|
|
کیا ہمارے ڈراموں میں دکھائی جانے والی میاں بیوی کی بے
وفائیاں اور اخلاقی اقدار کی پستی سچ ہے؟ پاکستانی ڈراموں کا اگرچہ بنیادی
مقصد ہمیشہ تفریح فراہم کرنا رہا ہے لیکن یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ جدید
دور میں بہت سے اہم موضوعات پر بیداری پیدا کرنے کے لیے ڈراموں کا سہارا
لیا جا رہا ہے جو شاید ماضی میں نہیں تھا۔ ان مضامین میں گھریلو زیادتی،
جنسی زیادتی، بے وفائی سے لے کر خواتین کو کمزور جنس کے طور پر سمجھا جانے
کے خیال تک شامل ہیں۔ ایسے موضوعات جن کے بارے میں ماضی میں بات کرنا بھی
شاید سماجی اصولوں کے مطابق ممنوع سمجھا جاتا تھا اب ڈرامہ سیریلز کے ذریعے
ان پہلوؤں کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔ |
|
ہم ان سیریلز میں جو موضوع تواتر کے ساتھ دیکھ رہے ہیں
وہ ہے میاں بیوی کی اپنے رشتے میں بے وفائی ۔ رائٹرز حساس ہوتے ہیں بہت سی
چیزیں وہ ایک عام انسان سے پہلے محسوس کر لیتے ہیں تو کیا وہ معاشرے میں اس
بے وفائی کو محسوس کر رہے ہیں؟ طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح بھی اس جانب ایک اہم
اشارہ کر رہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں صبر اور رشتوں کو نبھانے کا کلچر ختم
ہوتا جا رہا ہے۔ بے شک اب ہمارے ڈراموں میں بہت زیادہ انڈین ڈراموں کی جھلک
نظر آتی ہے اور ان موضوعات کو مرچ مصالحہ لگا کر پیش کیا جا رہا ہے لیکن
رائی ہے تو پہاڑ دکھایا جا رہا ہے، جب ہم اپنے آس پاس دیکھتے ہیں تو واقعی
محسوس ہو رہاہے کہ اس طرح کے واقعات اب عام نوعیت اختیار کر رہے ہیں۔
معاشرہ آخر کدھر جا رہا ہے۔ |
|
یہاں جس مسئلے کو اجاگر کرنا مقصد ہے وہ ہے معاشرے کی بدلتی ہوئی اقدار جس
میں اخلاق کہیں کھو گیا ہے۔ اخلاقیات انسانی فطرت اور کسی بھی معاشرے کا
ایک خاصہ ہوتی ہیں۔ تاہم بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کے اخلاقی طرز عمل
بھی بدل گئے ہیں۔ لوگوں کے موجودہ طرز زندگی نے انہیں مالی اور کیرئیر کی
ترقی کی خواہش میں مبتلا کر دیا ہے جو ہمیں خودغرضی کی طرف لے جا رہا ہے۔
مثال کے طور پر، ساتھی، دوست یا شراکت دار ایک دوسرے کی کاٹ میں لگے ہوتے
ہیں۔ یہ ذاتی اور پیشہ ورانہ اخلاقیات کی کمی کو ظاہر کرتا ہے جبکہ معاشرتی
حساب سے یہ ایک اخلاق سے گری ہوئی حرکت ہے۔ معاشرے میں یہ رویہ قبول کیا جا
رہا ہے اسی لئے تو یہ عادات پروان چڑھ رہی ہیں۔ شوہر یا بیوی کسی دوسرے
انسان کی تلاش میں کیوں جائیں گے ظاہر ہے اپنے کسی ذاتی مفاد کے لئے ۔۔۔ڈرامہ
سیریل "میرے پاس تم ہو "اور "دلربا "میں کچھ اس طرح کے مسائل کو دکھایا گیا
ہے جو اب ایک حقیقت بنتی جارہی ہے۔ لوگ اتنے مادہ پرست ہوتے جا رہے ہیں کہ
ان کے نزدیک اچھے انسان سے ذیادہ دولت اہمیت رکھتی ہے۔ |
|
|
|
پچھلی چند دہائیوں کے دوران ٹیکنالوجی میں ہونے والی
ترقی اور ہمارے رہن سہن میں آنے والی بہت سی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ انسان
کا دل اور دماغ بھی بدل گیا ہے۔ ہم اتنے بے حس اور بے رحم ہو چکے ہیں کہ
اپنے قول و فعل سے لوگوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ ہم دوسروں کے لیے جان بوجھ
کر پریشانیاں پیدا کرتے ہیں ان کے لیے جان بوجھ کر مسائل پیدا کرتے ہیں —
یہ سب کس لیے؟ ہمارے اپنے فائدے کے لیئے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے معاشرے میں
اخلاقیات زوال پذیر ہیں۔ ’’بے حیائی‘‘ معمول بن چکی ہے۔ اس کی سب سے بڑی
وجہ روحانی ٹریننگ کا نہ ہونا ہے۔ اب ایک بڑا کنبہ ایک چھوٹی سی نیوکلئیر
فیملی میں بدل چکا ہے۔ بزرگوں کی کمی کا مطلب آپ کی روحانی ٹریننگ کا فقدان
ہے۔ والدین کے پاس وقت نہیں کیونکہ انھیں معاشرتی ضرورت کے مطابق اپنے رہن
سہن کو معیاری بنانا ہے۔ اور رہن سہن اب صرف ظاہری نمودونمائش تک محدود ہو
گیا ہے۔ بس آپ کا گھر شاندار ہو برینڈڈ کپڑے آپ پہنتے ہوں تو لوگوں کو آپ
اپنی ان دو خصوصیات کی بناء پر آسانی سے متاثر کر سکتے ہیں ان سب چیزوں میں
ایک بااخلاق اور باکردار انسان کھو چکا ہے۔ |
|
ایک زمانہ تھا جب ایک صاحبِ علم آدمی کو دولت مند نہ
ہونے کے باوجود بہت عزت و تکریم کے قابل سمجھا جاتا تھا، جب باہمی تعلقات
میں جھوٹ اور دھوکہ دہی کو قابل مذمت سمجھا جاتا تھا۔ آج کے اس معاشرے میں
جھوٹ اور دھوکہ دہی حتیٰ کہ عدالت میں جھوٹی گواہی بھی سب ٹھیک ہے۔ |
|
تاہم اب ایک آدمی کی مالیت کو اس کے مادی ملکیت کے تناسب
سے ماپنے کی طرف زیادہ جھکاؤ ہے اس کی اونچے پیمانے پر پذیرائی کی جاتی ہے
چاہے وہ انتہائی متکبر آدمی ہو مگر فینسی کاروں کا مالک ہونا اور حویلی کا
مالک ہونا اس کی تعریف کے لئے کافی ہے۔ یہ ہی اخلاتی پستی لوگوں کو بالخصوص
ہمارے نوجوانوں کو ڈپریشن کی طرف لے جارہی ہے۔ سب کچھ ہونے کے باوجود آج کا
نوجوان ڈپریشن کا شکار ہے وہ کسی قسم کا پریشر نہیں برداشت کر پاتا کیونکہ
اس کو سختی برداشت کرنے کی عادت ہی نہیں ہے۔ اور بعض اوقات ان مایوسیوں کا
اختتام خودکشی پر ہوتا ہے۔ |
|
|
|
آخر میں یہ کہنا ہے کہ اگر مادیت پسندی نہ ہو
اور ہر چیز کا انحصار ہمارے اخلاقی معیار پر ہو تو ہماری زندگی کیسی ہوگی؟
آپ کے پاس دنیا کا سارا پیسہ ہے لیکن مگر اخلاقی اقدار نہیں ہیں تو آپ
واقعی خالی ہاتھ ہیں۔ |