یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب ایشیا میں دونئے افراد یا
مختلف تہذیبوں کے لوگ ایک دوسرے سے متعارف ہوئے تو ان کے درمیان ضروریات
زندگی کی تکمیل اور بات چیت کے نتیجے میں ایک نئی تہذیب و زبان کی راہ
ہموار ہونے لگی جو بتدریج کسی ملک و قوم کے تہذیب و ثقافت اور علم و ادب کا
حصہ بن کر اس ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کا ذریعہ ثابت ہوئی۔ ایسے میل
جول اور آپس میں تعلقات اور اخذ و قبول کے نتیجے میں اُردو کی فضا ہموار
ہوئی۔ گیارہویں صدی عیسوی میں اختلاط و ارتباط سے اردو زبان کا آغاز ہوا ۔جو
مسلمان ہندوستان آئے تو ان کی زبان عربی، فارسی، ترکی تھی لہٰذا وہ بات چیت
میں زیادہ تر اپنی زبان کا استعمال کرتے تھے۔ کیونکہ وہ پوری طرح سے مقامی
زبان سے واقف نہیں تھے اس لیے اظہار کے واسطے ملے جلے الفاظ استعمال کرنے
لگے مقامی الفاظ وزبان اور ہندوستانی مزاج و ماحول کا یہی ملا جلا انداز
ایک مشترکہ تہذیب اور نئی زبان کا ذریعہ بنا۔ اس زبان کو تاریخی پس منظر
میں مختلف ناموں سے یعنی ریختہ،ہندوی۔اردوئے معلیٰ ،ہندوستانی اور اُردو کے
نام سے جانا گیا۔
ہمارے ملک میں انگریزی زبان کے بڑھتے ہوئے استعمال سے ان بات کا اندازہ
لگانا مشکل نہیں کہ ہمارے نوجوان اردو کی تاریخ سے کس قدر ناواقف ہیں ۔ یہ
کسی کی بھی ملک پہچان اس کی زبان ہوتی ہے لیکن ہمارے نوجوان اپنی یہ پہچان
کھو رہے ہیں اس میں کچھ قصور ہمارے تعلیمی نظام کا بھی ہے۔ ہمارے بہت سے
مضامین اردو کے بجائے انگریزی میں پڑھائے جاتے ہیں۔اردو کو وہ اہمیت نہیں
دی جاتی جو اس کا اصل حق ہے۔
اردو زبان کی ترقی اور ترویج کے سلسلے میں بات کرتے چلیں تو حکومت کی طرف
سے جاری کردہ 2015 کے اس بل کے بارے میں بات کرتے ہیں جس پر کوئی عمل درآمد
نہیں ہوا۔ بلکہ المیہ تو یہ تھا کہ وہ بل بھی اُردو کے بجائے انگریزی زبان
میں سامنے آیا ۔
آپ کو بتاتا چلوں کہ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین
رکنی بینچ نے اردو کو سرکاری زبان کے طور پر استعمال کرنے سے متعلق توہین
عدالت کی درخواست کی سماعت کی۔
جسٹس بندیال نے کہا کہ مادری زبان اور قومی زبان کے بغیر ہم اپنی شناخت کھو
دیں گے، انہوں نے مزید کہا کہ میری رائے کے مطابق ہمیں اپنے آباؤ اجداد کی
طرح فارسی اور عربی بھی سیکھنی چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 2015 میں اردو کو سرکاری زبان بنانے کا
حکم دیا تھا جس پر وفاقی حکومت عمل کرنے میں ناکام رہی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 251 میں علاقائی زبانوں کے ساتھ مادری
زبان کا بھی ذکر ہے۔
ماہرین نے ہندوستان میں اردو کے احیاء کا مطالبہ کیا ہے۔
وکیل کوکب اقبال نے اردو زبان استعمال نہ کرنے پر توہین عدالت کی درخواست
دائر کر رکھی ہے جب کہ ایک شہری ڈاکٹر سمیع کی جانب سے پنجاب حکومت کے خلاف
صوبے میں پنجابی (سرکاری زبان کے طور پر) رائج نہ کرنے پر توہین عدالت کی
درخواست بھی دائر کی گئی ہے۔
عدالت عظمیٰ نے وفاق اور پنجاب حکومت کو نوٹس بھجواتے ہوئے کیس کی سماعت
کچھ عرصہ کے لیے ملتوی کردی۔
جون کے شروع میں، وزیر اعظم عمران خان نے متعلقہ حکام کو تمام سرکاری
مصروفیات اردو میں منعقد کرنے کی ہدایت کی تھی، جس کا مقصد قومی زبان کو
مناسب احترام دینا اور اسے فروغ دینا ہے۔
جون میں وزیر اعظم کے دفتر کی طرف سے جاری کردہ ایک اعلامیہ میں کہا گیا ہے
کہ "وزیر اعظم کو یہ خواہش کرتے ہوئے خوشی ہوئی ہے کہ اب سے وزیر اعظم کے
لیے تمام پروگرامز/تقریبات، قومی زبان (اردو)میں منعقد کیے جائیں گے"۔
اس نے مزید کہا: "وزیراعظم کی مندرجہ بالا ہدایات پر عمل درآمد کے لیے مزید
ضروری کارروائی تمام متعلقہ افراد اس کے مطابق کریں گے۔"
مزید برآں، وزیر اعظم کے حوالے سے کہا گیا کہ وہ "قومی زبان کو فروغ دینے
اور اسے مناسب احترام دینے کے لیے پُر عزم ہیں ۔
بات درست ہے کہ ہمیں ہر زبان کا علم ہونا چاہیے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں
کہ ہم اپنی قومی زبان اردو کے ساتھ زیادتی کریں۔ میں خود انگریزی کا استاد
ہوں لیکن میں بولتے وقت اردو کو ترجیح دیتا ہوں۔دنیا میں جتنے بھی ترقی
یافتہ ممالک ہیں وہ ہمیشہ اپنی قومی زبان کو اولیت کا درجہ دیتے ہیں۔اپ جس
بھی ملک چلے جائیں وہاں کے وزراء آپ سے اپنی قومی زبان میں بات کریں گے اور
ساتھ میں ترجمان آپ کو اس کا ترجمہ کر کے دے گا۔اس بت سے ہی اندازہ لگا لیں
کے کسی ملک کی ترقی میں قومی زبان کتنا اہم کردار ادا کرتی ہے۔
ہماری دفتری زبان انگریزی نہیں بلکہ اردو ہونی چاہیے۔ اگر ہم نے اپنی قومی
زبان کو فروغ دیا تو ہماری آنے والی نسلیں اُردو زبان کی شناخت کھو دیں
گی۔آپ سب سے گزارش ہے کہ اُردو زبان کو فروغ دیں۔ہمارے والدین،اساتذہ کرام
بلکہ ہم سب اُردو بولیں، اردو لکھیں اور اُردو کی ترویج میں اپنا اہم کردار
ادا کریں۔ |