ہے بہت سے مسلم ممالک بھی اس فضیلت سے محروم ہے ۔ درحقیقت آزادی کے بعد ابتدائی دو ر میں کم وسائل کے باوجود پاکستان نے روز افزوں ترقی کی ۔ کئی سر پلس بجٹ پیش کئے ۔ بھارت کے برعکس اپنی کرنسی ڈی ویلیو نہیں کی ۔مجموعی انفراسٹرکچر اور اداروں کے قیام میں حوصلہ افزاء پیش رفت ہوئی ہے پاکستان کے علاقوں میں صحت کے بڑے بڑے مراکز موجود ہیں۔ پورے ملک میں سڑکوں کا جال بچھایا جا رہا ہے ۔قدرت نے پاکستان کو پندرہ سو کلومیٹر طویل سمندری ساحل کی نعمت سے نوازا ہے ۔پاکستان میں آبی منصوبے زیر تکمیل ہیں ۔ سی پیک جیسا انقلابی تاریخ ساز منصوبہ ہمارے روشن مستقبل کی ضمانت ہے ۔س کے باوجود نامساعد حالات میں ہم اٹیمی قوت سے سرفراز ہوئے ، ہمارے ڈاکٹروں ، انجنئیروں نے دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس کی روشن مثال ہے ۔ ڈاکٹر عبدالسلام جن کو نوبل انعام سے نوازا گیا ۔ ہمارے کھلاڑیوں نے کامیابیوں کے تاریخی ریکارڈ قائم کئے ، اسکوائش ، کرکٹ ، ہاکی اور حالیہ کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان کے کھلاڑیوں کی عمدہ پر فامنس نے قوم کے سر فخر سے بلند کر دیا ہے ۔ گزشتہ 75 برسوں میں بہت مضبوطی دکھائی ہے اور عزت بھی کمائی ہے۔ پاکستان کو یقینا بہت سے مشکل اور کٹھن مراحل سے گزرنا پڑ ا ہے لیکن پاکستان کے قدم نہیں ڈگمگائے۔ پاکستان ڈٹ کر کھڑا رہا ہے۔ پاکستان الحمداﷲ آج ایک ایٹمی قوت ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک ہیں۔ پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے دہشت گردی کے عفریت کو جڑ سے اْکھاڑ پھینکنے میں بہت اہم کردار ادا کیا اور اس کی کارکردگی دنیا کے دیگر ممالک سے بہت بہتر رہی۔ آج بھی پاکستان متعدد میدانوں میں باوقار ممالک کی صف میں کھڑا ہے۔ اور وہ وقت دْور نہیں جب پاکستان درپیش چیلنجز پر ایک ایک کرکے قابو پالے گا اور ملک صحیح معنوں میں ترقی و خوشحالی اور وقار کی منازل طے کرے گا۔

 
Bushra Naseem
About the Author: Bushra Naseem Read More Articles by Bushra Naseem: 28 Articles with 23147 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.