|
|
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بادشاہ نے ایک بار اعلان کیا
کہ اس کی مملکت کا سب سے خوبصورت بچہ اس کے سامنے پیش کیا جائے وہ اس کو
انعام و اکرام سے نوازے گا۔ اگلے دن اس کی مملکت کی مائيں اپنے خوبصورت اور
صحت مند بچوں کو لے کر بادشاہ کے دربار میں حاضر ہو گئيں ان میں ایک عورت
اپنے کالے بھجنگ کو گود میں اٹھائے اس مقابلے میں موجود تھی۔ جب لوگوں نے
اس عورت کی توجہ اس بات کی طرف دلائی کہ اس کا بچہ اس مقابلے میں شرکت کے
قابل نہیں تو اس عورت کا جواب تھا کہ میری نظر سے دیکھو تو اس سے زيادہ
حسین بچہ اس پوری دنیا میں کوئی دوسرا نہیں ہے تو یہی بات ہر بیٹے کی ماں
پر صادق آتی ہے- |
|
اپنے بیٹے کے لیے ہر ماں
کو خوبصورت شہزادی کی تلاش |
بیٹے کے سر پر سہرا سجانے کا خواب ہر ماں کے دل میں ہوتا
ہے۔ اور اس کو پریوں جیسی بہو بھی چاہیے ہوتی ہے۔ بیٹا جیسا بھی ہو بہو
خوبصورت ہونی چاہیے تاکہ آگے بچے خوبصورت ہوں- یاد رکھیں خوبصورت سے زیادہ
خوب سیرت ہونا زیادہ اہم ہیں تب ہی زندگی خوبصورت بن سکتی ہے- |
|
بیٹا اگر پڑھا لکھا نہیں
تو بیوی پڑھی لکھی ہونی چاہیے |
آج کل کی ماؤں میں ایک اور خیال بھی جڑ پکڑتا جا رہا ہے
کہ اگر ان کا بیٹا کم تعلیم یافتہ ہے یا اس کی نوکری اچھی نہیں ہے تو وہ
ایسی بہو تلاش کرتی ہیں جو تعلیم یافتہ ہو اور نوکری بھی کرتی ہو تو بہت
بہتر ہے۔ اس موقع پر وہ ایک بہت ہی مشہور و معروف جملہ کہتی ہیں کہ ہم نے
تو مر جانا ہے گھر تو ان دونوں کا ہی ہے مل کر کمائیں گے اور مل کر گھر
بنائیں گے- یقیناً میاں بیوی ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں لیکن ضروری
یہی ہے کہ جس فرد کی جو ذمہ داری وہ خود اسے پورا کرے نہ کہ اس کی امید
دوسرے فرد سے رکھے- بنیادی ترجیح لڑکی میں موجود گھر سنبھالنے کا ہنر ہونا
چاہیے اور یہ ہنر لڑکی میں ضرور دیکھیں اور اگر ساتھ اس میں اگر گھر کی
آمدن میں اضافہ کرنے کا ہنر اضافی موجود ہے تو اسے اس کی مدد سمجھا جائے نہ
کہ ذمہ داری- |
|
بیٹے کی عمر کچھ بھی ہو مگر بہو کم عمر
ہونی چاہیے |
ایک اور چیز جس کی خواہش ہر ماں کے دل میں ہوتی ہے کہ اس کی بہو کم عمر
ہونی چاہیے۔ کم عمری کے ساتھ ان کی یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ اس کم عمری میں
بھی ان کی بہو تعلیم یافتہ ہونی چاہیے اس کے ساتھ سگھڑ ہونا بھی ضروری ہے
یعنی کھانا پکانے سے لے کر سلائی کڑھائی کے فن میں یکتا ہونی چاہیے اور اگر
اس میں سے کسی بھی ہنر میں کمی ہو تو فوراً یہ کہا جاتا ہے کہ ماں باپ نے
کچھ سکھا کر نہیں بھیجا- اس کے علاوہ یاد رکھیں عمروں کا بہت زیادہ فرق
رشتوں میں فرق پیدا کرتا ہے- اس لیے اپنے بیٹے کی عمر کو مدنظر رکھتے ہوئے
ہی لڑکی تلاش کریں تاکہ بعد میں آپ کو کسی قسم کی شکایت پیدا نہ ہو- |
|
|
|
بیٹے کا مزاج کیسا بھی
ہو بہو کم گو ہو |
لڑکی اگر تقریباً گونگی ہو تو یہ بہت بہتر ہے کیوں کہ ان
کے غصے کے تیز بیٹے کے ساتھ گزارا کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے غصیلے اور بد
مزاج بیٹے کے لیے ایسی خواتین ٹھنڈے مزاج کی لڑکی کی تلاش کرتی ہیں تاکہ وہ
خاموشی سے ان کے بیٹے کی بدمزاجیاں برداشت کر سکے- یہاں ضروری ہے کہ لڑکی
کی برداشت کی حد جانچنے کے بجائے اپنے بیٹے کو برتاؤ کا طریقہ سکھائیں اور
لڑکی میں بھی یہ صلاحیت موجود ہونی چاہیے کہ وہ برداشت کے بجائے آپ کے بیٹے
کو بدلنے کا ہنر بھی جانتی ہو- |
|
جہیز شاندار ملنا چاہیے |
اکثر خواتین بیٹے کو ایک لاٹری سمجھتی ہیں جو ان کے گھر
کو سامان سے بھر سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ ایسی
لڑکی کی تلاش کریں جو ان کے گھر کو سامان سے بھر سکے تاکہ وہ نہ صرف دوسروں
پر رعب جما سکیں بلکہ اپنے بیٹے کی آنے والی زندگی بھی سسرال والوں کے دیے
گئے سامان سے عیش و عشرت سے گزر سکے- یاد رکھیں ایسی خواہش صرف آپ کو لالچی
اور خودغرض ثابت کرسکتی ہے- لڑکی میں موجود سلیقہ اور طور طریقہ ہی اس کی
اصل جہیز ہوتا ہے اور یہ آپ کے گھر کو روشن کر سکتا ہے- |
|
|
|
یاد رکھیں! شادی کوئی کاروبار نہیں ہوتی ہے اور
نہ ہی آپ کا بیٹا کوئی چیز ہے جس کی مارکیٹ میں آپ قیمت لگا کر اس کے بدلے
دوسرے کی بیٹی کو خریدیں۔ گھر محبت اور احساس سے بنتے ہیں۔ جس طرح آپ کی
بیٹی آپ کو عزیز ہوتی ہے اسی طرح سے اپنی بہو کو بھی اپنے بیٹے کی کمزوریوں
پر پردے ڈالنے کے لیے نہ لائيں بلکہ حقیقت پسندی سے اس کی کمزوریوں کو
دیکھتے ہوئے اس کے لیے ایسی ہی لڑکی تلاش کریں جو اس کے ساتھ نبھا کرسکے- |