گناہوں کی سزا نہیں حکمرانوں کی غفلت ۔۔۔ کب تک بارش اور سیلاب کو قدرتی آفت کہہ کر جان چھڑاتے رہیں گے؟

image
 
پاکستان ان دنوں ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب کی صورتحال سے دوچار ہے، مون سیزن کے دوران شدید بارشوں کے بعد سیلاب سے اب تک 11 سو کے قریب افراد ہلاک اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق رواں سال جولائی میں 1961 کے بعد سب سے زیادہ بارشیں ریکارڈ کی گئی ہیں جس کی وجہ سے سیلاب کی صورتحال پیدا ہوئی لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ پاکستان میں جتنی بارش سے سیکڑوں انسان ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوئے اس سے کئی گنا زیادہ بارشیں تو دنیا میں عام سی بات ہے۔ آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ پاکستان میں اس سال کہاں کہاں کتنی بارش ہوئی اور دنیا کے مختلف ممالک میں کتنی بارش ہوتی ہے۔
 
پاکستان میں رواں سال مون سون سیزن کا آغاز 30 جون سے ہوا۔ محکمہ موسمیات کے مطابق پاکستان میں 1961 کے بعد 181 فیصد زیادہ بارش ریکارڈ کی گئی۔
 
آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ بلوچستان اور سندھ میں اوسط سے 450 فیصد اور 308 فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں، پنجاب میں 116 فیصد، گلگت بلتستان میں 32 فیصد اور خیبر پختونخوا میں اوسط سے 30 فیصد زیادہ بارش ریکارڈ کی گئی۔
 
یہ حقیقت ہے کہ اس سال مون سیزن کا دورانیہ کافی طویل رہا اور پاکستان میں مون سون سیزن میں اوسط 144 ملی میٹر بارش ہوتی ہے تاہم اس بار سب سے زیادہ 784 ملی میٹر تک بارش ریکارڈ کی گئی ۔
 
 
اس سے پہلے کہ ہم آپ کو دنیا میں ہونیوالی معمول کی بارش کے بارے میں بتائیں ۔ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کیا یہ بارش اچانک ہوئی تھی؟
 
اس کا جواب ہے نہیں۔۔۔ کیونکہ محکمہ موسمیات مون سون سے کئی ماہ پہلے سے اس سال معمول سے زیادہ بارش کی پیش گوئی اور متعلقہ اداروں کو متنبہ کرتا رہا لیکن ہمیشہ کی طرح ہمارے ادارے تباہی کا انتظار کرتے رہے۔
 
لیکن اگر ہمارے ادارے بروقت حرکت میں آتے تو قیمتی انسانی جانوں کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکتا تھا جیسا کہ ہم نے خیبر پختونخوا میں دیکھا کہ ایک خاتون ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر قرۃ العین نے گھر گھر جاکر لوگوں کو نکالا اور محفوظ مقام پر منتقل کیا اگر اسی طرح سندھ، جنوبی پنجاب، بلوچستان اور سوات ودیگر علاقوں میں بھی انتظامیہ بروقت ہوش میں آجاتی تو شائد ایک ہزار سے زائد قیمتیں زندگیاں ضائع نہ ہوتیں۔
 
اب آپ کو بتاتے ہیں کہ جتنی بارش میں پاکستان تباہی سے دوچار ہوگیا ہے اتنی بارشیں تو کئی ممالک میں کسی گنتی میں بھی نہیں آتیں۔
 
دنیا میں سب سے زیادہ بارشیں کولمبیا میں سالانہ تقریباً 3 ہزار 240 ملی میٹر میں ہوتی ہیں لیکن یہاں نہ تو سیلاب کی صورت حال بنتی ہے نہ قدرتی آفت کہہ کر انسانی زندگیوں پر فاتحہ پڑھ لی جاتی ہے بلکہ یہاں زندگی معمول کے مطابق جاری رہتی ہے۔
 
اگر ہم ایشیا کی بات کریں تو یہاں ملائیشیا میں سالانہ تقریباً 2875 ملی میٹر بارش ہوتی لیکن نہ قدرتی آفت کا رونا ہوتا ہے نہ گناہوں کی دہائیاں دی جاتی ہیں بلکہ عوام کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جاتا ہے۔
 
image
 
اگر ہم پاکستان کی کوکھ سے جنم لینے والے بنگلہ دیش کی مثال بھی لے لیں تو وہاں سالانہ 2 ہزار 6 سو 66 ملی میٹر بارش ہوتی ہے لیکن وہاں بھی ایسی صورتحال کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔
 
پاکستان بارش کے حوالے سے دنیا میں 145 کے قریب ہے لیکن یہاں بارش کی چند بوندوں کے ساتھ ہی حادثات شروع ہوجاتے ہیں، کہیں کھڈے تو کہیں کھلے گٹر انسانوں کو اپنی آغوش میں لے لیتے ہیں تو کہیں برسات کا پانی گھر میں داخل ہوکر لوگوں کو محصور بنا دیتا ہے۔گاؤں دیہات میں تو بارش کا تصور ہی محال ہے۔
 
یہ حقیقت ہے کہ قدرت کے سامنے کسی کا زور نہیں چلتا لیکن اگر یہ گناہوں کی سزاء ہے تو کیا صرف گاؤں دیہاتوں میں ہی گناہ ہوتے ہیں؟
 
کیا پاکستان میں صرف غریب ہی گناہ کرتے ہیں؟ کیا صرف غریب اور مفلوس لوگوں کی جھونپڑیوں اور کچے مکانوں کیلئے ہی عذاب آتا ہے؟
 
اگر ایسا نہیں تو پھر ہم کب تک اپنی غفلت اور لاپرواہی کو قدرتی آفت اور گناہی کی سزا کہہ کر جان چھڑواتے رہے ہیں؟
 
جب تک غفلت کے ذمہ داران کا تعین نہیں ہوگا، قدرتی آفات کے نام پر غریب یونہی مرتے رہیں گے اور حکمران گناہوں کا الزام لگاکر غریب کے زخمیوں پر نمک پاشی کرتے رہیں گے۔
YOU MAY ALSO LIKE: