بُوئے خُوں آتی ہے اِس قوم کے افسانوں سے !

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورٙةُالتحریم ، اٰیت 9 تا 12 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اِفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیت و مفہومِ اٰیت !!
یٰایھا
النبی جاھد
الکفار والمنافقین
و اغلظ علیھم و ماوٰھم
جھنم و بئس المصیر 9
اے ہمارے نبی ! اسلامی ریاست میں انکارِ حق کا بیج بونے والے اِن مُنکروں اور نفاق کی فصل اُٹھانے والے اِن منافقوں کے خلاف آپ ایک ہی بار ایک ہی بھر پُور جنگ کر کے اِس طرح اِن کے سر کچل دیں کہ یہ بار بار سر اُٹھانے اور اہلِ ایمان کے درمیان فتنہ و شر پھیلانے کے قابل نہ رہیں ، اپنی اصل کے اعتبار سے تو یہ دونوں سر کش طبقے دھیرے دھیرے سُلگنے والی وہ جہنمی لکڑیاں ہیں جنہوں نے دھیرے دھیرے ہی جہنم میں جانا اور دھیرے دھیرے ہی اپنی اِن بُری جانوں کو اُس بُری جگہ میں جا کر جلانا ہے !
مطالبِ اٰیت و مقاصدِ اٰیت !
صوت و صدا و حرفِ ندا { یٰایھاالنبی } سے شروع ہونے والی اِس سُورت کی یہ اٰیت جو بذاتِ خود بھی اسی صوت و صدا اور اسی حرفِ ندا { یٰایھاالنبی } سے شروع ہوئی ہے اِس کی ایک خاص حربی تاریخ ہے اور اُس حربی تاریخ کو قُرآن نے قُرآن کے جن 13 مقامات پر بیان کیا ہے اُن میں سے پہلا مقام سُورٙةُالاٙنفال کی اٰیت 64 ، دُوسرا مقام سُورٙةُالاٙنفال کی اٰیت 65 ، تیسرا مقام سُورٙةُالاٙنفال کی اٰیت 70 ، چوتھا مقام سُورٙةُالتوبة کی اٰیت ، 73 ، پانچواں مقام سُورٙةُالاٙحزاب کی اٰیت 1 ، چٙھٹا مقام سُورٙةةالاٙحزاب کی اٰیت 28 ، ساتواں مقام سُورٙةُ الاٙحزاب کی اٰیت 45 ، آٹھواں مقام سُورٙةُالاٙحزاب کی اٰیت 50 ، نواں مقام سُورٙةُالاٙحزاب کی اٰیت 59 ، دسواں مقام سُورٙةُالمُمتحنة کی اٰیت 12 ، گیارھواں مقام سُورٙةُالطلاق کی اٰیت 1 ، بارھواں مقام سُورٙةُ التحریم کی اٰیت 1 اور آخری مقام سُورٙةُ التحریم کی یہی اٰیت 9 ہے جس میں اِس کا اعادہ کیا گیا ہے ، قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اِن 13 مقامات میں سے 10 مقامات تو وہ ہیں جن میں اللہ تعالٰی نے سیدنا محمد علیہ السلام کے سامنے قُرآن کے 10معاشرتی اٙحکام بیان کیئے ہیں ، گیارھواں مقام وہ ہے جس میں محمد علیہ السلام کو جنگ کا یہ دائمی قانون دیا ہے کہ { یٰایھاالنبی حسبک اللہ و من اتبعک من الموؑمنین } یعنی دین کے اِن تمام مُنکر و منافق دشمنوں کے مقابلے کے لئے آپ کو اللہ تعالٰی کی مدد کے بعد صرف اہلِ ایمان کے عملی تعاون کی ضرورت ہے اور اِن دو چیزوں کے علاوہ آپ کو کسی فرد یا قوم سے کسی اور چیز کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، جنگ کے اِس علمی قانون کے بعد اِس خطاب کا بارھواں مقام سُورٙةُالتوبة کی اٰیت 73 کا وہ مقام ہے جس میں آپ کو پہلی بار یہ حُکم دیا گیا ہے کہ { یٰایھاالنبی جاھدالکفار والمنافقین و اغلظ علیھم و ماوٰھم جھنم و بئس المصیر } یعنی اٙب آپ اسلامی ریاست میں انکارِ حق کا بیج بونے اِن مُنکروں اور اِس بیج سے نفاق کی فصل اُگانے اور اُٹھانے والے اِن منافقوں کے ساتھ ایک ہی بار ایک ہی فیصلہ کُن جنگ کر کے اِن کے سر اِس طرح کچل دیں کہ یہ اسلامی ریاست میں بار بار سر اُٹھانے اور بار بار فتنہ و شر پھیلانے کے قابل ہی نہ رہیں کیونکہ یہ لوگ دھیمے دھیمے اور دھیرے دھیرے جلنے والی اُن لکڑیوں کی طرح ہیں جو دیر سے جلتی ہیں اور دیر تک جلتی ہیں اور یہ لکڑیاں آگ پکڑنے سے پہلے دھواں پھیلاتی ہیں اور آگ پکڑنے کے بعد چاروں طرف آگ لگاتی ہیں اور مآلِ کار کے طور پر اِس آگ نے جہنم کی آگ میں مل جانا ہے جس میں انہوں نے جانا ہے اِس لِئے جہنم کی اِس بُری آگ کو ایک ہی بار جہنم کی بُری آگ سے ملانے کے لئے واصل جہنم کر دیا جائے اور اِس خطاب کے تیرھویں مقام پر آپ کو جو حُکم دیا گیا ہے وہ حرف بہ حرف اور لفظ بہ لفظ وہی حُکم ہے جو اِس سُورت کی اٰیت 9 میں دیا کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حربی حوالے سے پُورے قُرآن میں یہی تین اٙحکامِ حرب و ضرب ہیں جو سیدنا محمد علیہ السلام کو سُورٙةُالاٙنفال کی اٰیت 64 ، سُورٙةُالتوبة کی اٰیت 73 اور اِس سُورت کی اٰیت 9 میں دیئے گئے ہیں اور یہ کوئی حُسنِ اتفاق نہیں ہے بلکہ اٙمرِ واقعہ ہے کہ قُرآن میں جنگ کے اِحکام بھی تین ہیں اور قُرآن نے جن جنگوں کا ذکر کیا ہے اُن جنگوں کی تعداد بھی صرف تین ہی ہے اور اہلِ روایت نے رسول اللہ کی مدنی زندگی میں رسول اللہ کی جن 36 جنگی مُہمات کا ذکر کیا ہے اُن مُہمات کی تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ کُفارِ عرب ہر چھ ماہ بعد شہرِ مدینہ پر کوئی نہ کوئی حملہ کرتے رہتے تھے اور رسول اللہ بھی ہر چھ ماہ بعد اُن کے حملوں کا جواب دیتے رہتے تھے لیکن قُرآن نے چار مشہور جنگوں میں سے صرف جنگِ بدر و جنگِ احزاب اور جنگِ حنین کا ذکر کیا ہے اور اُس چوتھی جنگ کا کوئی ذکر نہیں کیا جو جنگِ اُحد کے نام سے اِس لئے مشہور ہے کہ اہلِ روایت نے سُورٙہِ اٰلِ عمران کی اٰیت 121 سے 181 تک بیان ہونے والی جنگِ بدر کی قُرآنی تفصیلات میں کسی قُرآنی قرینے کے بغیر ہی اُحد نام کی اِس جنگ کو بھی شامل کر دیا ہے جس جنگ میں اُن کی بیان کر دہ روایات کے مطابق سیدنا محمد علیہ السلام کے 12 اٙصحابِ محمد کے سوا باقی سارے اٙصحابِ محمد آپ کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اور اُس جنگ میں دشمن کے ہاتھوں نہ صرف یہ کہ آپ کے دندان مبارک شہید ہو گئے تھے بلکہ آپ کے ایک بہادر چچا حمزہ بن عبد المطلب کو بھی ابو سفیان کی بیوی ہندہ نے اپنے ایک وحشی غلام کے ذریعے قتل کروا کر اُن کے دل و جگر اور اُن کے ناک کان کاٹ کر اُن سے اپنے گلے کا ہار بنالیا تھا ، عقلِ سلیم تو یہ کہتی ہے کہ قرآنِ کریم میں دیگر تین جنگوں کا کوئی ذکر ہوتا نہ ہوتا اِس جنگ کا بہر حال ذکر ہوتا جس جنگ میں اتنا نقصان ہوا تھا ، قُرآن کی رُو سے اگرچہ اِس جنگ کا کوئی وجُود نہیں ہے لیکن ایک لٙمحے کے لئے مان لیجئے کہ جس جنگِ اُحد کا قُرآن نے ذکر نہیں کیا ہے اُس کو اہلِ روایت فعال اہلِ روایت نے بیان کر دیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ اِس جنگ میں یہ سب کُچھ ہونے کے بعد آخر کُفار کا وہ فاتح لشکر کہاں چلا گیا تھا جس نے اہلِ اسلام کے ہارے بکھرے ہوئے لشکر میں سے کسی ایک فرد کو بھی قیدی نہیں بنایا تھا ، اُس ہارے ہوئے لشکر کے زخمی سالار کو مزید نقصان بھی نہیں پُہنچایا تھا جس کے ساتھ اُس وقت اُس کے صرف دس یا بارہ ساتھی موجُود تھے ، اُس فاتح لشکرنے اِس ہارے ہوئے لشکر کے مالِ غنیمت پر قبضہ کرنا تو کُجا ، اِس کے ایک لشکری کے کسی ایک ہٙتھیار پر بھی قبضہ نہیں کیا تھا اور اچانک ہی وہ لشکر ہوا میں اِس طرح تحلیل ہو گیا تھا کہ جیسے اُس کا کہیں پر کوئی وجُود ہی نہیں تھا ، یہی وجہ ہے کہ اہلِ روایت اپنی اُس روایتی جنگ کے بارے میں کبھی بھی اِن سوالات کا کوئی جواب نہیں دے سکے چنانچہ اہلِ روایت کے ایک بڑے ترجمان سید ابوالاعلٰی مودودی مرحوم تفہیم القُرآن میں اِس اٰیت کے مُتعلقہ حاشیئے میں لکھتے ہیں کہ { اِس موقعے پر یہ ایک معما ہے جو حل نہیں ہو سکا کہ وہ کیا چیز تھی جس نے کفارِ مکہ کو خود بخود واپس پھیر دیا تھا ، مسلمان اس قدر پراگندہ ہو چکے تھے کہ ان کا پھر مجتمع ہو کر باقاعدہ جنگ کرنا مشکل تھا ، اگر کفار اپنی فتح کو کمال تک پہنچانے پر اصرار کرتے تو ان کی کامیابی بعید نہ تھی مگر نہ معلوم کس طرح وہ آپ ہی آپ میدان چھوڑ کر واپس چلے گئے } ظاہر ہے جس جنگ کا کوئی وجُود ہی نہیں تھا اور جو جنگ اٙصحابِ محمد کو بدنام کرنے کی ایک سازش کے طور پر وضع کی گئی تھی تو اُس کے بارے میں اِن سوالوں کا جواب کہاں سے آتا ، جہاں تک اِس اٰیت کے اُس تاریخی پس منظر کا تعلق ہے جس کا ہم نے ابتدا میں ذکر کیا ہے تو اُس تاریخی پس منظر کی حقیقت یہ ہے کہ جس وقت سُورٙةُالتوبة کے حوالے سے آپ نے اہلِ ایمان کو یہ اٰیت سنائی تھی تو اُس وقت کی زمینی حقیقت یہ تھی کہ منافقین آپ پر مالِ جنگ میں سے بعض کو مال زیادہ دینے اور بعض کو کم دینے کے الزام عائد کر کے مسلمانوں میں بٙد دلی پھیلا رہے تھے اور اللہ نے آپ کو اُن خاص حالات میں اپنی کتاب کا یہ خاص حُکم سنایا تھا کہ اِن لوگوں کے ساتھ آپ کی نرمی حد سے بڑھ چکی ہے اور اِس حساس لٙمحے کے بعد آپ اِن کے ساتھ مزید کوئی بھی رُو رعایت نہ برتیں بلکہ اہلِ ایمان کی مدد سے اِن کے ساتھ ایک ہی بار ایک فیصلہ کُن جنگ کر کے اِن کے فتنے کے اِس سیلاب کے کے سامنے ایک مضبوط بند باندھ دیں تا کہ یہ لوگ بار بار سر اُٹھانے اور بار بار فتنے پھیلانے کے قابل نہ رہیں اور دُوسری بار قُرآن نے آپ کو دُوسری بار اللہ کا یہ حُکم اُس وقت یاد دلایا تھا جب سُورٙةُالطلاق کے نزول کے بعد مشرکین و منافقین یہ گم راہ کُن افواہیں پھیلا رہے تھے کہ آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے جس کے بعد آپ کی خانگی مرکزیت ٹوٹنے کے ساتھ ہی آپ کی جماعتی مرکزیت بھی ٹوٹنے والی ہے اِس بنا پر ضروری تھا کہ اِن کی بر وقت سرکوبی کی جاتی ، مدینے میں اسلامی حکومت کے قیام کے بعد صرف یہی وہ دو مواقع تھے جن مواقع پر کفار و منافقین نے آپ کی ذاتِ گرامی کے بارے میں براہِ راست ایک فتنہ سامانی کا وہ ماحول پیدا کیا تھا جس پر آپ مسلسل صبر سے کام لے رہے تھے اور اللہ تعالٰی آپ کو اِن دونوں مواقع پر اِن فتنہ پر داز لوگوں کے خلاف اُس عملی جنگ کا حُکم دیاتھا جو عملی جنگ اِن دو سُورتوں کی اِن دو اٰیات میں مذکور ہے ، اِن دو مقامات کے سوا قُرآن میں جہاں جہاں پر بھی جنگ و جوابِ جنگ کی جو اٰیات وارد ہوئی ہیں وہ اسی قانونِ جنگ کی اُس جنگی حکمت عملی کا حصہ ہیں جو جنگی حکمتِ عملی اُس عملی جنگ کے دوران پیش آتی تھی اور پیشِ نظر رہتی تھی لیکن قُرآن کی اِس تاریخ ساز اور اِس اٰیت کی مُتعلقہ اٰیات کی اِن تاریخی تفصیلات نے اہلِ روایت کی اُن تمام روایات کا محل زمیں بوس کر دیا ہے جو روایات اہلِ روایت نے اہلِ اسلام میں نزولِ قُرآن کے پہلے گواہوں کی کردار کشی کے لئے بنائی اور پھیلائی تھیں اور یہی وہ گم کن روایات ہیں جن کو پڑھ پڑھ کر اور سُن سُن کر زمانے بھر کے اٙمن دشمن اہلِ کفر زمانے بھر کے اٙمن پرور اہلِ ایمان کے بارے میں مُسلسل یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ ، بُوئے خّوں آتی ہے اِس قوم کے افسانوں سے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 463901 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More