|
|
اسپین میں پاکستانی ہیئر ڈریسرز کی مقبولیت بڑھتی جارہی
ہے۔ بارسلونا اسپین میں پاکستانی ہیئر سیلون میں لوگوں کی لمبی قطاریں
دیکھنے میں آتی ہیں۔ وہاں لوگ ان کے کام کی صفائی، مہارت اور عمدہ اخلاق سے
شدید متاثر ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بہترین سروسز کے باوجود بھی ان کا
معاوضہ بہت کم ہوتا ہے جو کہ ہسپانوی سیلون سے آدھا ہے۔ ہسپانی خواتین کی
شدید خواہش ہے کہ ان دوکانوں پر ان کے بھی بال تراشنے کا انتظام ہو تو وہ
بھی کچھ بچت کر سکیں۔ |
|
اسپین میں اس وقت ایک لاکھ سے زیادہ پاکستانی مقیم ہیں
جو ستر کی دہائی میں اسپین جانا شروع ہوئے تھے لیکن زیادہ تر پاکستانیوں نے
2000ء میں امیگریشن ملنے کے باعث وہاں کا رخ کیا۔ شروع میں زبان نہ آنے کے
باعث پاکستانیوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور انھیں اپنا
کاروبار جمانے کے لئے کافی پاپڑ بیلنے پڑتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ
ساتھ پاکستانی تارکین نے اپنے بہترین کام کے باعث وہاں کے لوگوں کے دلوں
میں اپنا گھر کر لیا بلکہ اب تو یہ حالات ہیں کہ لوگ پاکستانیوں پر بہت
بھروسہ کرتے ہیں اور ان کے کام کو نہ صرف پسند کرتے ہیں بلکہ ان کو کاروبار
بڑھانے کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔ |
|
اسپین میں زیادہ تر پاکستانی زلف تراشوں نے یہ پیشہ وہاں جا کر اپنایا اس
سے پہلے ان کا یہ پیشہ ہرگز نہیں تھا لیکن شروع میں اپنے قدم جمانے کے لئے
جانے والے لوگوں کو ہر طرح کے کام کرنے پڑتے ہیں، شاید اپنے ملک میں یہ
افراد زلف تراشی کی طرف ہرگز نہیں جاتے۔ لیکن اب پاکستانی ہیئر ڈریسرز کی
مقبولیت کے باعث یہاں سے جانے والے پاکستانی اس کام کو سیکھتے ہیں اور
کاروبار کے طور پر یہ کام شروع کر دیتے ہیں کیونکہ وہاں لوگ پاکستانی ہیئر
ڈریسرز کے پاس جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ تو ان کا مناسب یا
کم معاوضہ ہے۔ پاکستانی وہاں 5 سے 6 یورو لیتے ہیں جبکہ ہسپانوی ہیئر
ڈریسرز 12 یورو سے ابتداء کرتے ہیں اور سروسز انتہائی نپی تلی فراہم کرتے
ہیں جبکہ پاکستانی باربر انتہائی خوش اخلاقی اور خندہ پیشانی کے ساتھ اپنے
گاہکوں کو سروسز فراہم کرتے ہیں۔ ان کے گاہک پاکستانی اور غیر ملکی دونوں
ہوتے ہیں۔ |
|
|
|
پاکستانی ہیئر سیلون
خواتین کو سروسز کیوں نہیں فراہم کرتے؟ |
اسپین کی خواتین کی شدید خواہش ہے کہ پاکستانی سیلون میں
خواتین کو بھی بال کٹوانے کی سہولت فراہم کی جائے کیونکہ ہسپانوی باربرز کے
دام بہت مہنگے ہیں اور پاکستانی باربرز اچھا کام کرتے ہیں اور وہ بھی ان سے
استفادہ اٹھانا چاہتی ہیں۔ ان خواتین کے خیال میں وہ اس طرح اپنے کاروبار
کو اور زیادہ بڑھاسکتے ہیں اور پاکستانی خواتین بھی اس روزگار سے کما سکتی
ہیں، دوسری جانب پاکستانی ہیئر ڈریسرز کا کہنا ہے کہ خواتین کو سروسز فراہم
کرنے کا مطلب دوکان کو بہت زیادہ اور بہترین مشینوں سے لیس کرنا ہوگا
کیونکہ خواتین کے نخرے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ دوکان کو بار بار اپ ڈیٹ کرنا
ہوگا اور اسے بیوٹی پارلر جیسا لک دینا ہوگا۔ |
|
زیادہ تر پاکستانی تارکین وطن اسپین میں کاروبار کرتے
ہیں۔ شروع میں پاکستانیوں کو اپنا کاروبار وہاں جمانے کے لئے کافی محنت
کرنی پڑتی تھی لیکن اب حالات مختلف ہیں، پاکستانوں کا اچھا نام ہونے کی وجہ
سے لوگ پاکستانی دوکانوں سے خریداری کو ترجیح دیتے ہیں۔ |
|
پاکستانی ہنر میں کسی سے پیچھے نہیں اور پاکستان کی
مٹھائیاں، نمکو، روایتی لباس، جیولری اور بالخصوص ٹرک آرٹ ساری دنیا میں
مقبول ہے۔ غیر ملک میں پاکستانی کلچر اور کھانوں کو بہت پسند کرتے ہیں ابھی
کچھ عرصہ پہلے کینیڈا کی ایمبیسی میں پاکستان سے ٹرک آرٹسٹ بلائے گئے تھے
اور وہاں ایمبیسی کی ایک دیوار پر ٹرک آرٹ کروایا گیا اور اس کی کینیڈین
حکومت نے نمائش کی۔ اسپین میں پاکستانیوں کے عمدہ اخلاق، کاروبار اور مہارت
کے چرچے سن کر دلی خوشی ملتی ہے۔ |
|
|
|
جب ہم ایک پاکستانی کے طور پر دوسرے ملک
جاتے ہیں اور لوگ ہمیں ایک پاکستانی کے حوالے سے جانتے ہیں تو ہم پر اپنے
ملک کی عزت کی بھاری ذمہ داری عائد ہو جاتی ہیں، ایک ایماندار معاشرے میں
کسی کی اچھائی کو دبانا نا ممکن ہے۔ دنیا کے ہر کونے میں پاکستانی اپنے
کاروبار، تعلیم اور ٹیلنٹ کی بدولت نام کما رہے ہیں اور ان کا امیج ایک
محنتی قوم کے طور پر ہوتا ہے لیکن بات اس وقت بگڑتی ہے جب چند پاکستانیوں
کی بےایمانیوں اور دھوکے بازی کے واقعات کی وجہ سے ان تمام اچھے پاکستانیوں
کی محنت پر پانی پھر جاتا ہے۔ پچھلے دنوں ترکی میں جانے والے چند
پاکستانیوں نے ترک خواتین کی تصویریں سوشل میڈیا پر ڈال دیں جس سے تمام
پاکستانیوں کے سر شرم سے جھک گئے۔ ترک قوم سے ہمارے تعلقات ہمیشہ سے
برادرانہ رہے ہیں لیکن اس واقعے کے بعد سے ان تعلقات میں ایک دراڑ سی محسوس
ہوئی ہے۔ امید ہے بیرون ملک جانے والے پاکستانی اپنی حب الوطنی کا ہمیشہ
پاس رکھیں گے۔ |
|
تحریر میں کچھ حقائق ڈی
ڈبلیو سے لئے گئے ہیں۔ |