پاکستان کو حالیہ دنوں سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث
سنگین ترین صورتحال کا سامنا ہے۔ملک میں قیمتی جانوں کے زیاں کے ساتھ ساتھ
املاک کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے اور تین کروڑ سے زائد لوگ سیلاب سے متاثر
ہوئے ہیں۔یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ وہ کیا ایسے عوامل ہیں جن پر عمل پیرا
ہوتے ہوئے مستقبل میں سیلاب یا دیگر آفات سے نمٹنے کی بہتر منصوبہ بندی کی
جا سکتی ہے۔اس حوالے سے ہمارے پاس بہترین مثال چین کی ہے۔گزشتہ دہائی کے
دوران، چین نے آفات سے بچاؤ و امدادی سرگرمیوں اور ہنگامی ردعمل کے جامع
نظام میں نمایاں بہتری لائی ہے۔اس نظام نے ملک میں آفات سے نمٹنے کے لیے
قوانین و ضوابط، عملے، مواد اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے مضبوط تعاون فراہم
کیا ہے۔
گزشتہ دہائی کے دوران، چین نے لوگوں کی جان و مال کے تحفظ کے لیے آفات سے
بچاؤ اور ریلیف کو ہنگامی ردعمل کا مرکز بنایا ہے، اور آفات سے بچاؤ کے
کاموں کی افادیت اور کارکردگی کو بہتر بنایا ہے۔چین نے قدرتی آفات کے خطرات
کے بارے میں پہلے قومی جامع سروے کا اہتمام کیا، زلزلہ زدہ علاقوں میں
مکانات کی مضبوطی، سیلاب پر قابو پانے اور خشک سالی سے نجات کے لیے پانی کے
تحفظ کے ساتھ ساتھ آفات سے متاثرہ علاقوں میں مکینوں کی نقل مکانی سمیت
دیگر کلیدی منصوبوں کو نافذ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ2013 تا 2021 کے عرصے کے
دوران، قدرتی آفات میں ہر سال اوسطاً ہلاک یا لاپتہ ہونے والے افراد کی
تعداد میں 2000 تا2012 کی مدت کے مقابلے میں 87.2 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
دریں اثنا، چین کی جی ڈی پی میں قدرتی آفات سے ہونے والے براہ راست معاشی
نقصانات کا تناسب ہر سال اوسطاً 61.7 فیصد کم ہوا ہے۔ حالیہ برسوں میں
انتہائی تباہ کن موسمی واقعات کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث سامنے والے
چیلنجوں کے جواب میں، ملک نے مقامی سطح پر قبل از وقت وارننگ اور فوری
ردعمل کے نظام کو مضبوط کیا ہے، جو خطرے سے دوچار لوگوں کو پہلے ہی محفوظ
مقامات پر منتقل کر دیتا ہے اور عوام کی رہنمائی کرتے ہوئے تباہی سے نمٹنے
میں مدد کرتا ہے۔ ملک نے ایمرجنسی رسپانس ٹیموں اور کمانڈ پلیٹ فارمز کی
صلاحیت کو بہتر بنایا ہے، ساتھ ہی ساتھ میٹریل اور انفارمیشن ٹیکنالوجی
اسپورٹ نے ہنگامی ردعمل کی مجموعی صلاحیت کو بہتر بنایا ہے۔اسی طرح ریسکیو
ٹیموں میں جدت اور اپ گریڈنگ کو تیز کیا گیا ہے، 3,500 سے زیادہ پیشہ ور
ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جو لینڈ سلائیڈنگ، سیلاب اور زلزلے سے بچاؤ اور
دیگر ہنگامی ردعمل کے شعبوں میں مہارت رکھتی ہیں۔ چین نے چھ علاقائی
ایمرجنسی ریسکیو مراکز کی تعمیر بھی شروع کر دی ہے، تقریباً 3 بلین یوآن
(تقریباً 436 ملین امریکی ڈالر) مالیت کے بڑے ہنگامی سامان کے مرکزی ذخیرے
میں اضافہ کیا ہے اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے جدید آلات، جیسے پانی کے اندر
روبوٹ وغیرہ، نصب کیے ہیں۔
انہی اقدامات کے ثمرات ہیں کہ ملک میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران کام کی جگہ
پر ہونے والے حادثات کی تعداد میں بھی مسلسل کمی واقع ہوئی ہے۔ لوگوں کی
حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے چین نے محفوظ پیداواری عمل کو نمایاں اہمیت دی
ہے اور مقامی حکومتوں، صنعتی نگراں اداروں اور کاروباری اداروں کی ذمہ
داریوں کو واضح کرتے ہوئے دیرپا مضبوط اقدامات متعارف کروائے ہیں ۔اسی خاطر
خطرناک کیمیکلز، کان کنی، آگ سے تحفظ، نقل و حمل، ماہی گیری کے جہازوں اور
صنعتی پارکس سے متعلق شعبوں میں تین سالہ ورک سیفٹی مہم چلائی گئی ہے۔ ملک
نے تجارتی استعمال کے لیے خود ساختہ مکانات، گیس، الیکٹرک بائیسکل، الیکٹرو
کیمیکل انرجی اسٹوریج اور آف شور ونڈ پاور کے شعبوں میں بھی خصوصی مہم
چلائی ہے تاکہ ابھرتی ہوئی کاروباری شکلوں میں خطرات کو کم کیا جا سکے۔ چین
نے کام کے دوران حفاظتی امور سے متعلق قانون پر بھی نظر ثانی کی ہے اور
گزشتہ دہائی میں متعلقہ ضوابط اور صنعتی معیارات متعارف کروائے ہیں، جبکہ
خلاف ورزیوں کی اطلاع دینے کے لیے عوام کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک نظام
بھی قائم کیا گیا ہے۔چین واضح کر چکا ہے کہ اگلے مرحلے میں، ہر سطح پر
ایمرجنسی مینجمنٹ حکام لوگوں کی زندگیوں کو اولین ترجیح دیتے رہیں گے، بڑے
خطرات کو روکنے اور ان پر قابو پانے کے لیے ہر ممکن کوششیں کریں گے، اور
ملک کے ہنگامی انتظام کے نظام اور صلاحیت کو مزید بہتر بنائیں گے۔یہ
پاکستان جیسے ممالک کے لیے بھی ایک سبق اور عمدہ ماڈل ہے کہ چین سے سیکھتے
ہوئے آفات سے نمٹنے کے لیے قبل ازوقت منصوبہ بندی کی جائے تاکہ قیمتی
انسانی جانوں کا تحفظ ممکن ہو سکے اور معیشت بھی متاثر نہ ہو۔
|