آئے دن یہ بات عام ہوتی جارہی ہے کہ ہربچے کو ماں باپ
ڈاکٹر یا انجینئر بنانا چاہ رہے ہیں ۔اس میں بھی ہر ماں باپ کی یہ خواہش
ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچے کو ڈاکٹر بنا کررہی دم لینگے،اس کیلئے و ہ ہر طرح
کی قربانی دینے کیلئے تیارہیں۔یہ اچھی بات ہے کہ والدین اپنے بچوں کو اعلیٰ
تعلیم دلوانے کے تعلق سے سوچ رہے ہیں اور والدین کی ایسی سوچ ہونی بھی
چاہیے۔جس طرح سے والدین کی سوچ بچوں کو ڈاکٹر بنانے کی ہے اُسی سوچ کو لیکر
چند ایک تعلیمی ادارے اس فکرکا بخوبی استعمال کررہے ہیں اور ہر بچے کو
ڈاکٹر بنانے کا دعویٰ کرتے ہوئے اپنے یہاں تمام طرح کی سہولیات فراہم کرنے
کی بات بھی کررہے ہیں۔اس کام کو پوراکرنے کیلئےوالدین سے تعلیمی ادارے
لاکھوں روپیوں کی فیس بھی وصول کررہے ہیں۔پچھلے آٹھ دس سالوں میں مسلمانوں
کے یہاں ڈاکٹر بننے کی خواہش میں ہزاروں طلباء دن رات جدوجہد کررہے ہیں،ان
میں سے چند ایک ہی بچے کامیاب ہوکر نکل رہے ہیں،بہت کم بچے ہی ڈاکٹر بن
پارہے ہیں۔جب مسلمانوں میں یہ فکر پیدا ہوئی کہ ہمارے بچے ڈاکٹرس بن کر قوم
وملت کی خدمت کریں اور قوم کانام روشن کریں تو پوری قوم اس بات سے متفق
ہوئی تھی کہ قوم کے بچوں کی ہمت افزائی کی جائے۔لیکن جلدہی یہ بات سامنے
آئی کہ جو بچے ڈاکٹرس بن کر نکلے ہیں وہ پوری طرح سے نکل چکے ہیں،نہ وہ
قوم کے کام آرہے ہیں نہ ملک میں ان کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں۔ایک اندازے
کے مطابق پچھلے دس بارہ سالوں میں جو مسلم بچے ڈاکٹرس بن کرنکلے ہیں اُن
میں سے ایک بڑا حصہ یاتو کارپوریٹ اسپتالوں کا حصہ بن چکاہے یاپھر وہ
بیرونی ممالک کا رخ کرچکے ہیں۔تو نتیجہ یہی نکلا کہ"کھودا پہاڑ نکلا چوہا"
۔اب بھی عام معاشرے میں مسلم ڈاکٹروں کی خدمات نہ کہ برابرہے،جن ڈاکٹروں کو
مہم کے مطابق تیارکیاگیاتھاوہ ڈاکٹرس اب قوم وملت کے ہاتھ سے دورہیں،سب
اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہوچکے ہیں،تو ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا اُمت
مسلمہ کو صرف ایسے ڈاکٹروں کی ہی ضرورت ہے؟۔آج سماج میں ایسے بہت سے شعبے
ہیں جہاں پر مسلم نوجوانوں کی نمائندگی کی اشد ضرورت ہے۔مگر اس ضرورت کی
شناخت خود مسلمان نہیں کرپارہے ہیں وہ صرف انجینئر اور میڈیکل سائنس کے
پروفیشن کو ہی سب سے اعلیٰ پیشہ سمجھتے ہیں ،ا سکے علاوہ باقی پیشے ان کی
نظرمیں کچھ بھی نہیں ہیں۔جتنی محنت انجینئر وڈاکٹر بننے کیلئے ہماری نسلیں
کررہی ہیں وہی محنت پبلک سرویس کمیشن کے امتحانات کیلئے کرتے ہیں تو وہ 100
ڈاکٹروں کے اوپر افسر بن سکتے ہیں،سینکڑوں انجینئروں کوحکم دے
سکتےہیں،تحصیلدار ،اسسٹنٹ کمشنر،ڈپٹی کمشنر،یہاں تک کہ چیف سکریٹری جیسے
عہدوں کو بھی حاصل کرسکتےہیں۔یہاں صرف نام نہیں بلکہ بہت بڑے پیمانے پر کام
بھی ہوسکتاہے۔ایک فلمی ڈائلاگ ہے کہ"امی جان کہتی تھی کہ کوئی دھندہ
چھوٹانہیں ہوتا، اور دھندے سے بڑا کوئی دھرم نہیں ہوتا"۔بالکل اسی طرح سے
صرف ڈاکٹر کا پیشہ بڑا نہیں ہوتا اور دوسرے پیشے چھوٹے نہیں ہوتے۔ذرا غور
کریں کہ آج لاء ،جرنلزم،اڈمنسٹریشن جیسے شعبوں میں جو نوکریاں ہیں اُن سے
کتنی خدمات ہوسکتی ہیں،یہاں صرف پیسہ ہی نہیں بلکہ اپنی ایک شناخت ملتی
ہے،خدمات کرنے کاوسیع دائرہ ملتاہے،ان سب پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اگر
ان شعبوں میں ہماری قوم آگے آتی ہے تو قوم کو مستقل طو رپر تحفظ مل
سکتاہے اور یہ وقت کی ضرورت ہے۔
|